(لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داوٴد و عیسی ابن مریم)۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 05
حضرت عیسیٰ کو فقط ایک فرستادئہ خدا (رسول) جانیں خدا نے انھیں ان ہی باتوں کی وجہ سے

ان آیات میں اس بناپر کہ اہلِ کتاب کو اُن سے پہلے لوگوں کی اندھی تقلید سے روکا جائے اُن کی بدبختی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے؟ بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ہے اور ان دو بزرگ انبیاء نے خدا سے درخواست کی ہے کہ وہ انھیں اپنی رحمت سے دور رکھے (لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داوٴد و عیسی ابن مریم)۔
اس سلسلے میں کہ صرف ان دو ہی پیغمبروں کا نام کیوں لیا گیا کئی احتمال پیش کیے گئے ہیں ۔ کبھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد زیادہ معروف نبی یہی دونوں تھے ۔ کبھی یہ کہا جات ہے اہلِ کتاب اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ داؤد کی اولاد ہیں ۔ لہٰذا قرآن اس جملے کے ذریعہ اس حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے کہ حضرت داؤد ان لوگوں سے کہ جنہوں نے کفر و طغیان اختیار کیا تھا متنفر تھے ۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ اس آیت میں دو تاریخی واقعات کی طرف اشارہ ہے کہ جس پر یہ دونوں عظیم پیغمبر غضب ناک ہوئے اور انھوں نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر لعنت کی ۔ حضرت داؤد نے ساحلی شہر ایلہ کے ساکنین پر کہ جو اصحاب سبت کے نام سے مشہور تھے ۔ ان کا قصہ سورہٴ اعراف میں آئے گا اور حضرت عیسیٰ نے اپنے پیروکاروں میں سے اس گروہ پر لعنت ونفرین کی کہ جنھوں نے آسمائی مائدہ کے نازل ہونے کے بعد بھی انکار ومخالفت کی راہ کئے رکھے تھی ۔
بہرحال اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نسل بنی اسرائیل سے ہونا یا حضرت عیسی کے ماننے والوں میں سے ہونا کسی کی نجات کا باعث نہیں ہوگا، جب تک اُن کے اعمال کے ساتھ ہم آہنگی نہ پیدا کی جائے ۔ بلکہ خود ان انبیاء نے ایسے افراد سے نفرت کی ہے ۔
آیت کا آخری جملہ بھی اس مطلب کی تائید کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ نفرت وبیزاری کا یہ اعلان اس بناپر تھا کہ وہ گنہگار اور تجاوز کرنے والے تھے

 

(ذٰلک بما عصوا وکانوا یعتدون)۔
اس کے علاوہ وہ لوگ کسی طرح بھی اپنے لئے کسی اجتماعی ذمہ داری کے قائل نہ تھے اور ایک دوسرے کو غلط کاری سے منع نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ اُن میں سے نیک لوگوں کا ایک گروہ خاموشی سے اور سازشی انداز میں گنہگار لوگوں میں عملی طور پر شوق پیدا کرتا تھا

 

(کانوا لایتناھون عن منکر فعلوہ)۔
اس طرح ان کی زندگی کا لائحہٴ عمل بہت ہی پست اور ناپسندیدہ تھا
(لبئس ماکانوا یفعلون)۔
اس آیت کی تفسیر میں پیغمبر اکرم اور ائمہ اہلبیت سے ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جو بہت ہی سبق آموز ہیں ۔
ایک حدیث میں جو پیغمبر سے روایت ہوئی ہے منقول ہے:
”لتاٴمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر ولتاٴخذن علی ید السفیہ ولتاطرنہ علی الحق اطرا، اٴو لیضربن اللّٰہ قلوب بعضکم علیٰ بعض ویلعنکم کما لعنہم“
”تم ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، نادان اور جاہل لوگوں کا ہاتھ پکڑو اور حق کی طرف دعوت دو ورنہ خدا تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کی مانند کردے گا اور تمھیں اپنی وصیت سے اسی طرح دور کرے گا جس طرح سے اس نے انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا تھا ۔(۱)
ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے
(کانوا لایتناھون عن منکر فعلوہ) کی تفسیر میں منقول ہے:
”اما انّھم لم یکونوا یدخلون مداخلھم ولایجلسون مجالسہم ولکن کانوا اذا لقوھم ضحکوا فی وجوھھم وانسو بھم“(2)
”یہ گروہ جن کی خدا مدمت کررہا ہے ہرگز گنہگاروں کے کاموں اور ان کی محفلوں میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ فقط اُس وقت جبکہ اُن سے ملاقات کرتے تھے تو اپن کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور ان سے مانوس تھے“
بعد والی آیت میں ان کے ایک اور غلط عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم اُن میں سے بہت سوں کو دیکھوگے کہ وہ کافروں کے ساتھ محبت اور دوستی کی بنایادیں استوار کرتے ہیں
(تریٰ کثیراً منھم یتولون الذین کفروا)۔
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان کی دوستی ایک عام دوستی کی طرح نہ تھی بلکہ وہ طرح طرح کے گناہوں سے مخلوط اور غلط اعمال وافکار کا شوق پیدا کرنے والی دوستی تھی لہٰذا آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: اُنھوں نے کیسے بُرے ااعمال اپنی آخرت کے لئے آگے بھیجے ہیں کہ جن کا نتیجہ خدا خشم وغضب تھا اور وہ ہمیشہ کے لئے غذابِ الٰہی میں مبتلا رہیں گے ۔
(لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَھُمْ اٴَنفُسُھُمْ اٴَنْ سَخِطَ اللهُ عَلَیْھِمْ وَفِی الْعَذَابِ ھُمْ خَالِدُون)
اس بارے میں کہ ”الذین کفروا“ سے اس آیت میں کون سے افراد مراد ہیں بعض نے تو یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ اس سے منظور مشرکین مکّہ ہیں کہ جن کے ساتھ یہودیوں نے دوستی کی پینگیں بڑھا رکھی تھیں اور بعض نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ اس سے منظور وہ ظالم وستمگر ہیں جن کے ساتھ یہودیوں نے گذشتہ زمانے میں دوستی کررکھی تھی ۔
وہ حدیث جو امام باقر علیہ السلام سے اس سلسلہ میں وارد ہوئی وہ بھی اس معنی کی تاکید کرتی ہے، آپ فرماتے ہیں:
”یتولون الملوک الجبارین ویزینون ھوائھم لیصیبوا من دنیاھم“(3)
”یہ گروہ ایسے لوگوںپر مشتمل تھا جو جابر بادشاہوں کو دوست رکھتے تھے اور ان کے ہوس آلود گناہوں کو ان کی نظر میں اچھا کرکے پیش کرتے تھے تاکہ انھیں اُن کا تقرب حاصل ہو اور ان کی دنیا سے بہرہ ور ہوں“
اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ آیت دونوں ہی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہو بلکہ ان معنی سے بھی بڑھ کر عام ہو۔

 

۸۱# وَلَوْ کَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالنَّبِیِّ وَمَا اٴُنزِلَ إِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوھُمْ اٴَوْلِیَاءَ وَلَکِنَّ کَثِیرًا مِنْھُمْ فَاسِقُونَ
ترجمہ
”اگر وہ خدا پر اور پیغمبر پر اور جو کچھ اس کے اوپر نازل ہوا ہے اُس پر ایمان لے آتے تو (ہرگز) انھیں اپنا دوست نہ بناتے لیکن ان میں بہت سے فاسق ہیں“

 



۱۔تفسیر مجمع البیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں اور تفسیر قطبی جلد چہارم صفحہ ۲۲۵۰ میں اسی مضمون کی ایک حدیث ترمذی سے نقل کی گئی ہے
2۔تفسیر برہان، ج۱، ص ۴۹۲؛ تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۶۶۱.
3۔مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل میں.

 

 

حضرت عیسیٰ کو فقط ایک فرستادئہ خدا (رسول) جانیں خدا نے انھیں ان ہی باتوں کی وجہ سے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma