استبداد اور ریاکاری کی آفت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
کامیابی کا راز
پہلی جلاوطنی شہر چابھارجلاوطن کی دوسری جگہ مہاباد

میں نے پہلے بیان کیا کہ شہر کی ٹنکی کا پانی اس قدر نمکین تھا کہ ہاتھ پیر دھوتے وقت بھی پریشانی ہوتی تھی اور پینے کا پانی ٹینکر یا کسی دوسرے برتن میں دور دراز کے علاقہ سے لاتے تھے ۔ ایک روز اچانک میں نے دیکھا کہ ٹنکی کا پانی میٹھا ہوگیا ہے، پہلے میں نے سوچا کہ شاید مجھے اشتباہ ہو رہا ہے ، میں نے چند بار کلی کی ، لیکن واقعا پانی میٹھا تھا ، میں نے شور مچایا کہ فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام برتنوں کو پانی سے بھر لو اور ہم نے ایسا ہی کیا ، لیکن تین گھنٹے بعد پانی دوبارہ نمکین ہوگیا! مجھے بہت تعجب ہوا ۔
ہمارے پڑوس میں ایک محترم شخص رہتے تھے تو انہوںنے کہا کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، یقینا کوئی بلند پایہ شخصیت آئی ہوگی اس کو دکھانے کیلئے میٹھے پانی کا ذخیرہ کھول دیتے ہیں اور ٹنکی میں میٹھا پانی آنے لگتا ہے لیکن جب وہ معاینہ کرکے چلا جاتا ہے تو پھر اس کو مضبوطی سے بند کردیتے ہیں ۔
میں نے کہا : اس کام میں کوئی بھی عیب پایا جاتا ہو لیکن ایک بہت بڑا حسن بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ روزانہ اخبار خریدنا ضروری نہیں ہے بلکہ صبح کو اٹھ کر دیکھو کہ اگر ٹنکی کا پانی ویسا ہی نمکین ہے تو سمجھ جاؤ کہ تمہارے شہر میں آج کوئی نہیں آئے گا لیکن اگر پانی کامل طور سے میٹھا ہوجائے تو سمجھ جاؤ کہ یقینا کوئی بڑی شخصیت آرہی ہے اور اگر پانی زیادہ میٹھا نہ ہو تو کوئی چھوتی شخصیت آرہی ہے!
ہمارے ایک عالم دین نے لوگوں کی مدد سے (حکومت کے پیسہ کے بغیر) مازنداران کے ایک گاؤں میں ایک پُل بنوایا تھا ، جیسے ہی پُل بن کر تیار ہوا تو حکومت کے لوگوں نے اس پر دباؤ ڈالا کہ ہم اس پُل کا افتتاح کریں گے اور اخباروں میں اس پُل کو حکومت کے کاموں میں شمار کیاگیا ۔
کچھ روز قبل اخباروں میں لکھا تھا کہ یزد کے ایک روڈکا اب تک کئی بارافتتاح ہوچکا ہے ، یعنی جب بھی کوئی عہدیدار شہر کا معاینہ کرنے آتا ہے تو فورا روڈ کو بند کرکے اس پر تین رنگ کا ریبن باندھ دیتے ہیں اور پھر ایک نئے کام کے عنوان سے اس کا افتتاح کرادیتے ہیں ۔
جی ہاں جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ شمال ، جنوب، مغرب اور مشرق میں سب جگہ آسمان کا یہی رنگ ہے اور ریاکاری اپنے تمام وجود کے ساتھ تمام جگہوں پر جاری ہے اگرچہ ایوانوں کے نقش و نگار کو خوبصورت بنادیا گیا تھا لیکن گھر کی بنیادیں کھوکلی ہوچکی تھیں ۔
چابہار کے رہنے والے لوگ بہت ہی انس و محبت والے لوگ ہیں ، ان میں اسی فیصد اہل سنت اور بیس فیصد شیعہ ہیں اور سب ایک ساتھ بھائیوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں وہ لوگ ہمارے ملک کے سب سے زیادہ محروم لوگ ہیں جب کہ وہاں کے بعض لوگوں کے بقول گرمی کے موسم میں اگر وہاں کوئی درخت پھل دیتا ہے تو وہ سال میںدو بار پھل دیتا ہے ۔
چابھار کے باغوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی زمین بہت زیادہ زر خیز ہے ۔
گرمیوں کی فصل کے یہ بہترین باغ ، حکومت کی کوتاہی پر بہترین سند ہیں ، اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کھیتی کی زمین کو بہترین پانی کے ذریعہ آمادہ کیا جائے اور اس پر توجہ دی جائے تو نہ صرف اس علاقہ کے لوگوں کی حالت بہتر ہوجائے گی بلکہ دوسرے علاقہ کے لوگ بھی سبک دوش ہوجائیں گے اور دوسروں کی کھیتی سے وابستگی کو ختم کرنے کی طرف یہ ایک بہترین قدم ثابت ہوگا ۔
اس علاقہ میںداخل ہونے کے بعد سب سے تعجب کی بات یہ تھی کہ اس پورے شہر میں ایک حمام تھا جو اس وقت بند تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ میونسپلٹی نے شہر کی بہترین بیس ہزار مٹر زمین غیر اسلامی گمراہ فرقہ ”بہائی“ کوقبرستان کیلئے مفت میں دی ہے ، جب کہ اش شہر میںان کی تعداد چھے گھروں سے زیادہ نہیں تھی اور ان سب کو دفن کرنے کیلئے بیس مٹر زمین کافی تھی ! لیکن مسلمانوں کے پاس اصلا قبرستان نہیں تھا ۔ میں نے سوچا کہ یہاں پر خاموش رہنا جائز نہیں ہے لہذا مذہبی راہنما ہونے کی حیثیت سے میں نے ایک ٹیلی گراف ضلع کے حاکم اوربلدیہ کے رئیس کو بھیجا، اس مسئلہ اور شہر کے دوسرے مسائل کو اس میں اعتراض کے عنوان سے لکھا(اور میں سوچ رہا تھا کہ چابہار آخری علاقہ ہے اب کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں یہ مجھے بھیجیں گے)۔
شاید آپ کو تعجب ہوگا کہ دو دن بعد میونسپلٹی کا رئیس جو دیکھنے میں صحیح انسان لگ رہا تھا ،میونسپلٹی کی مہر کے ساتھ ایک خط لے کر آیا جس میں ان اعتراضات کے شکریہ کے ساتھ لکھا تھا: یہ زمین میری حکومت کے زمانہ میں ہدیہ نہیں کی گئی (اور جیسا کہ اس کی فائل سے معلوم ہو رہا ہے ) یہ زمین مرکز کے حکم سے دی گئی ہے ! یعنی اس سلسلہ میں ہم کچھ نہیں کرسکتے ،لیکن دوسری ضرورتوں کوپورا کیا جائے گا ۔
چابھار کے لوگ (ملک کے دوسرے افراد کی طرح) مذہبی اعتبار سے بھی محروم تھے اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ اگر مجھے وہاں پر نہ بھیجتے تو میں خود اپنے پیروں سے وہاں نہ جاتا اور کتنا اچھا ہوا کہ میں وہاں گیا اور میں نے نزدیک سے ان کی محرومیت کو درک کیا ۔
اگر چہ اپنی توان کے مطابق وہاں پر مسجد اور دوسرے مذہبی پروگراموں کو مرتب کیا ، ایک صاحب نے کتب خانہ کی بنیاد ڈالی، میرے بعض جلسوں میں اسی(۸۰) فیصد اہل سنت شرکت کرتے تھے ، ا س کے علاوہ ان کے مذہبی علماء سے بات چیت کرتا تھا اورملک کے بہت سے مسائل ان جلسات میں واضح ہوجاتے تھے جن کی اس مختصر کتاب میں لکھنے کی گنجائش نہیں ہے ۔
وہاں کا رہنے والا ایک شخص کہتا تھا ہمیں خدا کا شکر کرنا چاہئے اور جن لوگوں نے تمہیں یہاں بھیجا ہے ان کے لئے دعاء کرنی چاہئے ، ورنہ ہم کہاں اور یہ پروگرام کہاں!

 

پہلی جلاوطنی شہر چابھارجلاوطن کی دوسری جگہ مہاباد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma