قابل توجہ نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
تم مشرکین کے بتوں اور معبودوں کو کبھی گالیاں نہ دوانھوں نے انتہائی اصرار کے ساتھ یہ قسم کھائی

قابل توجہ نکات

 

۱۔ خدا زینت دیتا ہے؟ اوپر والی آیت میں ہر شخص کے اچھے اور برے اعمال کو اس کی نظر میں زینت دینے کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ، ہوسکتا ہے کہ یہ بات بعض لوگوں کے لئے تعجب کا باعث ہو کہ کیا یہ بات ممکن ہے کہ خدا وندتعالی کسی کے عمل بد کو اس کی نظر میں زینت دے۔
اس سوال کا جواب وہی ہے جو ہم بارہا بیان کرچکے ہیں کہ اس قسم کی تعبیرات عمل کی خاصیت اور اثر کی طرف اشارہ ہوتی ہے، یعنی جس وقت انسان کسی کام کو بار بار انجام دے تو آہستہ آہستہ اس کی قباحت اور بدی اس کی نگاہ میں ختم ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی نظر میں ایک عمدہ صورت اختیار کرلیتا ہے اورچونکہ علت العلل اور مسبب الاسباب اور ہر چیز کا خالق خدا ہے اور تمام تاثیرات خدا ہی کی طرف منتہی ہوتی ہیں لہٰذا قرآن کی زبان میں اس قسم کے آثار کی بعض اوقات اس کی طرف نسبت دے دی جاتی ہے(غور کیجئے گا)۔
زیادہ واضح تعبیر میں” زین لکل امةعملھم “ کا معنی یہ ہے کہ ہم نے انھیں ان کے برے اعمال کے نتیجے میں گرفتار کردیا ہے یہاں تک کہ برائیاں ان کی نظر میں اچھائیاں معلوم ہونے لگی۔
اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جو بعض آیات قرآن میں عمل کو زینت دینے کی نسبت شیطان کی طرف دی گئی ہے وہ بھی اس بات سے اختلاف نہیں رکھتی کیوں کہ شیطان انھیں برے عمل کے انجام دینے کا وسوسہ کرتا ہے اور وہ شیطان کے وسوسے کے سامنے جھک جاتے ہیں آخر کار وہ اپنے عمل کے نتائج بد میں گرفتار ہوجاتے ہیں،علمی تعبیر کے لحاظ سے سببیت توخدا کی طرف سے ہے لیکن ایجاد سبب ان افراد اور شیطانی وسوسوں کے ذریعے ہوتا ہے ۔(۱)

۲۔ گالیاں نہ دینے کا حکم:اسلامی روایات میں بھی گمراہ اور منحرف لوگوں کو گالیاں نہ دینے کی قرآنی منطق کی پیروی کی گئی ہے اس لام کے بزرگ پیشوا ؤں اور رہنماؤں نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہمیشہ منطق واستدلال کا سہارا لیں اور مخالفین کے اعتقادات کے بارے میں گالی دینے کے لاحاصل حربے کو وسیلہ نہ بنائیں، ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے اصحاب کی ایک جماعت کو جو جنگ صفین کے دنوںمیں معاویہ کے پیروکار کو گالیاں دے رہی تھی، فرماتے ہیں:
انی اکرہ ان تکونواسبابین ولاکنکم لو وصفتم اعمالھم وذکرتم حالھم کان اصوب فی القول وابلغ فی العذر۔
مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم فحش گوئی کرنے والے اور گالیاں دینے والے بنو، اگر تم گالیاں دینے کے بجائے، ان کی کارگزاریوں کو بیان کرو اور ان کے حالات کا تذکرہ کرے(اور ان کے اعمال کا تجزیہ وتحلیل کرو) تو یہ بات حق وراستی کے زیادہ قریب ہے اور اتمام حجت کے لئے بہتر ہے۔(2)
۳۔بت پرست اور خدا کے بارے میں بدگوئی؟ بعض اوقات یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بت پرست خدا کے بارے میں بدگوئی کریں جب کہ ان کی اکثریت اللہ کا اعتقاد رکھتی تھی اور بتوں کا اس کی بارگاہ میں شفیع قرار دیتی تھی۔
لیکن اگر ہم ہٹ دھرم اور متعصب عوام کی وضع و کیفیت میں غور وفکر کریں تو ہم دیکھے گے کہ یہ بات کوئی زیادہ تعجب کا باعث نہیں ہے اس قسم کے لوگ جب غصہ میں آجاتے ہیں تو پھر کوشش کرتے ہیں کہ وہ مد مقابل کو جس طرح بھی ممکن ہو تکلیف اور دکھ پہنچائیں، چاہے اس کے لئے طرفین کے مشترک عقائد کی ہی بدگوئی کرنی پڑے، مشہور سنی عالم آلوسی تفیر روح المعانی میں نقل کرتے ہیں کہ جاہل عوام میں سے بعض نے جب یہ دیکھا کہ شیعہ شیخین کو برا بھلا کہتے ہیں تو انھیں غصہ آگیا اور انھوں نے حضرت علی - کی شان میں گستاخی اور اہانت شروع کردی، ایسے ایک شخص سے جب یہ پوچھا گیا کہ تو حضرت علی - کی جو تیری نزدیک بھی قابل احترام ہے کیوں اہانت کرتا ہے؟ تو وہ یہ کہنے لگا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ شیعوں کو اس طرح سے تکلیف اور دکھ پہنچاؤں، کیوں کہ میں نے انھیں اس چیز سے زیادہ اور کسی چیز کو دکھ دینے والا نہیں دیکھا اور بعد میں اسے اس عمل سے توبہ کرنے پر آمادہ کیا۔(3)

 


۱۰۹ وَاٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَہْدَ اٴَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَائَتْہُمْ آیَةٌ لَیُؤْمِنُنَّ بِہَا قُلْ إِنَّمَا الْآیَاتُ عِنْدَ اللهِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ اٴَنَّہَا إِذَا جَائَتْ لاَیُؤْمِنُونَ
۱۱۰ وَنُقَلِّبُ اٴَفْئِدَتَہُمْ وَاٴَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ
ترجمہ
۱۰۹۔انھوں نے بہت ہی اصرارسے اللہ کی قسم کھائی کہ اگر کوئی نشانی(معجزہ) ان کے لئے آجائے تو وہ یقینی طور پر اس پر ایمان لے آئیں گے (اے رسول تم یہ) کہہ دو کہ معجزات خدا کی طرف سے ہوتے ہیں( اور یہ بات میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میں تمھاری خواہش پر معجزہ لے آؤں) اور تم نہیں جانتے کہ وہ معجزات کے آجانے کے باوجود ایمان نہیں لائےںگے۔
۱۱۰۔ اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو اوندھا کردیں گے کیوں کہ وہ ابتدا میں ایمان لائے تھے اور انھیں طغیان وسرکشی کے عالم میں خود ان کی حالت مین چھوڑ دےں گے تاکہ وہ سرگرداں ہوجائیں۔

 

شان نزول

 

مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کی شان نزول کے بارے میں یہ نقل کیا ہے کہ قریش کا ایک گروہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ تم موسیٰ- اور عیسیٰ - کے بڑے بڑے معجزات بیان کرتے ہو اوراسی طرح دوسرے انبیاء کے بھی، تم بھی ہمیں کوئی ایسا ہی کام کرکے دکھاؤ تاکہ ہم ایمان لائیں، پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ تم کونسا کام چاہتے ہو کہ میں اسے تمھارے لئے انجام دوں ، انھوں نے کہا کہ تم خدا سے درخواست کرو کہ وہ کوہ صفا کو سونے میں تبدیل کردے اور ہمارے بعض پہلے کے مرے ہوئے مردے زندہ ہوجائیں اور ہم ان سے تیری حقانیت کے بارے میں سوال کریں اور ہمیں فرشتے بھی دکھا جو تیرے بارے میں گواہی دیں یا خدا اور فرشتوں کا اکھٹا اپنے ساتھ لے آ۔
پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں اگر ان میں سے بعض کام انجام دے دوں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے؟ انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم ایسا کریں گے( یعنی ایمان لے آئیں گے) مسلمانوں نے جب مشرکین کا اس سلسلہ میں اصرار دیکھا تو پیغمبر سے تقاضا کیا کہ آپ ایسا کریں شاید یہ ایمان لے آئیں، جونہی پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم دعا کرنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ ان میں سے بعض مطالبات کے لئے خدا سے دعا کریں( کیوں کہ ان میں سے بعض تو نامعقول اور محال تھے) کہ امین وحی خدا نازل ہوئے اور یہ پیغام لائے کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کی دعا قبول ہوجائے گی لیکن اس صورت میں (چونکہ ہر لحاظ سے اتمام حجت ہوجائے گا اور یہ حسی طور پر ظاہر بظاہر کھل کر سامنے آجائے گا) اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو سب کو سخت عذاب ہوگا( اور نیست ونابود ہوجائیں گے) لیکن اگر ان کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے اور تم انھیں ان کی اپنی اسی حالت پر چھوڑ تو ممکن ہے کہ ان میں سے بعض آئندہ توبہ کرلیں اور راہ حق اختیار کرلیں، پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے اسے قبول کرلیا اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں۔

 

 

 
۱۔ آیات قرآن میں ۸ مقامات پر برے اعمال کے زینت دینے کی نسبت شیطان کی طرف دی گئی ہے اور دس ۱۰ مقامات پر فعل مجہول کی شکل میں (زین) آیا ہے اور دو مقامات پر خدا کی طرف نشبت دی گئی ہے، اوپر جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر توجہ کرتے ہوئے تینوں مقامات کا معنی واضح ہوجاتا ہے۔
2۔نہج البلاغہ، کلام ۲۰۶صبحی صالح۔
3۔ تفسیر روح المعانی آلوسی جلد۷ صفحہ ۲۱۸۔
 
تم مشرکین کے بتوں اور معبودوں کو کبھی گالیاں نہ دوانھوں نے انتہائی اصرار کے ساتھ یہ قسم کھائی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma