آخری بات اور راستہ کی آخری رکاوٹ!

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
کامیابی کا راز
10۔ دل کش لوگوں کے نغمے

راہ خدا میںچلنے والوں کے لئے مشکل ترین کام ”اخلاص “ہے، اور اس راہ کی سب سے خطرناک رکاوٹ شرک اور ”ریا“ ہے ۔
معروف حدیث ہے” ان الشرک اخفی من دبیب النمل علی صفوانة سوداء فی لیلة ظلماء“ (۱)یہ حدیث راہ خدا کے راہیوں کو لرزا دیتی ہے ۔ اور دوسری حدیث ”ھلک العاملون الا العایدون و ھلک العایدون الا العالمون“” و ھلک الصادقون الا المخلصون“” و ان الموقنین لعلی خطر عظیم“ (۲)۔ یہ حدیث عامل علماء کو بھی ہلاک ہونے والوں میں شمار کر تی ہے ۔ اور مخلصین کو بھی ایک عظیم خطرے میں شمار کرتی ہے،انسان کو سخت پریشان اور سوچنے پر مجبور کردیتی ہے ۔
لیکن اللہ کی رحمت عام، رحمت خاص اور اس طرح کی آیات” انہ لا یائس من روح اللہ الا القوم الکافرون“(3) افسردہ دل میںامید کی نئی کرن پیدا کرتی ہے، اور نئی زندگی پیدا کرتی ہے ۔
یقینا ”اخلاص“وہ عمل ہے جو انفاق کے ثواب کو ستر گنا زیادہ کر دیتا ہے،اور بابرکت خوشوں ” فی کل سنبلة ماة حبة “(4) کو آب اخلاص سے پروان چڑھاتا ہے!
اخلاص کی بارش جب دل کی سرزمین پر برستی ہے تو ” کمثل جنة بربوةاصابھا وابل فآتت اکلھا ضعفین “ (5) کے حکم سے ایمان و یقین کے ثمرے کو دوگنا کر دیتا ہے ۔
اخلاص کا حاصل کرنا نہایت ہی سخت کام ہے ، اگرچہ اس کا راستہ بالکل واضح ہے؛ لیکن اس راستہ کا طے کرنا ایک سخت مرحلہ ہے ۔
جس قدر ہماری معرفت صفات جمال ، جلال، قدرت ، اور علم الھی کے بارے میں زیادہ ہوگی اسی قدر ہمارا اخلاص زیادہ ہوجائے گا ۔
اگر ہم اس بات کو جان لیں کہ عزت و ذلت اس کے ہاتھ میں ہے اور خیرات کی کنجی اس کے پاس ہے جیسا کہ قرآن مجید اس بات کی تصریح کرتا ہے” قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئی قدیر“کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ جو اس بات کو ثابت کرے کہ شرک ، ریاکاری اور غیر کے لئے عمل کرنے کے ذریعے ، کسی دوسرے سے عزت کا مطالبہ کیا جائے(6
جب ہم نے اس بات کو سمجھ لیا کہ اس کی مشیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا ”و ماتشاؤن الا ان یشاء اللہ “ (7) تو دوسرے سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا بے معنی ہے ۔
جب ہم نے اس بات کو جان لیا کہ وہ ہمارے ظاہر و باطن سے آگاہ ہے ” یعلم خائنة الاعنین و ما تخفی الصدور“ (8) تو ہمیں ہمیشہ اپنے نفس کا خیال رکھنا چاہیے ۔
اگر ہم نے ان امور کو اپنے تمام وجود کے ساتھ درک کر لیا تو اخلاص کی اس صعب العبور اور خطرناک گھاٹی سے سلامتی کے ساتھ گذر سکتے ہیں،بشرطیکہ ہم اپنے مکمل وجود کو دنیا کے زرق و برق مادی وسوسہ کے مقابلہ میں خدا کے سپرد کردیں ،
اور ہمارے حال و مقال کی زبان پر یہ جاری رہے ” رب لا تکلنی الی نفسی طرفة عین ابدا لا اقل من ذلک ولا اکثر “ (9) میرے معبود ہمیں دنیا و آخرت میں ایک لمحے کے لئے بھی اپنے سے جدا نہ کرنا“
اے میرے عزیز !اپنے آپ کو خدا کے حوالے کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوشش اور تلاش کو ترک کردیا جائے اور سستی اور کاہلی اختیار کر لی جائے ، بلکہ تمہارے پاس جس قدر بھی ہمت و توانی ہو اسے اپنی اصلاح میں صرف کرو، اور جو کچھ تمہاری قدرت سے باہر ہے اسے اللہ کے حوالے کردو،اور ہر حال میں اپنے آپ کو اس کے سپرد کردو، اور ظاہر و باطن میں تمہاری زبان پر یہ جملے رہے:
الھی قو علی خدمتک جوارحی واشدد علی العزیمة جوانحی ، و ھب لی الجد فی خشیتک ، والدوام فی الاتصال بخدمتک“ ”اے میرے پروردگار! میرے اعضاء وجوارح کو اپنی خدمت کے لئے توان عطاکر ،اور میرے ارادے کو اس کام کے لئے قوی کر! اور اپنے خوف کے راستے کی راہنمائی فرما ! اور ہمیشہ مجھے اپنی خدمت میں مصروف رکھ“! (10
آخر کار یہ راہ ہے اور یہ گڑھا ، اگر مرد میدان ہے تو کمر ہمت باندھ اور بسم اللہ کہہ کر قدم اٹھا اور ان اشعار کو اپنا شعار بنالے (اوران اشعار کے کہنے والے کو بھی فراموش نہ کر):
الھی دلی دہ کہ جای تو باشد پروردگار ایسا دل عطا کر جس میں تو رہتا ہو۔
پراز عشق ، نور و صفای تو باشد! جو تیرے عشق ، نور اور پاکیزگی سے بھرا ہو۔
دلی فارغ از ھای و ھوی ھوس ھا ایسا دل عطا کر جو ہوا وہوس سے پاک ہو
کہ مستغنی از ما سوای تو باشد اور تیرے علاوہ سب سے بے نیاز ہو
دلی پر سوز و گداز محبت ایسا دل جو تیری محبت میں جلتا ہو اور تیرا بھکاری ہو
پر از شوق و شور لقای تو باشد ایسا دل عنایت کر جو تیری ملاقات کے شوق سے بھرا ہو۔
الھی بجز تو نخواہم مرادی میرے پروردگار تیرے علاوہ میری کوئی مراد نہیں ہے
ھمین بس کہ اینم عطای تو باشد! بس یہی ایک مراد ہے اسے عطا کردے !
الھی مصفا کن این کعبہ دل پروردگار اس کعبہ دل کو صفا بخش دے
کہ سعیم ھمہ در صفای تو باشد! میری تمام کوشش یہ ہی ہے کہ تیری نور کے سائے میں زندہ رہوں !
بہ آب دو دیدہ دلم شستسو دہ اور میرے آنسوؤں کے ذریعہ میرے دل کو پاکیزہ کر !
کہ دائم دلم در ” ھوای تو باشد کہ ہمیشہ میرا دل تیری خواہش کرتا رہے ۔
مرا فانی از غیر ذاتت بگردان مجھے اپنی ذات کے علاوہ کسی اور چیز میں فنا کردے
کہ باقی دلم در بقای تو باشد کہ میرا دل بھی تیر ی بقا کے ساتھ باقی رہے!
بہ ” ناصر “ ز صھبای خودجرعہ ای دہ ”ناصر“ کو اپنی محبت کے پیالہ سے ایک جرعہ عطا کر
کہ سرمست عشق و ولای تو باشد ! تاکہ تیرے عشق اور محبت میں مست ہوجاؤں ۔


ناصر مکارم شیرازی

 


۱۔ بحار الانوار ، ج۱۸ ، ص ۱۵۸۔
۲۔ بحار الانوار ، ج ۷۰ ، ص ۲۴۵۔
3۔ سورہ یوسف، آیت ۸۷۔
4۔ سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۱۔
5۔ سورہ بقرہ ، آیت ۲۶۵۔
6۔ سورہ آل عمران ، آیت ۲۶۔
7۔ سورہ انسان، آیت ۳۰۔
8۔ سورہ غافر، آیت ۱۹۔
9۔ بحار الانوار ، ج ۱۴، ص ۳۸۷، ح ۶۔
10۔ دعائے کمیل کے بعض جملے ۔
 
10۔ دل کش لوگوں کے نغمے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma