جب میری سب سے پہلی کتاب ”جلوہ حق“چھپ کر آگئی تو اس کی ایک جلد میں نے آیة اللہ العظمی بروجردی کی خدمت میں پیش کی، اس کے کچھ دنوں بعد انہوں نے مجھے بلایا اور فرمایا: میرے پاؤں میں درد تھا جس کی وجہ سے میںچند روز کلاس میں نہیں آسکا اور اسی وجہ سے میرے پاس مطالعہ کیلئے کافی وقت تھا ، میری نگاہ آپ کی کتاب پر پڑی ، پہلے میں نے سوچا ”جلوہ حق“ ایسا نام ہے جو صوفیوں سے متعلق ہے اور اسی بات نے مجھے شش و پنج میں ڈال دیا لہذا میں نے کتاب کو شرو ع سے آخر تک پڑھا(مجھے ان بزرگوار کی اس بات پر بہت تعجب ہوا کہ کس طرح ایک جوان طالب علم کی کتاب کو وہ شروع سے آخر تک مطالعہ کررہے ہیں اور میرے لئے یہ ایک درس عبرت ہوگیا، وہ بھی ایسی شخصیت مطالعہ کرے جو مرجع تقلید ہو اور جن کے ہاتھ میں معاشرہ کی زعامت ہو)پھر فرمایا : میں نے اس کتاب میں مطلقا کوئی غلط چیز نہیں دیکھی ، ان کے الفاظ یہ تھے ”مجھے احساس ہوا کہ مصنف نے اس کتاب کو بغیرکسی خودنمائی اور اپنے گرد مرید جمع کرنے کی غرض کے بغیر لکھا ہے اور مصنف نے گروہ صوفیہ کے حقائق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے“اس جملہ نے میری بہت ہمت افزائی کی اور کتاب لکھنے میں مجھے بہت زیادہ اعتماد ہوگیا ،اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ ہمت افزائی اور وہ بھی بزرگ علماء کی ہمت افزائی کس قدر موٴثر اور کار ساز ہوتی ہے ۔