بے جا اصرار اور ہٹ دھرمی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
سلام بر مؤمنان! چند اہم نکات

ان آیات میں روئے سخن اسی طرح ہٹ دھرم مشرکین اور بت پرستوں کی طرف ہے جیسا کہ اس سورہ کی زیادہ تر آیات اسی بحث کے گرد گھومتی ہے، ان آیات کا لب ولہجہ کچھ اس طرح کا ہے جیسا کہ انھوں نے پیغمبر کو دعوت دی تھی کہ پیغمبر ان کے دین کی طرف جھک جائیں لہٰذا پیغمبر کو حکم ہوتا ہے کہ وہ انھیں صراحت کے ساتھ کہہ دے کہ: مجھے ان کی پرستش سے منع کیا گیا ہے جن کی تم خدا کے علاوہ پرستش کرتے ہو

 

(قُلْ إِنِّی نُھِیتُ اٴَنْ اٴَعْبُدَ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہ)(۱) ۔
لفظ
”نھیت“ (ممنوع قرار دیا گیا ہوں) جو فعل مجہول کی صورت میں لایا گیا ہے اس طرف اشارہ ہے کہ بتوں کی پرستش کا ممنوع ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا ۔
اس کے بعد ” کہہ دو اے پیغمبر کہ میںتمھاری ہویٰ وہوس کی پیروی نہیں کرتا“
( قُلْ لاَاٴَتَّبِعُ اٴَھْوَائَکُمْ)، اس جملے کے ذریعہ ان کا مطالبہ کا واضح جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ بت پرستی کوئی منطقی دلیل نہیں رکھتی اور ہرگز عقل وخرد سے مطابقت نہیں رکھتی کیوں کہ عقل اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ انسان جماد سے اشرف ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ انسان دوسری مخلوق کے سامنے یہاں تک کہ ایک پست تر مخلوق کے سامنے سر تعظیم جھکائے، اس کے علاوہ وہ زیادہ تر بت خود انسان کے گھڑے اور بنے ہوئے ہوتے تھے تویہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ چیز کہ جو خود انسان کی مخلوق ہو اس کی معبود اور اس کی حلال مشکلات ہوجائے، اس بنا پر بت پرستی کا سرچشمہ اندھی تقلید، خرافات اور ہوا پرستی کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔
آخر میں میں مزید تاکید کے لئے ارشاد ہوتا ہے: اگر میں ایسا کام کروں تو یقینا گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ ہوں گا

 

( قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُھْتَدِینَ) ۔
بعد والی آیت میں انھیں ایک اور جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ :میں اپنے پرور دگار کی طرف سے ایک واضح اور روشن دلیل رکھتا ہوں، اگرچہ تم نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی تکذیب کی ہے
( قُلْ إِنِّی عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَکَذَّبْتُمْ بِہِ ) ۔
”بینة“ اصل میں ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ جو دو چیزوں کے درمیان اس طرح سے جدائی ڈال دے کہ ان میں کسی طرح سے دوبارہ اتصال اور باہمی تعلق نہ ہوسکے، اس کے بعد روشن اور واضح دلیل کو بھی کہا جانے لگا کیوںکے وہ حق وباطل کو ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے ۔
فقہی اصطلاح میں اگرچہ ”بینة“ دوعادل افراد کی گواہی کو کہا جاتا ہے لیکن اس کا لغوی معنی کا مل طور پر وسیع ہیں اور دو عادلوں کی گواہی اس کا ایک مصداق ہے، اور اگر معجزات کو
”بینة“ کہا جاتا ہے تو وہ بھی اسی بنا پر ہے کہ وہ حق کو باطل سے جدا کرتے ہیں، اور اگر آیات واحکام الٰہی کو ”بینة“ کہتے ہیں تو وہ بھی اس وسیع مفہوم کے ایک مصداق کے طور پر ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں بھی پیغمبر کویہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کا سہارا لیں کہ خدا پرستی کی راہ میں اور بتوں سے جنگ میں میرا مدرک کامل طور سے روشن اور آشکار ہے اور تمھارا انکار اور تکذیب اس کی اہمیت میں کوئی کمی پیدا نہیں کرسکتے ۔
اس کے بعد ان کی بہانہ سازیوں میں سے ایک اور بہانہ جوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ لوگ کہتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو وہ عذاب کہ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو اسے جلدی لے آؤ، پیغمبر ان کے جواب میں کہتے ہیں: وہ چیز کہ جس کے بارے میں تم جلدی کررہے ہو وہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے
(مَا عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ)تمام کام اور تمام احکام سب کے سب خدا کے ہاتھ میں ہیں ( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہِ) ۔
اور بعد میں تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے : وہی ہے کہ جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے اور وہ حق کو باطل سے بہتر طور پر جدا کرنے والا ہے

 

(یَقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِین) ۔
ظاہر ہے کہ حق کو باطل سے وہی اچھی طرح جدا کرسکتا ہے کہ جس کا علم سب سے زیادہ ہو اور اس کے لئے حق وباطل کی شناخت کامل طور سے روشن ہو، علاوہ ازایں وہ اپنے علم ودانش کو روبہ عمل لانے کے لئے کافی قدرت بھی رکھتا ہو اور یہ دونوں صفات (علم وقدرت) نامحدود اور بے پایاں طور پر صرف خدا وند تعالیٰ کی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہے، لہٰذا وہ حق کو باطل سے سب سے بہتر طور پر جدا کرنے والا ہے ۔
بعد والی آیت میں پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے کہ اس ہٹ دھرم اور نادان گروہ کی جانب سے عذاب وسزا کے مطالبہ پر انھیں کہہ دو کہ وہ چیز جس کے جلدی ہوجانے کا مطالبہ تم اس سے کرتے ہو اگر وہ میرے قبضہ واختیار میں ہوتی اور میں تمھاری درخواست پر عمل کردیتا تو میرا اور تمھارا کام ختم ہوگیا ہوتا

 

( قُلْ لَوْ اٴَنَّ عِندِی مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ لَقُضِیَ الْاٴَمْرُ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ) ۔
لیکن اس غرض سے کہ کہیں وہ یہ خیال نہ کریں کہ ان کی سزا کو بھلا دیا گیا ہے آخر میں قرآن کہتا ہے: خدا وند تعالیٰ ستمگاروں اور ظالموں کو سب سے بہتر طور پر پہچانتا ہے اور موقع پر انھیں سزا دے گا
( وَاللَّہُ اٴَعْلَمُ بِالظَّالِمِینَ ) ۔


 
۱۔ لفظ ”الذین “ کا استعمال جو ذوی العقول جمع مذکر کے لئے ہوتا ہے بتوں کے لئے اس بنا پرہوا، کیوں کہ ان کی فکر کے دریچہ سے ان سے گفتگو کی جاری ہے ۔
2۔قاموس کہتا ہے: قص الشعر والظفر قطع منھما بالمقص ای المقراض “ بالوں اور ناخونوں کو مقارض یعنی قینچی سے کاٹنے کو عرب قص اور مقراض کو مقص (کسر میم وفتح قاف کے ساتھ ) کہتے ہیں ۔
سلام بر مؤمنان! چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma