تیسری جلاوطنی ”انارک نایین“

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
کامیابی کا راز
جلاوطن کی دوسری جگہ مہابادپہلا حادثہ

اس شہر کے تلخ اور شرین واقعات کو چھوڑتے ہوئے تیسری جلاوطنی کی جگہ یعنی شہر ”انارک نایین“ کی طرف چلتے ہیں ۔
ایک روز شہر کی اطلاعات کا صدر میرے گھر ایا اورکہا کہ قم سے ایک خط آیا ہے،ظاہرا مشکل ختم ہوگئی ہے اورآپ تھانہ تشریف لائیں، لیکن جب میں تھانہ گیا تو مجھ سے کہا گیا کہ آپ اسی وقت ”انارک نایین“ کی طرف روانہ ہوجائیے ،یہاں تک کہ گھر واپس جانے اور بیوی بچوں کو باخبر کرنے کا بھی حق نہیں ہے ! (میرے بیوی بچے میرے ساتھ تھے) میںنے چاہا کہ حقوق بشر کے اعلامیہ کو یاددلاؤں ،میں نے دیکھاکہ پولیس کے دو سپاہی اسٹین گن لئے ہوئے میرے پاس کھڑے ہیں، اور انہوں نے اپنی کمر سے اس قدر گولیاں باندھ رکھی تھیں کہ وزن کی وجہ سے ان کی بیلٹ ٹوٹنے کو ہو رہی تھی،نہیں معلوم کہ یہ لوگ ”سلم“ اور ”تور“کے لشکر سے جنگ کے لئے تیار ہوئے تھے یا ایک جلاوطن کو خداحافظی کےلئے جس کے پاس قلم بنانے کیلئے ایک چاقو بھی نہیں تھا!
انہوں نے کہا : گاڑی تیار ہے ، چلیے ۔ بیس گھنٹے تک بغیر توقف اورآرام کے چلتے رہے اور نایین پہنچ گئے اور وہاں سے پولیس کی ایک گاڑی میں جس میں تین سپاہی تھے ایک کے پاس اسٹین گن تھی اوردو کے پاس بندوق تھی ،نایین سے ۷۵ کیلومٹر دور شہر نایین پہنچ گئے !
اس شہر میںجیسا کہ اس کے نام سے معلوم ہے ، یہاں انار کے تھوڑے بہت درخت تھے ،اس کے علاوہ آبادی وغیر ہ کی کوئی خبر نہیں تھی اور مرکز ی کشادہ شورہ زار نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا ، کچھ چوڑی گلیوں کی سڑکیں پکی تھیں اور مجورا انہیں سڑکوں کا نام دے رکھ رکھا تھا اور وہ تمام گلی ،کوچے خشک بیابان کی طرف ختم ہوتے تھے ۔ پورے شہر کا ایک نانوائی تھا جس نے ہجرت اختیار کرلی تھی اور گھر میں ہاتھ کی روٹی پکتی تھی جو وہاں کے رہنے والوں سے مخصوص تھی اسی وجہ سے جب تک میں وہاں رہا سوکھی روٹی کھانی پڑی جو دوسرے شہر سے آتی تھی ، وہاں کا پانی پینے کے لایق نہیں تھا اس لئے روزانہ تقریبا ۲۰۰ کیلومٹر کا فاصلہ طے کرکے اصفہان سے میرے دوست مجھے سے ملنے آتے تھے وہ پانی بھی ساتھ لے کر آتے تھے ، شہر میں صرف مٹی کا تیل اور پٹرول بکتا تھا لیکن کم آمدنی کی وجہ سے اس نے بھی چھٹی کررکھی تھی اور وہاں پر مٹی کا تیل اور پٹرول بھی نہیں ملتا تھا ۔ وہاں کے ایک شخص کے پاس کچھ بکریاں تھیں جو اس بیابان میں گھانس نہ ہونے کی وجہ سے بھوکی رہتی تھیں، وہاں کا رہنے والا ایک شخص کہتا تھا کہ میں نے چار بکریوں کادودھ نکالا جو کل ۲۰۰ گرام ہوا!
اس شہر میں دو ہزار لوگ رہتے تھے اور اس شہر کو عورتوں کا شہر کہتے تھے کیونکہ اس شہر کے سب لوگ جمعہ کے علاوہ پورے ہفتہ کان میں کام کرتے تھے جو وہاں سے نزدیک تھی اور نخلک نامی کان کے نام سے مشہور تھی ان کے بیوی ، بچے شہر میں سرپرست کے بغیر اکیلے رہتے تھے ۔
نہیں معلوم شاید آپ نے سنا ہو کہ سیسہ کا کام کرنا بہت خطرناک ہے چہ جائیکہ سیسہ کی کان میں کام کرنا ۔ اور یہ بہت جلد انسان کو دِق کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے ،مگر یہ کہ اس سلسلہ میں بہت زیادہ حفاظت سے کام لیا جائے ۔
اس میں کام کرنے والے ۱۸۰ مٹر گہرائی میں کام کرتے ہیں اور کبھی بھی ان کی کمر تک پانی رہتا ہے اوراس سخت کام کے مقابلہ میں ان کو روزانہ ۲۳ یا ۳۰ تومان ملتے تھے ۔ اسی وجہ سے اس شہر کے جوان وہاں سے فرار کرکے دوسرے شہروں میں چلے گئے تھے ،اس طرح کے کام کرنے والوں کو بیماری سے بچنے کے لئے روزانہ ایک گلاس دودھ کا پینا چاہئے ،لیکن ان کو دودھ بھی میسر نہیں ہوتا تھا ۔
وہاں کے بعض لوکوں کی حالت اس قدر خراب تھی کہ جس کی وضاحت ممکن نہیں ہے لیکن عام طور سے وہ لوگ خوش خلق ، مہربان اور مذہب سے محبت کرتے تھے ،اسی وجہ سے میں وہاں کے سب لوگوں سے آشنا ہوگیا تھا اور وہاں وسیع پیمانہ پر دینی کاموں کو انجام دیا ۔
یہ بات یاد رکھیں کہ اس محروم شہر کے اطراف میں قیمتی معادن جیسے سونے اور یورینیم کی کانیں موجود تھیں، لیکن اس کا فائدہ کبھی بھی لوگوں کو نہیں ملتا تھا اور سب سے اہم یہ کہ شہر سے تیس کیلومٹر کے فاصلہ پر روڈ سے نزدیک ہوائی فوج کی چھاونی تھی ، زمین سے ہوا میں وار کرنے والے طاقت ور میزائیلوں نے اس کا محاصرہ کررکھا تھا اور اس چھاونی پر بہت زیادہ پیسہ خرچ ہوتا تھا ،پورے راستہ کی تمام آبادی بس یہی تھی!
اس شہر میں وہاں کے لوگوں کی محبت اور دوسرے شہروں جیسے اصفہان، یزد، نایین اور کاشان سے مجھ سے ملنے آنے والے دوستوں کے علاوہ میرے دل کو خوش کرنے والی ایک بات یہ تھی کہ امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کے بھائی ”آیت اللہ پسندیدہ“ اور دوسرے دوست بھی وہاں پر جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے ان کو مجھ سے پہلے جلاوطنی کے عنوان سے وہاں پر لایا گیا تھا اور میں ان کی مصاحبت سے فائدہ اٹھاتا تھا ۔
دو یا تین مہینہ وہاں پر گذر گئے ایک روز خبر آئی کہ آپ کی جگہ بدلی جائے گی اور آپ کو چوتھی جگہ یعنی ”جیرفت“ میں جلاوطن کیا جائے گا، پولیس کے سپاہی اور گاڑی حاضر ہے !
وہاں کی سردیوں کا واقعہ میرے ذہن میں تھا اور مجھے معلوم تھا کہ یہ علاقہ کرمان اور بندرعباس کے درمیان بہت ہی گرم علاقہ ہے اور ماہ رمضان کے درمیان وہاں جانا اور روزہ رکھنا عقلمندی نہیں ہے، اس کے علاوہ اس بات کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ ہم خاموش بیٹھے رہیں اورفوٹبال کی گیند کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہیں، میں نے فورا ڈرائیور کو خبر کی اور رات کو شہر انارک سے عام راستہ کے بجائے دوسرے راستہ کے ذریعہ قم آگیا ، ایک خط لکھ کر شہر انارک میں دیدیا کہ صبح کو جب پلیس والے آئیں تو ان کو دیدینا ، میں نے خط میں لکھا کہ میں اپنے وکیل مدافع سے مشورہ کرنے کیلئے قم جا رہا ہوں، لہذااسے میری غیر حاضری نہ سمجھیں!۔ اتفاقا اسی زمانہ میں حالات بالکل بدل گئے ،انقلاب تیزی کے ساتھ کامیاب ہوگیا ، جیلوں میں رہنے والے اور جلاوطن ہونے والے سب آزاد ہوگئے ، ظلم و ستم کرنے والے اور ملک کے بڑے بڑے عہدیدار سب بھاگ گئے یا جیل میں ڈالدئیے گئے یا پھر ان کو پھانسی دیدی گئی ۔ ”فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمدللہ رب العالمین“۔
آخر کار میں نے اس سے بہت بڑا درس حاصل کیا اور وہ یہ کہ زندان ، انقلابی عناصر کو اور زیادہ محکم اور آگاہ کردیتا ہے اور جلاوطنی انقلاب کودور و نزدیک کے علاقوں میںپہنچا دیتی ہے !

 

جلاوطن کی دوسری جگہ مہابادپہلا حادثہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma