جس عالم کے ہاتھ میں قلم اور گویا ورسا زبان نہ ہو ایسے شخص کے متعلق میرا عقیدہ ہے کہ وہ بخوبی اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرسکتا ۔ اب بھی میں اپنے عزیز طلباء اور محترم علماء سے یہی عرض کرتا ہوں کہ بہتر یہ ہے اگر ہوسکے توصرف ایک زبان میں نہیں بلکہ چند زبانوں میں تبلیغ اور تقریر کا فن سیکھیں ۔
اسی نظریہ کی بنیاد پر جب میری عمر پندرہ یا سولہ سال کی تھی تو میں نے تقریرکی تمرین شروع کی تھی اور ماہ رمضان، محرم اور صفر میں تبلیغ کیلئے جاتا تھا ۔ پہلی مرتبہ جہاں پر میں تبلیغ کیلئے گیا وہ شیراز کے نزدیک ایک”گُویُم“ نامی دیہات تھا جو اب ایک شہر ہوگیا ہے اس کے بعد ماہ رمضان میں تبلیغ کیلئے فارس کے ایک شہر ”فسا“ میں گیا ،اس وقت میں اپنے آپ کو درس اور تفسیرسے متعلق معلومات،خصوصا عقایدکے موضوع میںایک کامیاب طالب علم سمجھتا تھا لیکن تقریری میدان میں اپنے آپ کو کامیاب نہیں سمجھتاتھا ،بہت کم بولتاتھا اورسمجھتا تھا کہ وہ جاذبہ بیان جس کی ضرورت ہے وہ مجھ میں نہیں ہے ۔
معصومین(علیہم السلام)سے توسل کیااور ان سے فصیح زبان کی بھیک مانگی تاکہ اسلام اور مکتب اہل بیت(علیہم السلام)کی خدمت کرسکوں، اور میرا یہ توسل ہمیشہ جاری رہا، آہستہ آہستہ مجھے احساس ہونے لگا کہ ایک اچھی اور زیادہ طاقت مجھے نصیب ہوتی جارہی ہے ، اس کے بعد میری تقریریں بہت اچھی ہوگئی اورالحمدللہ، لوگ ان کا استقبال کرنے لگے ۔