نبی اسرائیل اور قتل پیامبران

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا مسیح اور تثلیت

سورہٴ بقرہ میں جو آیات گزرچکی ہیں اُن میں اور اِس سورہ کے شروع میں جو آیات گزری ہیں اُن میں اُس تاکیدی عہد و پیمان کی طرف جو خداوند تعالیٰ نے نبی اسرائیل سے لیا تھا اشارہ ہوچکا ہے ۔ اس آیت میں دوبارہ اس عہد و پیمان کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرماتا ہے: ہم نے بنی اسرائیل سے پیمان کو وفا کرنے کا مطالبہ کرنے کے لئے ان کی طرف پیغمبر بھیجے (لقد اخذنا میثاق بنی اسرائیل و ارسلنا الیھم رسلاً)
جیسا کہ جلد اوّل میں بیان ہوچکا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیمان وہی ہے جس کی طرف سورہٴ بقرہ کی آیت ۹۳ میں اشارہ ہوا ہے یعنی اس پر عمل کرنے کا پیمان جو خدانے ان پر نازل کیا تھا ۔(۱)
پھر مزید کہتا ہے: انھوں نے نہ صرف یہ کہ اُس پیمان پر عمل نہیں کیا بلکہ جب بھی کوئی پیغمبران کے میلانات اور ہوا و ہوس کے خلاف کوئی حکم لاتا تو وہ اس کی مخالفت میں سخت ترین مقابلے اور جھگڑنے پر اتر آتے تھے ۔ اُن کے اثرات کو روکنے پر قادر نہ ہوتے تھے انھیں قتل کردیتے تھے ۔
(کلما جاء ھم رسول بما لا تھوی انفسھم فریقاً کذبوا و فریقاً یقتلون)۔
یہ ہیں طریقے منحرف اور خودخواہ افراد کے کہ بجائے اپنے رہبروں کی پیروی کرنے کے وہ اس بات پر مصر ہیں کہ رہبران کے میلانات اور خواہشات کے تابع ہوں اور اگر وہ ان کے میلانات اور خواہشات کے خلاف ہوں تو اس صورت میں نہ صرف ان کی رہبری قبول نہیں کرتے بلکہ انھیں زندہ رہنے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں ہوتے ۔
مندرجہ بالا جملے میں ”کذبوا“ ماضی کی شکل میں اور ”یقتلون“ مضارع کی صورت میں آیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا سبب قبل و بعد کی آیات کی لفظی مناسبت کا لحاظ رکھنے کے علاوہ کہ جو سب کے سب مضارع کی صورت میں آئے ہیں یہ ہو کہ چونکہ فعل مضارع استمرار پر دلالت کرتا ہے لہٰذا خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ اس روح اور فکر کے اُن میں ہمیشہ جاری رہنے کو بیان کرے کہ پیغمبروں کو جھٹلانا اور انھیں قتل کرنا ان کی زندگی کا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ ان کا یہ عمل ایک مستقل پروگرام اور مکتب کی صورت اختیار کرگیا تھا ۔(2)
بعد والی آیت میں ان سرکشیوں اور جرائم کے با وجود ان کی بے جا خود فریبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ان حالات کے با وصف وہ یہ کمان کرتے تھے کہ کوئی عذاب و سزا دامن گیرنہ ہوگی ۔
جیسا کہ دوسری آیات میں تصریح ہوچکی ہے وہ خود کو ایک برتر قوم و قبیلہ سمجھتے تھے اور خود کو خدا کا بیٹا کہتے تھے (وحسبوا ان لا تکون فتنة) ۔
آخر کار اس خطرناک فریب خوردگی نے اور اپنے آپ کو برتر سمجھنے نے ایک قسم کا پردہ ان کی آنکھوں اور کانوں پر ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے وہ آیات خدا دیکھنے سے اندھے اور کلماتِ حق سننے سے بہرے ہوگئے (فعمّوا وصمّوا)۔
لیکن جب انھوں نے اللہ کے عذاب کے نمونے اور اپنے بُرے اعمال کے انجام کا مشاہدہ کیا تو پشیمان ہوئے اور توبہ کرلی اور اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوئے کہ خداوند تعالیٰ کی دھمکیاں یقینی اور سچ ہونے والی ہیں نیز وہ قطعاً کوئی برتر خاندان نہیں ہیں تو خدانے بھی اُن کی توبہ کو قبول کرلیا (ثم تاب اللّٰہ علیھم) ۔
مگر یہ بیداری اور ندامت و پشیمانی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور انھوں نے دوبارہ طغیان دسر کشی اختیار کرلی اور حق و عدالت کو ٹھکرانا شروع کردیا اور ایک دفعہ پھر غفلت کے پردے کہ جو گناہ کے اندر ڈوب جانے کے آثار ہیں اُن کی آنکھوں اور کانوں پر پڑگئے اور پھر وہ آیات ِ حق دیکھنے سے اندھے اور حق کی باتیں سننے سے بہرے ہوگئے اور اُن میں سے بہت سوں کی یہ حالت ہوگئی (ثمّ عمّوا و صمّوا کثیر منہم ) ۔
شاید ”عموا“(اندھے ہوگئے)کو ”صموا“(بہرے ہوگئے) پر مقدم رکھنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہوکہ پہلی دفعہ انھیں آیات خدا اور پیغمبر کے معجزات کو دیکھنا چاہیے اور پھر ان کے احکام کو سننا چاہیے ۔ ”کثیر منھم“(ان میں سے بہت سے)کا ذکر ”عموا و صموا“ کے الفاظ کی تکرار کے بعد در حقیقت دونوں الفاظ کی توضیح کے طور پر ہے یعنی غفلت و بے خبری اور اندھے اور بہرے ہونے کی حالت حقائق کے مقابلے میں کوئی عمومی حیثیت نہیں رکھتی تھی بلکہ ہمیشہ ایک صالح اور نیک اقلیت بھی ان کے درمیان موجود رہی تھی اور یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کے یہودیوں پر حملے کسی طرح بھی نسلی اور قبائلی پہلو نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ صرف ان کے اعمال کی وجہ سے تھے ۔
کیا ”عموا و صموا“کے الفاظ کی تکرار کلیت اور تاکید کا پہلو رکھتی ہے یا یہ دو مختلف واقعات کی طرف اشارہ ہے جو بنی اسرائیل میں ہوئے تھے ۔ بعض مفسرّین کا خیال ہے کہ یہ دو مختلف واقعات کی طرف اشارہ ہیں ایک بابل کے لوگوں کے حملے کے وقت اور دوسرے ایرانیوں اور رومیوں کے حملے کے زمانے میں کہ جس کی طرف قرآن نے سورہٴ بنی اسرائیل کی ابتداء میں ایک مختصر سا اشارہ کیا ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ وہ بارہا اس حالت میں گرفتار ہوتے رہے ہیں اور جب بھی وہ اپنے بُرے اعمال کے منحوس نتائج دیکھتے تو توبہ کرلیتے اور پھر توبہ کو توڑ دلیتے نہ یہ کہ صرف دو ہی مرتبہ ایسا ہوا ۔ آیت کے آخر میں ایک مختصر اور پُر معنی جملے کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ خدا کسی وقت بھی ان کے اعمال سے غافل نہیں تھا اور تمام کام جو انجام دیتے ہیں انھیں وہ دیکھتا ہے ۔
(واللّٰہ بصیر بما یعلمون)

 

۷۲# لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللهَ ھُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِی إِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ إِنَّہُ مَنْ یُشْرِکْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ وَمَاٴْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ اٴَنصَارٍ .
۷۳# لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللهَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَہٍ إِلاَّ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَإِنْ لَمْ یَنتَھُوا عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْھُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ .
۷۴# اٴَفَلاَیَتُوبُونَ إِلَی اللهِ وَیَسْتَغْفِرُونَہُ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ۔
ترجمہ
۷۲۔ جنہوں نے یہ کہا کہ خدا مسیح ابن مریم ہی ہے وہ یقینا کافر ہیں (جبکہ خود) مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل تم خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی کیونکہ جو شخص کسی کو خدا کا شریک قرار دے گا خدانے اس پر جنت کو حرام کردیا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی یاور و انصار نہیں ہے ۔
۷۳۔ جنہوں نے یہ کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے وہ بھی یقینا کافر ہوگئے ہیں کیونکہ معبود یگانہ کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے اور اگر وہ اپنے اس قول سے دستبردار نہ ہوئے تو اُن میں سے (اس عقیدہ پر قائم رہنے والے) کافروں کو دردناک عذاب پہنچے گا ۔
۷۴۔ کیا وہ خدا کے حضور توبہ نہیں کرتے، اُس کی طرف نہیں پلٹتے اور اُس سے طلب بخشش نہیں کرتے جبکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

 


۱۔ تفسیر نمونہ جلد اوّل سورہ بقرہ آیت ۹۳ کے ذیل میں ۔
2۔ حقیقت میں ”فریقاً کذبوا و فریقاً یقتلون “کا جملہ جیسا کہ مجمع البیان اور دیگر تفاسیر میں آیا ہے در اصل ”کذبوا و قتلوا “ اور ”یکذبون و یقلون “ تھا ۔
 

 

ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا مسیح اور تثلیت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma