مجلس خبرگان میں مذہب کا دفاع

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
کامیابی کا راز
تیسرا حادثہ حوزہ علمیہ کے امور کی اصلاح

مجلس خبرگان میں مذہب کا دفاع

میںمجلس خبرگان میں(علماء کی وہ کمیٹی جو رہبر کا انتخاب کرتی ہے) ”گروہ مذہب اور زبان“ کا رکن تھا، ہمارے گروہ میں اہل سنت کا ایک فاضل اور ملا شخص مولوی عبدالعزیز بھی تھا اور ہم ایک دوسرے کی فکر سے بہت زیادہ نزدیک تھے ، ہمارے ساتھ تہران کا ایک زرتشتی عالم، ایک عیسائی اور ایک یہودی عالم بھی تھا،اس لحاظ سے ہمارے گروہ کی حالت دوسرے تمام گروہوں سے مختلف تھی ۔ ہم مختلف مذاہب کے راہنما ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر مذہب سے مربوط مسائل اور ان کی حیثیت کو قانون اساسی میں تصویب کرتے تھے اور مجلس عامہ میں بیان کرنے کیلئے آمادہ کرتے تھے ۔ ہم نے بہت زیادہ محنت کی تاکہ منطقی طریقوں سے مربوطہ مذہب کو رسمی طور پر اساسی قانون میں جگہ دیں ، اس طرح کہ رسمی اور قانونی مذہب شیعہ اثنا عشری ہے لیکن اقلیت کے تینوں مذہب اسلامی جمہوریہ ایران میں محترم ہیں اور ان کو ایرانی ہونے کے تمام حقوق شامل ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کو زندگی بسر کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہائیوں کا گمراہ فرقہ بہت زیادہ جوش و خروش میں تھا ، یہ لوگ ایک مفصل پروگرام کے تحت اپنی تعداد کو بہت زیادہ بتاتے تھے تاکہ ملک میںدوسرے اقلیتی مذہبوں کی طرح ان کے مذہب کو بھی قبول کرلیاجائے اور یہ ایران اوردوسرے ممالک میں بھی بہت زیادہ رابطہ قائم کرتے تھے تاکہ کسی طرح سے ان کا مذہب بھی رسمی مذہب قرار پائے ۔
میں کامل طور سے ان کی جمعیت کی تاریخ سے آشنا تھا،ہمارے اس گروہ میں دوسرے علماء بھی الحمد للہ ان کی تاریخ اور تعداد سے واقف تھے ، لہذا ان کی درخواست کے سامنے ہم تسلیم نہیں ہوئے اور ان کے اصرار کی وجہ سے ہم نے بہت زیادہ قانون کو محکم کیا اور قانون اساسی کو اس طرح بنایا کہ سنیوں کے تین اقلیتی مذاہب (کلیمی،نصاری اور زرتشت)کے علاوہ کسی اور مذہب کو قانونی حمایت حاصل نہ ہو ، یہ تینوں فرقے ہماری فقہ کی کتابوں میں اہل کتاب کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں اور فقہاء کے نزدیک اہل ذمہ (عہد و پیمان) کے عنوان سے شمار کئے جاتے ہیں ، ہم نے قانون اساسی کو اس طرح لکھا کہ استعمار کے جعلی مذاہب کی نفی ہوسکے اور وہ مایوس ہوجائیں ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت میں نے شیعہ مذہب کو مجلس عامہ میں علی الاعلان بیان کرتے ہوئے اس کا دفاع کیا تو جناب مولوی عبدالعزیز نے میری توقع کے برخلاف میری تقریر کے بعد وقت لیا اور میری مخالفت کی ۔ میں نے ان کے لئے واضح کیا کہ ایک ملک میں دو یا تین مذہب عمومی احکام پر حاکم نہیں ہوسکتے ، اگر چہ باقی مذاہب بھی محترم ہونے چاہئے اورشہری تمام حقوق ان کے شامل حال ہونا چاہئیں ،لیکن ایک ملک پر متعدد قوانین حاکم نہیں ہوسکتے ۔ تمام لوگ اپنی خصوصی زندگی کے مسائل میں آزاد ہیں ( شادی اور طلاق ذاتی مسائل میں شمار ہوتے ہیں) لیکن عمومی مسائل میں سب کو ایک قانون کا پیروکار ہونا ہوگا ۔
بعد میں جب میں نے امام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کی زیارت کی تو انہوں نے فرمایا : میںنے ٹیلی ویژن سے آپ کا دفاع دیکھا اورسنا ہے ،مجھے بہت اچھا لگا، بہت اچھا اور منطقی دفاع تھااور آپ نے مسئلہ کے حق کو اداکردیا!۔

تیسرا حادثہ حوزہ علمیہ کے امور کی اصلاح
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma