یہودیوں کی کینہ پروری اور عیسائیوں کی نرم دلی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
اسلام کے پہلے مہاجرینحد سے تجاوز نہ کرو

ان آیت میں اُن یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے پیغمبر کے ہم عصر تھے ۔ پہلی آیت میں یہودیوں اور مشرکین کی ایک ہی صف میں قرار دیاگیا ہے اور عیسائیوں کو دوسری صف میں، ابتدا میں فرمایا گیا ہے: مومنین کے سخت ترین دشمن یہودی اور مشرکین ہیں لیکن عیسائی مومنین سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں ( لتجدن اشد الناس عداوة للذین اٰمنوا الیہود و الذین اشرکوا ولتجدن اقربہم مودة للذین اٰمنو الذین قالوا انا نصری)۔
تاریخ اسلام اس حقیقت کی اچھی طرح گواہ ہے کیونکہ اسلام کے خلاف لڑی جانے والی بہت سی جنگوں کے میدان میں یہودی بلا واسطہ یا بالواسطہ طریقہ سے دخیل رہے ہیں اور کسی عہد شکنی اور دشمنی سے باز نہیں آتے تھے ۔ اُن میں سے بہت ہی کم افراد ایسے ہیں جو حلقہ بگوش اسلام ہوئے جبکہ ہم اسلام ہوئے جبکہ ہم اسلامی جنگوں میں بہت کم مسلمانوں کو عیسائیوں سے آمنا سامنا کرتے دیکھتے ہیں اور ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ اُن میں سے بہت سے افراد مسلمانوں کی صفوں میں آملے ۔
اس کے بعد قرآن اس روحانی فرق کی دلیل اور رہن سہن کے اجتماعی طریقوں کو چند جملوں میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پیغمبر کے ہم عصر عیسائی کچھ ایسے امتیازات رکھتے تھے کہ جو یہودیوں میں نہیں تھے ۔
پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ ان میں علماء اور دانشمندوں کی ایک ایسی جماعت موجود تھی جو دنیا پرست یہودی علماء کی طرح حقیقت کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے تھے
(ذلک بان منہم قسیسین)۔(۱)
نیز اُن کے درمیان کچھ لوگ تارک دنیا بھی تھے کہ جواز روئے عمل لالچی یہودوں کے بالکل بر خلاف تھے اگر چہ وہ بھی کئی طرح کے انحرافات کے مرتکب تھے لیکن پھر بھی وہ ایک ایسی سطح پر تھے جو یہودیوں سے بالاتر تھی
(ورھباناً)۔
اُن میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو حق کے قبول کرنے میں خاضع تھے اور اپنی طرف سے تکبر کا اظہار نہیں کرتے تھے جبکہ یہودیوں کی اکثریت دین اسلام کو قبول کرنے سے اس وجہ سے سرتابی کرتی تھی کیونکہ وہ خود کو ایک برتر نسل سمجھتے تھے اور دین اسلام یہودیوں کی نسل میں قائم نہیں ہوا تھا
(وانھم لا یستکبرون)۔
علاوہ ازین ان میں سے ایک جماعت (جیسے جناب جعفر کے ساتھی اور حبشہ کے عیسائیوں میں سے کچھ لوگ) ایسے تھے کہ وہ جس وقت قرآن کی آیات کو سنتے تھے تو حق کے حاصل ہوجانے کی خوشی میں ان کی آنکھوں سے شوق کے آنسو جاری ہو جاتے تھے
(واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تری اعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق)۔
اور وہ صراحت کے ساتھ علی الاعلان بغیر کسی لاگ لپیٹ کے پکار اُٹھتے تھے پروردگارا ! ہم ایمان لے آئے ہیں ہمیں حق کے گواہوں اور محمد کے ساتھیوں اور یا و انصار میں سے قرار دے
(یقولون ربنا اٰمنا فاکتبنا مع الشَّاھدین)۔
وہ اس آسمانی کتاب کی ہلادینے والی آیات سے اس قدر متاثر ہوتے تھے کہ پکار اُٹھتے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم خدائے یکتا پر اور ان حقائق پر جو اُس کی طرف سے آئے ہیں ایمان نہ لائیں جبکہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں صالحین کے زمرے میں قرار دے
(و مالنا لا نوٴمن باللّٰہ و ماجاء نا من الحق و نطمع ان ید خلنا ربنا مع القوم الصَّالحین)۔
البتہ جیسا ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں یہ موازنہ زیادہ تر پیغمبر اسلام کے ہم عصر یہود و نصاریٰ کے بارے میں ہے کیونکہ یہودی آسمانی کتاب کے حامل ہونے کے باوجود مادیت سے بے اندازہ لگاوٴ کی وجہ سے مشرکین کی صف میں جاکھڑے ہوتے تھے ۔ جب کہ مذہبی نقطہٴ نظر سے اُن دونوں میں کوئی وجہ مشترک نہیں تھی ۔ حالانکہ ابتدا میں یہودی اسلام کی بشارت دینے والوں میں شمار ہوتے تھے اور اُن میں عیسائیوں کی طرح تثلیث اور غلو جیسے انحرافات موجود نہیں تھے ۔
لیکن ان کی شدید دنیا پرستی نے انہیں حق سے بالکل بیگانہ کردیا جبکہ اُس زمانے کے عیسائی ایسے نہیں تھے ۔
لیکن گذشتہ اور موجودہ زمانے کی تاریخ ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ بعد کے زمانوں کے عیسائی، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے جو یہودیوں کے جرائم سے کسی طرح کم تھے ۔ گذشتہ زمانے میں طویل اور خونین صلیبی جنگیں اور اِس زمانے کی ایسی بے شمار تحریکیں جو مسیحی سامراجی ممالک کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہیں ہیں کسی پرڈھکی چھُپی نہیں ۔ لہٰذا اُوپر والی آیات کو تمام عیسائیوں کے بارے میں ایک قانون کلی کے طور پر نہیں جاننا چاہیے ۔
و اذا سمعوا ما انزل الی الرسول ۔ اور اس کے بعد کے جملے اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ آیات صرف پیغمبر اکرم کے ہم عصر عیسائیوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔
اس کے بعد کی دو آیات میں ان ہی دونوں گرہوں کے انجام اور جزا و سزا کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ پہلے فرمایا گیا ہے: جن لوگوں نے صاحبِ ایمان افراد کے سامنے محبت کا اظہار کیا اور آیات الٰہی کے مقابلہ میں سر تسلیم خم کیا اور صراحت کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا خداوند تعالیٰ اس کے بدلے میں بطورِ جزا و ثواب انہیں جنت کے ایسے باغات عطا فرمائے گا جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور نیکو کار لوگوں کی یہی جزا ہے
(فاثا بہم اللّٰہ بما قالوا جنات تجری من تحتہا الانہار خالدین فیہا و ذٰلک جزاء المحسنین)۔(2)
اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے دشمنی کا راستہ اختیار کیا اور کافر ہوگئے
(والّذین کفروا و کذّبوا بِاٰیٰاتنا اولٰئک اصحاب الجحیم)۔

۸۷# یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا اٴَحَلَّ اللهُ لَکُمْ وَلاَتَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لاَیُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ۔
۸۸# وَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ اللهُ حَلاَلًا طَیِّبًا وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِی اٴَنْتُمْ بِہِ مُؤْمِنُونَ۔
۸۹# لاَیُؤَاخِذُکُمْ اللهُ بِاللَّغْوِ فِی اٴَیْمَانِکُمْ وَلَکِنْ یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُمْ الْاٴَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِینَ مِنْ اٴَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ اٴَھْلِیکُمْ اٴَوْ کِسْوَتُھُمْ اٴَوْ تَحْرِیرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَةِ اٴَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَةُ اٴَیْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا اٴَیْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ۔
ترجمہ
۸۷۔ اے ایمان والو! اُن پاکیزہ چیزوں کو جو خدانے تم پر حلال کردی ہیں اپنے اُوپر حرام نہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ خداوند سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔
۸۸۔ اور خداوند تعالیٰنے حلال اور پاکیزہ نعمات میں سے جو رزق تمہیں دے رکھا ہے اُنہیں کھاؤ اور اس خدا (کی مخالفت) سے پرہیز کرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔
۸۹۔ خداوند تعالیٰ تمہیں بے ہودہ (اور بے ارادہ) قسموں کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن وہ قسمیں کہ جنہیں (ارادہ کے سات) تم نے محکم کیا ہو ان کے بارے میں مواخذہ کرے گا ۔ اس قسم کی قسموں کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے (اور وہ کھانا ایسا ہونا چاہیے) جو تم عام پر اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو۔ یادس مسکینوں کو لباس پہنانا ہے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جسے ان میں سے کچھ میسّر نہ ہووہ تین دن روزے رکھے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ۔ جب تم قسمیں کھاتے ہو (اور پھر ان کی مخالفت کرتے ہو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو اور انہیں نہ توڑو۔ خداوند تعالیٰ اسی صرح سے اپنی آیات کو تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم اس کا شکر بجالاؤ۔


۱۔ کشیش اصل میں سریانی زبان کا لفظ کہ جس کا معنی عیسائیوں کا مذہبی پیشوا اور رہنما ہے جس کو عربی میں قسیس کہا جاتا ہے اس کی جمع قسیسین ہے ۔
2۔ ”ثابھم“ ثواب کے مادے سے لیا گیا ہے کہ جو اصل میں ”لوٹ آنے “ ”نیکی کرنے“ اور کسی کو نفع پہنچانے کے معنی میں ہے ۔

 

اسلام کے پہلے مہاجرینحد سے تجاوز نہ کرو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma