انقلاب کی بنیادیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
کامیابی کا راز
دین اور انقلاب حقوق بشر کے نام پر بہت بڑا جھوٹ

ہمارا ملک ،اوایل انقلاب کی تبدیلیوں کے بعد تاریخ کے ایک ایسے مرحلہ میں داخل ہواجس سے پیچھے کی طرف پلٹنا ممکن نہیں تھا ، چاہے کتنے ہی قوی اسباب اسے پیچھے پلٹانے کی کوشش کیوں نہ کرتے (۱۳۵۶ ہجری شمسی یعنی انقلاب کی کامیابی کے ایک سال قبل کے سیاسی حوادث و واقعات کی طرف اشارہ ہے)۔
یہ ایک حقیقت ہے ، یہ تاریخ کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کا سب کو اعتراف کرنا چاہئے ۔
اس انقلاب کے اسباب کی تحقیق اور اس کے تمام جوانب کی تبدیلی کیلئے یابعض افراد کی فکر کے مطابق ناامنی اور شورش ! یا اس کا جوبھی نام رکھا دیاجائے ، غالبا کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی طرف ایک خاص زاویہ سے دیکھا جائے ،اسی وجہ سے وہ لوگ اس کے محدود اور نا چیز نتائج کو حاصل کرپاتے ہیں ، کیونکہ کلی نتائج کو صرف ایک کلی نظر اور اس کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
محدود بحثوں میں کبھی کبھی ”اصلی اسباب کی جگہ”حادثات کے جانبی اسباب“ لے لیتے ہیں اور اصلی اسباب کو بھلا دیا جاتا ہے ۔
بعض لوگ صرف ” غارت گروں کے بیت المال سے ناجائز استفادہ اور اقتصادی فساد“ کے مسئلہ پر انگلی رکھتے ہیں اور اس کو ناامنی کی اصلی وجہ شمار کرتے ہیں ۔ لیکن بیت المال میں ان جائز بدعنوانیوں کے وجود کا اعتراف جس کی تعداد آسمان کے ستاروں کے برابر ہوسکتی ہے،کبھی بھی انہیں اصلی سبب قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس وحشتناک ناجائزاستفادہ سے صرف ایک خاص گروہ باخبر ہوتا ہے ،تمام لوگ باخبر نہیں ہوتے ۔
بعض لوگ جو اپنے آپ کو اصلی اسباب سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ ( ناامنی کی اصلی وجہ ) صرف فساد، رشوت خوری اور اداروں کی کاغذبازی قرار دیتے ہیں ۔ جب کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں انقلاب سے پہلے یہ حالت موجود تھی اور تمام لوگ اس سے باخبر تھے اور اس پر اعتراض بھی کرتے تھے اور آج بھی اعتراض کرتے ہیں ، لیکن یہ موضوع جس قدر بھی اہم ہو ایسا نہیں ہے کہ لوگ اس کے لئے ہزاروں قربانی دیتے ۔
کام کرنے والوں کی تنخواہ کا کم ہونا، رہنے کی مشکلات،طلباء کی مشکلات، مہنگائی، بے جا تبعیض نیز دفاتر کے مسائل، یا بیت المال سے سوء استفادہ وغیرہ اس ”عظیم انفجار کے اسباب کا ایک چھوٹا سا گوشہ ہے لیکن اس کی اصلی وجہ کو دوسری جگہوں پرتلاش کرنا چاہئے ۔
مجھے امید ہے کہ اس سفر کی داستان نے اور جو کچھ میں نے دیکھا اور لوگوںسے سناہے اس کے ذریعہ انقلاب کے اصلی اسباب کو حاصل کرنا آسان ہوگا ۔
دی ماہ (ایرانی سال کے دسویں مہینہ)کی اٹھارہویں رات کو شہر قم میں ٹیلی فون پر سب ایک دوسرے سے سوال کررہے تھے : جناب آپ نے ”اطلاعات“ نامی اخبار میں ”رشیدی مطلق“ (بعد میں معلوم ہوا کہ اس مقالہ کے لکھنے والے میں مطلقا کسی بھی قسم کی کوئی رشادت (شجاعت)نہیں پائی جاتی تھی)کا مقالہ پڑھا ہے؟
یقیناکیا اس نے توہین اور رسوائی کی انتہاء کردی ہے؟  کیا کل حوزہ علمیہ کی چھٹی ہے؟ اگلے روز سب سے پہلے حوزہ علمیہ اور بعد میں قم کے بازار نے چھٹی کا اعلان کردیاگیا ۔ طلاب علوم دینی ،علماء اور فضلاء، اعتراض کے عنوان سے مراجع کرام کے گھروں پر پہنچ گئے اور شہر کی شکل وصورت کامل طور سے تبدیل ہوگئی اور اس طرح پہلی مرتبہ قم کی فضا میںانقلاب کی چنگاری اٹھ گئی ۔ یہ ایسی چنگاری تھی جس کے متعلق کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ اس قدر پھیلے گی اورپورے ملک کو اپنے حصار میں لے گی اور یہی نہیںبلکہ اس کی چنگاریاں دوسرے ممالک تک پہنچیں گی ۔
شک نہیں ہے کہ اس مقالہ میںامام خمینی (رحمة اللہ علیہ) کی توہین کی گئی تھی اور یہ ایسی چیز تھی جس کو برداشت کرنے کی کسی میں طاقت نہیں تھی لیکن سب سے پہلے ہمیں اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ اس کے پیچھے ایک بارودی انبار چھپا ہوا تھاجس کو اس چنگاری نے بھڑکادیا،معاشرہ کے جسم میں خون اور پیپ سے بھرا ہواایک بھوڑا تھا جس کا نتیجہ زبردستی، بے عدالتی،لوگوں کی ضرورتوں سے لاپروائی، ظلم و ستم اور دوسری پریشانیاں تھیں جسے ایک طاقت ور نشتر کی ضرورت تھی اور جس وقت اس پھوڑے میں نشترلگایا گیا تو اس کے تمام جسم سے آہ وفغاں کی آوازیں نکلنے لگیں اور جو کچھ اس میں چھپا ہوا تھا وہ سب باہر آگیا!
شہر قم میں اٹھارہ دی ماہ کا دن بہت ہی ہیجانی تھا ،تمام مراجع کرام نے وعدہ کیا کہ اس توہین کا جواب دینے کیلئے کوئی قدم ضروراٹھائیںگے،اگلے روز بات بہت بڑھ گئی اور عوام کا سیلاب اور زیادہ ہوگیا،اس روز لوگوں کا پروگرام یہ تھا کہ حوزہ علمیہ کے اساتید کے گھر جائیںاور ایسا ہی ہوا سب لوگ میری تلاش میں مدرسہ امیرا لمومنین آگئے ،مدرسہ کے اندر اور باہر اسی طرح سڑکوں پر لوگوں کا ہجوم تھا میں نے بہت ہی مختصر تقریر کی جس میں پہلے سب کو اتحاد اور یکجہتی کی دعوت دی پھر لوگوں کا شکریہ ادا کیا کہ آپ لوگوں نے اس مقالہ لکھنے والے کا بہترین جواب دیا ہے اور آپ نے ظاہر کردیا کہ اس کے بعد اس طرح کی توہین کا منہ توڑ جواب دیا جائے گااور اتنی آسانی سے یہ قصہ تمام نہ ہو گا ۔
اس کے بعد میں نے مزید کہا : اگر کسی قوم کے بزرگ کی اس طرح توہین کی جائے تو دوسروں کا کوئی احترام باقی نہیں رہے گا”اگر ہمیںمرنا ہے تو سب ساتھ مریںگے اور اگر زندہ رہیں گے تو سب ساتھ زندہ رہیں گے“!
بعد میرے اس جملہ نے نعرہ (شعار) کی شکل اختیار کرلی تھی ، شہر”چابھار“ میں جلاوطن کے ثبوتوں میں ایک ثبوت میری یہ ہی تقریر قرار پائی اور شہر قم کے امنیت کے صدر نے میری اس تقریر کو قوم کی امنیت کے خلاف قیام کے عنوان سے تعبیر کیا!
بہر حال وہ جلسہ ختم ہوگیا ،لیکن عصر کے وقت جب تمام طلاب اور جوان، اساتید کے گھروں سے بہت ہی آرام اور بغیر نعروں کے (کیونکہ اس روز نہ ہی تو شیشوں کو توڑا گیا تھا اور نہ ہی حکومت کے خلاف نعرہ بازی ہوئی تھی)واپس جارہے تھے تو پلیس کے سپاہیوں نے سب پر حملہ کردیا اور اس حادثہ میں پہلی مرتبہ قم کی سڑکیں بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگین ہوگئی ۔
قم کی امنیتی کونسل کے عہدیداروں نے اپنے آپ کو اس ظلم و تجاوز اور بے رحمانہ قتل سے بری کرنے کیلئے لوگوں پر مقدمہ چلانے کی فائلیں کالی کرنا شروع کردیں اور یہ کام ”اجتماعی امنیت کمیشن کی رائے کے مطابق جو شہر کے حاکم اور دوسرے چار بڑے عہدیداروں کے زیر نظر انجام پاتا تھا لہذا مجھے، حوزہ علمیہ قم کے چھے افراد اور بازار کے کچھ تاجروں کو اس حادثہ کا اصلی ذمہ دار ٹہرایااور سب کے لئے تین سال کی جلاوطنی کا حکم صادر کردیا!
قم کی خفیہ ایجنسی کے رئیس نے جب اپنے کمرہ میں مجھ سے کہا کہ جلاوطنی کےلئے تیار ہوجاؤں تو اس وقت میں نے کہا کاش کہ جس نے یہ حکم صادر کیا ہے وہ یہاں پر ہوتا اور میں اس سے کچھ کہتا ۔
اس نے بغیر سوچے ہوئے کہا: جس نے یہ حکم صادر کیا ہے وہ میں ہوں ! کہو کیا کہنا ہے (اور اس وقت پہلی مرتبہ میں نے ”اجتماعی امنیت کمیشن“ کے مفہوم کودرک کیا)۔
میں نے کہا : جس حادثہ کی تم ہماری طرف نسبت دے رہے ہو اس کو خود تم نے ایجاد کیا ہے! اور یہ بات سب جانتے ہیں، کیاتم اس مقالہ کے لکھنے والے کی طرف سے وکیل ہو جو اس کا دفاع کررہے ہو؟ اس آگ کوبجھانے کا بہترین راستہ تھا ، تم آتے اور اس مقالہ لکھنے والے کی طرف سے عذر خواہی کرلیتے اور کہتے کہ اس لکھنے والے نے غلط کام کیا ہے ، ہم اس کی تلافی کریں گے ، ایک لکھنے والے نوکر کے مقالہ پر اعتراض کرنے والوں پر تم نے گولیا ں چلائیں جب کہ انہیں اعتراض کرنے کا حق ہے ۔
اس نے کہا : حقیقت یہ ہے کہ ہم بھی نہیں سمجھ سکے کہ اس نے یہ مقالہ کیوں لکھا ہے؟اور کس نے یہ مقالہ لکھا ہے؟ بہر حال بات بہت بڑھ گئی ہے لہذا آپ چلیں (جلاوطنی کی طرف روانہ ہوں)۔
میں نے کہا: کہاں؟
اس نے کہا : یہ تو بعد میں معلوم ہوگا ۔
اسی وقت ایک سپاہی اندر داخل ہوا اورکہا سر! ۔ انہوں نے (عدالت کے ایک عہدیدار کا نام لیا) ان تینوں کو روکنے کی موافقت نہیں کی (معلوم نہیں ہوا کہ وہ تین کون تھے)۔
خفیہ ایجنسی (ساواک) کے صدر نے(اس طرف توجہ کئے بغیر کہ میں وہاں پر شاہد ہوں اور دیکھ رہا ہوں) غصہ میں کہا ، وہ بہت غلط کررہا ہے ! میں کہتا ہوں کہ ان کو روک لو! (یہاں پر میں نے دوسرے تمام عہدوں پر خفیہ ایجنسی کی حکومت کواپنی آنکھوں سے دیکھا اور خفیہ ایجنسی(ساواک) کی ڈموکریسی کو آفرین کہا!)۔

 

دین اور انقلاب حقوق بشر کے نام پر بہت بڑا جھوٹ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma