خدا کے سوا اور کوئی پناہ گاہ نہیں ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
معاد پر استدلالپروردگار کی قدرت قاہرہ

خدا کے سوا اور کوئی پناہ گاہ نہیںہے

بعض نے ان آیات کے لئے ایک شان نزول نقل کی ہے، وہ یہ ہے کہ اہل مکہ سے کچھ لوگ پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے محمد! تونے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کام کا عمل سوائے فقر کے اور کوئی نہیں ہے، ہم اس بات کے لئے حاضر ہیں کہ اپنا مال تیرے ساتھ بانٹ لیں اور تجھے بہت ثروت مند کردیں تاکہ تم ہمارے خداؤں سے دستبردار ہوجاؤ اور ہمارے اصلی دین کی طرف پلٹ آؤ تو اوپر والی آیات نازل ہوئی اور انھیں جواب دیا گیا(۱)البتہ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے واردشدہ روایات کے مطابق اس سورہ کی آیات مکہ میںیکجا طور پر نازل ہوئی ہے اس بنا پر ہر ایک آیت کے لئے خاص اور علحیدہ شان نزول نہیں ہوسکتا، لیکن اس سورہ کے نازل ہونے سے پہلے پیغمبراور مشرکین کے درمیان گفتگو اور بحثیں ہوتی رہتی تھیں لہٰذا اس سورہ کی بعض آیات میں ان بحثوں کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہے،اس بنا پر کوئی منع نہیں ہے کہ رسول اللہ اور مشرکین کے درمیان اس قسم کی باتیں ہوئی ہوں اور خدا وند تعالیٰ ان آیات میں ان باتو ں کی طرف اشارہ دے رہا ہو ۔
بہر حال ان آیات میں بھی ہدف ومقصد اثبات توحید اور شرک وبت پرستی کے خلاف مبارزہ ہی ہے، مشرکین باوجود اس کے کہ وہ خلقت عالم کو خدا وند تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہی مخصوص سمجھتے تھے لیکن انھوں نے بتوں کو اپنی پناہ گاہ سمجھ رکھا تھا اور بعض اوقات اپنی ہر ایک حاجت کے لئے سی ایک بت کا سہارا لیتے تھے اور متعدد خداؤں (بارش کا خدا، نور کا خدا، ظلمت کا خدا، جنگ وصلح کا خدا رزق وروزی کا خدا) کے قائل تھے اور یہ وہی ارباب انواع کا عقیدہ ہے کہ جو قدیم یونان میں بھی وجود رکھتا تھا ۔
قرآن اس قسم کے غلط نظریے کو ختم کرنے کے لئے پیغمبر اس طرح حکم دیتا ہے: انھیں کہہ دو کہ کیا میں غیر خدا کو اپنا ولی وسرپرست اور پناہ گاہ قرار دے لوں حالانکہ وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور تمام موجودات کو رزق دینے والا ہے بغیر اس کے کہ خود اسے روزی کی ضرورت ہو (قُلْ اٴَغَیْرَ اللّٰہِ اٴَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَھُوَ یُطْعِمُ وَلاَیُطْعَمُ) ۔
اس بنا پر جب تمام چیزوں پیدا کرنے والا وہی ہے اور کسی دوسرے کی قدرت کا سہارا لئے بغیر اس نے سارے جہان کو پیدا کیا ہے اور سب کی روزی اسی کے ہاتھ میں ہے تو پھر کون سی دلیل ہے کہ انسان اس کے غیر کو اپنا ولی، سرپرست اور پناہ گاہ قرار دے،۔اصولی طور پر باقی سب مخلوق ہیں اور اپنے وجود کے تمام لمحات میں اس کے محتاج ہیں ، لہٰذا وہ کس طرح دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرسکتے ہیں ۔
یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اوپر والی آیت میں جب آسمان وزمین کی خلقت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو خدا کا ”فاطر“ کے عنوان سے تعارف کراتا ہے ”فاطر“ ”فطور“ کے مادہ سے ہے کہ جس کے معنی شگافتہ کرنے (پھاڑ نے)کے ہیں، ابن عباس سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے ”فاطرالسماوات والارض“ کے معنی اس وقت سمجھ میں آئے جب دو عربوں کو ایک کنویں کے بارے میں جھگڑتے ہوئے دیکھا ، ان میں سے ایک اپنی ملکیت کے ثبوت میں یہ کہتا تھا کہ ”انا فطرتھا“میں نے اس کنویں کو شگافتہ کیا اور بنایا ہے ۔
لیکن ہم فاطر کے معنی آج موجودہ علوم کی مدد سے ابن عباس کی نسبت زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کیونکہ یہ آج کے دقیق ترین علمی نظریات کے مطابق انتہائی پسندیدہ تعبیر ہے جو پیدائش جہان کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہے کیوںکہ سائنس والوں اور محققین کی تحقیقات کے مطابق عالم بزرگ(مجموعہ جہان) اور عالم کوچک(نظام شمسی) سب کے سب ابتداء میں ایک ہے تودہ تھے جو پے در پے تھپیڑوں کے اثر سے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اور اس کے کہکشاں اور نظام ہائے شمسی اور مختلف گرے وجود میں آگئے ۔سورہ انبیاء کی آیت ۳۰ میں یہ مطلب زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، جہاں پر فرمایا گیا ہے :
” اٴَوَلَمْ یَرَی الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا“
کیا کافر یہ نہیں جانتے کہ آسمان و زمین آپس میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے ہم انے انھیں ایک دوسرے سے جدا کیا ۔
ایک اور نکتہ کی طرف سے بھی غفلت نہیں کرنقا چاہےے اور وہ یہ کی صفات خدا میں سے یہاں صرف بندوں کو روزی دینے کا ذکر کیا گیا ہے ، یہ تعبیر شاید اس بنا پر ہے کہ انسان کی مادی زندگی میں زیادہ تر وابستگیاں انھیں مادی ضروریات کے زیر اثرہیں، یہی بات جسے اصطلاح میںروٹی کا ایک لقمہ کھا نا کہتے ہیں انسان کو طاقتوروں اور ارباب دولت کے سامنے جھکنے پر آمادہ کردیتی ہے، بعض اوقات تو لوگ پرستش کی حد تک ان کے سامنے سربسجود ہوجاتے ہیں، قرآن اس عبارت میں کہتا ہے: تمھاری روزی اس کے ہاتھ میں ہے، نہ تو وہ ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے اور نہ ہی بتوں کے ہاتھ میں صاحبان مال واقتدار خود نیاز مند ہیں اور انھیں کھانے کی احتیاج ہوتی ہےب، یہ صرف خدا ہے کہ جو صرف کھلاتا تو ہے مگر خود اسے کھانے کی احتیاج نہیں ہے ۔
قرآن حکیم کی دوسری آیات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی ملکیت ورزاقیت کے مسئلہ اور بارش برسانے اور سبزہ زاروں کی پرورش کرنے کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ مخلوقات سے وابستگی کا خیال لوگوں کے دماغ سے بالکل نکال دے ۔
اس کے بعد ان لوگوں کی پیش کش کا جواب دینے کے لئے جو پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کے یہ دعوت دیتے تھے کہ وہ مشرک کے ساتھ رشتہ جوڑ لیں ، کہتا ہے :علاوہ اس کے کہ عقل مجھے یہ حکم دیتی ہے کہ صرف اس ذات پر بھروسہ کروں کہ جو آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے، وحی الٰہی بھی مجھے حکم دیتی ہے کہ پہلا مسلمان میں بنوں اور کسی طرح بھی مشرکین کی صف میں نہ جاؤں (قُلْ إِنِّی اٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ اٴَوَّلَ مَنْ اٴَسْلَمَ وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُشْرِکِین) (2)
اس شک نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام سے پہلے دوسرے پیغمبر اور ان کی امتیں بھی مسلمان تھی اور خدا وند تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتی تھیں، اس بنا پر جب وہ یہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بنوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس امت کا سب سے پہلا مسلمان ۔
اور یہ حقیقت میں ایک اہم تربیتی مطلب کی طرف اشارہ بھی ہے کہ ہر رہبر کو اپنے مکتب اور مشن کے احکام کی انجام دہی میں تمام افراد سے زیادہ پیش قدمی کرنا چاہےے، اسے اپنے دین کا سب سے پہلا مومن اور اس پر عمل کرنے والا ہوناچاہئے اور سب سے زیادہ کوشش کرنے والا اور اپنے مکتب کے لئے سب سے زیادہ فداکاری کرنے والا ہونا چاہےے ۔
بعد والی آیت میں اس خدائی حکم پر جو وحی کے ذریعہ پیغمبر پر نازل ہوا ہے تاکید مزید کے لئے کہتا ہے :میں بھی خود اپنے لئے جوابدہی کا احساس کرتا ہوں اور قوانین الٰہی سے کسی طرح مستثنٰی نہیں ہوں، میں بھی اگر خداوند تعالیٰ کے حکم سے منحرف ہوجاؤں اور مشرکین کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جاؤں اور اس کی نافرمانی اور عصیان کروں تو اس عظیم دن۔روز قیامت۔کی سزا سے خائف وترساں ہوں(قُلْ إِنِّی اٴَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیم)(3)
اس آیت سے بھی اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبروں میں جوابدہی کا احساس دوسروں میں جوابدہی کے احساس سے زیادہ ہوتا ہے ۔
آخری آیت میں اس لئے کہ ثابت ہوجائے کہ پیغمبر بھی لطف ورحمت خداوندی پر بھروسہ کےے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتے اور تمام اختیارات اسی کے قبضہ ٴ قدرت میں ہیں، یہاں تک کہ خود پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم بھی پرور دگار کی رحمت بے پایاں پر ہی چشم امید لگائیں ہوئے ہیں اور اپنی نجات وکامیابی اسی سے طلب کرتے ہیں ۔فرمایاگیا:کہ رسول کہتے ہیں کہ جو شخص اس عظیم دن پروردگار کی سزا سے نجات پاجائے تا رحمت خدا اس کے شامل حال ہوگئی ہے اور یہ ایک توفیق الٰہی اور کھلی کامیابی ہے ۔ ( مَنْ یُصْرَفْ عَنْہُ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَہُ وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْمُبِینُ ) ۔
یہ آیات توحید کا آخری درجہ بیان کرتی ہیں، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کہ جو پیغمبروں کو بھی خدا کے ساتھ مستقل پناہ گاہ مانتے تھے، جیسے عیسائی جو حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نجات دہندہ سمجھتے تھے، صراحت کے ساتھ جواب دیا گیا ہے کہ پیغمبر تک بھی اس کی رحمت کے محتاج ہیں ۔
۱۷وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَہُ إِلاّھُوَ وَإِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرھُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ۔
۱۸ وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَھُوَ الْحَکِیمُ الْخَبِیرُ ۔
ترجمہ
۱۷۔ اگر تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے علاوہ کوئی بھی اسے برطرف نہیں کرسکتا اوراگر وہ تجھے کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے(اور ہر نیکی اسی کی قفرت سے بنی ہے)
۱۸۔ وہی ہے جو اپنے تمام بندوں پر قاہر ومسلط ہے اور وہ حکیم وخبیر ہے ۔


۱۔ تفسیر ابوالفتوح رازی وتفسیر مجمع البیان زیر نظر آیات کے ذیل میں ۔
2۔ انی امرت ------ غیر مستقیم خطاب ہے اور جملہ ولاتکونن--- خطاب مستقیم ہے شاید یہ تفاوت اس سبب سے ہے کہ شرک سے دوری اور نفرت پہلا مسلمان ہونے کی نسبت کئی درجہ زیادہ اہم ہے، اسی لئے شرک سے دوری کا مسئلہ خطاب مستقیم کی صورت میں ”نون تاکید ثقیلہ“ کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔
3۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ جملہ بندی کی ترتیب کا تقاضا یہ ہے کہ لفظ”اخاف“ جملہ”ان عصیت ربی“ کے بعد ذکر ہو ۔کیونکہ وہ شرط کی جزا کے طور پر استعمال ہوا ہے لیکن پیغمبر کا خوف اور جوابدہی کا احساس اس بات کا سبب بنا کہ پروردگار کے حکم کے سامنے”اخاف“ (میں ڈرتا ہوں) کا لفظ تاکید کے لئے مقدم رکھا جائے ۔

 

معاد پر استدلالپروردگار کی قدرت قاہرہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma