حضرت یوسف (علیه السلام) کا واقعہ تمام ہوا ۔ اس میں عبرت اور اصلاح کے بہت سے درس موجود ہیں ۔ا س میں گرانبہا قیمتی اور ثمر بخش نکات موجود ہیں اور یہ تاریخی واقعہ ہر قسم کی فضولیات اور خرافات سے پاک کرکے بیان کردیا گیا ہے ۔ اب قرآن روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے : یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم تیری طرف وحی کررہے ہیں ( ذَلِکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیہِ إِلَیْکَ) ۔
تو ہرگز ان کے پاس نہیں تھا جبکہ وہ مصمم ارادہ کررہے تھے اورمنصوبہ بنا رہے تھے ( وَمَا کُنتَ لَدَیْھِمْ إِذْ اٴَجْمَعُوا اٴَمْرَھُمْ وَھمْ یَمْکُرُونَ ) ۔ان باریکیوں اور تفصیلات کو صرف خدا جانتا ہے یاوہ شخص جو اس موقع پر موجود تھا اور چونکہ تو وہاں موجود نہیں تھا لہٰذا صرف وحی الہٰی ہے جو ایسی خبریں تجھ تک پہنچ جاتی ہیں ۔
یہاں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت یوسف (علیه السلام) کا واقعہ اگر چہ تورات میں آیاہے اور قاعدتاً حجاز والے اس کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھتے تھے پھر بھی پوری تفصیلات کے ساتھ تمام واقعہ حتی کہ جو کچھ خصوصی مجالس میں ہواتھا لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ جس میں کوئی اضافہ نہ کیا گیا ہو اور خرافات شامل نہ کی گئی ہو ں ۔
ان حالات میں لوگوں کو چاہیئے کہ ان سب نشانیوں کو دیکنے کے بعد اور ان خدا ئی نصیحتوں کو سننے کے بعد ایمان لے آئیں اور غلط راستے سے پلٹ جائیں مگر اے پیغمبر ! اگر چہ تو اس پر اصرار کرے کہ یہ ایمان لے آئیں ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائیں گے ( وَمَا اٴَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِینَ) ۔
لفظ ” حرص “ لوگوں کے ایمان لانے کے لئے پیغمبر کے شدید لگاوٴ اور شقو کی دلیل ہے لیکن صرف آپ (علیه السلام) کا شوق اور حرص کا فی نہ تھا ۔ زمینوں اور طرفوں کی قابلیت بھی شرط نہ تھی ۔
یعقوب (علیه السلام) کے بیٹے کہ جو وحی و نبوت کے ماحول میں پلے بڑھے تھے جب وہ ہوا وہوس میں گرفتار ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنے بھائی کو نابود کرنے پر تل سکتے ہیں تو پھر دوسروں سے کیا توقع کیا جاسکتی ہے کہ وہ ہواو ہوس کے دیواور شہوت بھوٹ پر غالب آجائیں اور سب کے سب ایک ہی دفعہ پوری طرح خدا کی طرف رخ کریں ۔
یہ جملہ ضمنی طور پر پیغمبر کی ایک طرح سے تسلی اور دلجوئی کے لئے ہے کہ وہ لوگوں کے کفر و گناہ پر اصرار سے ہ رگز مایوس نہ ہو جائیں اور اس راہ میں ہم سفروں کی کمی سے ملول ِ خاطر نہ ہوں ، جیسا کہ قرآن کی دیگر آیات میں بھی ہے مثلاً :
فلعلک باخع نفسک علیٰ اٰثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفاً
اے پیغمبر ! گویا تو چاہتا ہے کہ قرآن ان کے ایمان نہ لانے پر شدت تاسف سے اپنی جان گنوابیٹھے(کہف۔ ۶)
قرآن مزید کہتا ہے کہ در اصل تریری دعوت کو قبول نہ کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی عذر و بہانہ نہیں ہے کیونکہ علاوہ اس کے کہ اس میں حق کی نشانیاں واضح ہیں ”تو نے ا س کے بدلے ان سے ہر گز کوئی اجر مزدوری نہیں چاہی “ کہ جسے وہ مخالفت کا بہانہ بنا سکیں ( وَمَا تَسْاٴَلُھُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ) ۔
”یہ ایک عمومی دعوت ہے اور سب جہانوں کے لئے اورعالمین کے لئے ایک دھانی ہے “ اور یہ عام و خاص تمام انسانوں کے لئے بچھا یا گیا ایک دسترخوان ہے ( إِنْ ھُوَ إِلاَّ ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ) ۔
وہ در اصل اس لئے گمراہ ہوئے کہ ان کے پاس کھلی اور بینا آنکھ اور سننے والے کان نہیں ہیں ”’ آسمان و زمین میں بہت سے خدائی آیات ہیں کہ وہ جن کے قریب سے گزرجاتے ہیں اور ان سے منہ پھیر لیتے ہیں “ ( وَکَاٴَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَھُمْ عَنھَا مُعْرِضُونَ ) ۔
یہی حوادث کہ جنہیں ہر روز وہ اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ صبح کے وقت آفتاب افق ِ مشرق سے سر نکالتا ہے ۔ اس کی سنہری کرنیں پہاڑوں درّو ں ، صحراوٴں اور دریاوٴں پر پڑتی ہیں اور شام کے وقت افق مغرب میں ڈوب جاتا ہے اور رات کی گہری سیاہ چادر ہر جگہ کو ڈھانپ دیتی ہے ۔
عجیب و غریب نظام کے یہ اسرار ، یہ طلوع و غروب، سبزوں ، پرندوں، حشرات اور انسانوں میں زندگی کا یہ شور و غوغا ، یہ ندیوں زمزمہ ، نسیم سحری کا یہ ہمہمہ اور یہ سب عجیب و دلنشین نقش کہ وجود کے درو دیوار پر ہیں ۔ اس قدر آشکار ہیں کہ جو کوئی ان میں اور ان کے خالق میں غو ر و فکر نہ کرے وہ ایسے ہی ہے جیسے دیوار پر کوئی نشان تھا ۔
بہت چھوٹے چھوٹے امر ہیں جو ظاہرا ً کوئی اہمیت نہیں رکھتے ، جن کے قریب سے ہم بے اعتنائی سے گزر جاتے ہیں لیکن اچانک گہرائی تک پہنچنے والا ماہر پیدا ہوتا ہے جو کئی ماہ اور سالوں کے مطالعہ کے بعد عجیب و غریب اسرا ر معلوم کرتا ہے کہ جن سے دنیا کے منہ مارے تعجب کے کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں ۔
اصولی طور پر اہم بات یہ ہے کہ ہم جانیں کہ اس عالم ک وئی چیز معمولی اور بے اہمیت نہیں ہے کیونکہ ہر چیز خد اکی مصنوع و مخلوق ہے ۔ وہ خد اکہ جس کا علم لامتناہی او رجس کی حکمت بے پایاں ہے ۔ بے وقعت وہ لوگ ہیں جو اس عالم کو بے اہمیت اور سر سری سی چیز سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا اگر وہ ان آیات ِ قرآنی پر کہ جو تجھ پر نازل ہو ئی ہیں ایمان نہیں لاتے تو اس پر تعجب نہ کر کیونکہ وہ آیات ِ خلقت پر بھی ایمان نہیں لائے کہ جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ۔
بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : وہ جو ایمان لے آتے ہیں ان میں سے بھی اکثر کا ایمان خالص نہیں ہے بلکہ اس میں شرک کی آمیزش ہے ( وَمَا یُؤْمِنُ اٴَکْثَرُھُمْ بِاللهِ إِلاَّ وَھُمْ مُشْرِکُونَ ) ۔ہو سکتا ہے وہ خود سمجھتے ہوں کہ وہ خالص مومن ہیں لیکن شر ک کی رگیں عموماً ان کے
افکار ، گفتار اور کردار میں موجود ہوتی ہیں ۔
ایمان صرف یہ نہیں کہ انسان صرف وجود خدا کا اعتقاد رکھتا ہوبلکہ ایک خالص موحدوہ ہے جس کے قلب و جان میں خدا کے علاوہ کسی شکل میں کوئی معبود نہ ہو۔ اس کی گفتار خد اکے لئے ، اس کے اعمال خدا کے لئے اور اس کا ہر کام اسی کے لئے انجام پائے ۔
خدا کے قانون کے علاوہ کسی قانون کو قبول نہ کرے اور ا سکے غیر کی بندگی کا طوق اپنی گردن میں نہ ڈالے اور خدا یہ فرامین ک ودل و جان سے قبول کرے چاہے وہ اس کے میلان کے مطابق ہوں یا نہ ہوں ۔ خدا او رہوائے نفس کے انتخاب کے دوراہے پر ہمیشہ خدا کو مقدم شماار کرے ۔ یہ ہے ہر قسم کے شرک سے پاک ایمان ۔ عقیدے کا شرک ، گفتاگر اور عمل کا شرک ، اگر ہم واقعاً ہر پہلو کے بارے میں باریک بینی سے کام لیں تو دیکھیں گے کہ سچے ، خالص اور حقیقی موحد بہت کم ہیں ۔
اسی بناء پر اسلامی روایات میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
الشرک اخفی من دبیب النمل
انسانی اعمال میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے ۔ ( سفینة البحار جلد ۱ ص ۱۶۹۷)
یہ بھی روایت ہے :
ان اخوف ما اخاف علیکم الشرک الاصغر قالوا وما الشرک الاصغر یا رسول اللہ ؟ قال الریا، یقول اللہ تعالیٰ یوم القیامة اذا جاء الناس باعمالھم اذھبوا الیٰ الذین کنتم تراء ون فی الدنیا ، فانظروا ھل تجدون عندھم من جزاء ؟ !
رسول اللہ نے فرمایا:
خطر ناک ترین چیز کہ جس کا مجھے تم سے خوف ہے شرکِ اصغر ہے ۔
اصحاب نے پوچھا :
یا رسول اللہ : شرک ِ اصغر کیا ہے :
فرمایا:
ریا کاری ، قیامت کے دن جب لوگ اپنے اعمال کے ساتھ بار گاہ خد امیںحاضر ہوں گے تو پر وردگار انہیں کہ جو ددنیا میں ریا کرتے تھے ، فرمائے گا : ان کے پاس جاوٴ کہ جن کے لئے تم ریا کرتے تھے اور دیکھو کہ ان کے ہاں سے تمہیں کوئی اجر ملتا ہے ؟ 1
امام محمد باقر علیہ السلام سے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :
شرک طاعة ولیس شرک عبادة المعاصی التی ترتکبون وھی شرک طاعة اطاعوا فیھا الشیطان فاشرکوا باللہ فی الطاعة لغیرہ
اس آیت سے مراد اطاعت میں شرک کرنا ہے نہ کہ عبادت میں شرک کرنا اور جن گناہوں کے لوگ مرتکب ہوتے ہیں وہ شرک اطاعت
ہے کیونکہ اس میں وہ شیطان کی اطاعت کرتے ہیں اور اس عمل کی بناء پر خدا کے لئے اطاعت میں شریک کے قائل ہوتے ہیں ۔ 2
بعض دوسری روایات میں ہے کہ مراد ” شرک ِ نعمت “ ہے اس معنی میں کہ کوئی نعمت خدا کی طرف سے انسان کو پہنچے او روہ کہے کہ یہ نعمت فلاشخص کی طرف سے مجھے پہنچی ہے ، اگر وہ نہ ہوتا تو میں مرجاتا یا میری زندگی تباہ ہوجاتی اور میں بے چارہ رہ جاتا ۔( نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۷۶) ۔
یہاں غیر خد اکو روزی اور نعمات بخشنے میں خدا کا شریک شمارکیا گیا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ مندرجہ بالاآیت میں شرک سے مراد کفر، انکار خدا اور ظاہری طور پر بت پرستی کرنا نہیں ہے ۔ جیسا کہ امام علی بن موسیٰ رضا (علیه السلام) سے نقل ہوا ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :
شرک لایبلغ بہ الکفر
ایسا شرک جو کفر کے درجے تک نہ پہنچے ۔
البتہ وسیع مفہوم کے لحاظ سے شرک میں یہ تمام امر شامل ہیں ۔
زیر بحث آخری آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو ایمان نہیں لائے ، جو خدا کی واضح آیات کے قریب سے بے خبر گز رجاتے ہیں او رجو اپنے اعمال میں مشرک ہیں خدا تعالیٰ انہیں خبر دار کرتے ہوئے کہتا ہے : کیا یہ لوگ اپنے آپ کو اس امر سے مامون سمجھتے ہیں کہ اچانک اور بغیر کسی تمہید کے انہیں عذاب الہٰی آگھیرے ، احاطہ کرنے والا ایسا عذاب کہ جو ان کے سب کو آگھیرے( اٴَفَاٴَمِنُوا اٴَنْ تَاٴْتِیَھمْ غَاشِیَةٌ مِنْ عَذَابِ اللهِ ) ۔اور یا یہ کہ ناگہاں قیامت آپہنچے اور عظیم خد ائی عدالت لگ جائے اور ان کا حساب کتاب شروع ہو جائے کہ جب وہ بے خبر اور غافل ہوں (اٴَوْ تَاٴْتِیَھُمْ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَھُمْ لاَیَشْعُرُونَ) ۔
” غاشیہ” ڈھانپنے والی چیز اور ڈھکنے کے معنی میں ہے ۔ دیگر چیزوں کے علاوہ ھگوڑے کی زین پر ڈالنے جانے والے بڑے کپڑے کو بھی غاشیہ کہتے ہیں جو اسے ڈھانپ دیتا ہے ۔ یہاں پر اس سے مراد وہ سزا ہے جو تمام بد کاروں کا گھیر لے گی ۔ 3
”ساعة “ سے مراد قیامت ہے جیسا کہ بہت سی دوسری قرآنی آیات میں یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے ۔ البتہ یہ احتمال بھی ہے کہ ” ساعة“ ہولناک حوادث کے لئے کنایہ ہوکیونکہ قرآنی آیات بار بار کہتی ہیں کہ قیامت کے دن کا آغاز بہت ہی زیادہ ہولناک حوادث کے ایک سلسلے سے ہوگا ۔ مثلاً زلزلے ، طوفان اور بجلیاں یاموت کی گھڑی کی طرف اشارہ ہے ۔ پہلو تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
۱۰۸۔ قُلْ ھَذِہِ سَبِیلِی اٴَدْعُو إِلَی اللهِ عَلَی بَصِیرَةٍ اٴَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ۔
۱۰۹۔ وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالًا نُوحِی إِلَیْھِمْ مِنْ اٴَھْلِ الْقُرَی اٴَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَیَنْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلھِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ ۔
۱۱۰۔ حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا اٴَنّھُمْ قَدْ کُذِبُوا جَائَھُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَاءُ وَلاَیُرَدُّ بَاٴْسُنَا عَنْ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ ۔
۱۱۱۔ لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِھِمْ عِبْرَةٌ لِاٴُوْلِی الْاٴَلْبَابِ مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی وَلَکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیلَ کُلِّ شَیْءٍ وَھُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ۔
۱۰۸۔ کہہ دو : یہ میرا راستہ ہے کہ میں اور میرے پروکار پوری بصیرت سے لوگوں کو خد اکی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ خدا منزہ ہے او رمیں مشرکین میں سے نہیں ہوں ۔
۱۰۹۔ اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجا مگر شہر والوں میں سے ان مردوں کو کہ جن کی طرف ہم نے وحی کی ہے ۔ کیا ( تیری دعوت کے مخالفین نے ) زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھیں کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا کیا انجام ہوا اور آخرت کا گھر پر ہیز گاروں کے لئے بہتر ہے کیا تم عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ۔
۱۱۰۔ ( انبیاء نے اپنی دعوت اور دشمنوں نے اپنی مخالفت اسی طرح جاری رکھی) یہاں تک کہ پیغمبر مایوس ہو گئے اور انہوں نے گمان کیا کہ (حتی مومنین کے چھوٹے سے گروہ نے بھی ) ان سے جھوٹ بولا تو اس موقع پر جاری مدد ان کے پاس آئی۔ ہم جس شخص کو چاہتے ہیں نجات دیتے ہیں اور زیاں کار قوم کے لئے ہماری سزا اور عذاب کو پلٹا یانہیں جاسکتا ۔
۱۱۱۔ ان کی سر گزشتوں میں صاحبان ِ فکر کے لئے درس عبرت ہے ۔ یہ واقعات جھوٹی بات نہیں تھے بلکہ ( آسمانی وحی ہے اور ) گزشتہ آسمانی کتب ) سے ہم آہنگ ہیں جو اس کے سامنے ہیں اور ہر چیز ( کہ جو سعادت انسانی کی بنیاد ہے ) کی تشریح اور ہدایت و رحمت ہے ایسے گروہ کے لئے کہ جو ایمان لایا ہے ۔