۲۔ مادی اور دنیوی مقامات کا بے وقعت ہونا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
کامیابی کا راز
۱۔ تقوی۳۔ تجربوں کا کردار

میرے عزیزو! میں نے اپنی اس چھوٹی سی عمر میں زندگی کے تلخ و شیرین حالات کا تجربہ کیا ہے اور اس کے فراز و نشیب کو دیکھا ہے اور اس کی عزت، ذلت، فقر اور امیری ، سختی اور آسانی کا تجربہ کیا ہے تو میں نے اپنی تمام تر قوت کے ساتھ قرآن کی اس حقیقت کو درک کیا ہے ” وما الحیواة الدنیا الا متاع الغرور“(۱) دنیا کی زندگی دھوکہ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔جی ہاں دنیا غرور و فریب کا سرمایہ ہے اور جو ہم سوچتے ہیں اس کہیں زیادہ خالی اور بے اہمیت ہے ، شاعر نے کے بقول :
زندگی نقطہ مرموزی نیست غیر تبدیل شب و روزی نیست
تلخ و شوری کہ بہ نام عمر است راستی آش دہن سوزی نیست!
ابدی زندگی کا عقیدہ صرف دوسری دنیا سے مخصوص ہے جو اس زندگی کو با معنی بنادیتی ہے اور اگر وہ زندگی نہ ہوتی تو اس دنیا کی زندگی کے کوئی معنی نہ ہوتے اورنہ کوئی ہدف ہوتا!
میں نے اپنی عمر میں کوئی قیمتی چیز نہیں پائی سوائے اس کے کہ وہ انسان کی معنوی اہمیت پر ختم ہوتی ہے ، اس دنیا کی تمام قیمت و اہمیت ایک سراب کی طرح ہے ،
انسان خواب غفلت میں ہے ، یہ تمام تصاویر و نقوش پانی کے اوپر بنے ہوئے ہیںاور انسان اپنی زندگی میں ہمیشہ رنج و غم اور مشکلات میں گھرا رہتا ہے ۔
کل جو بچے تھے وہ آج جوان ہیں، اور جو آج جوان ہیں وہ کل بوڑھے ہوجائیں گے اور جو آج بورھے ہیں وہ کل کو زمین کے بستر پر آرام کررہے ہوں گے جیسا کہ کبھی وہ اس دنیا میں تھے ہی نہیں ۔
جب کبھی کسی بزرگ عالم ، یا کسی شخصیت کے گھر کے پاس سے گزرتا ہوں جو کل کی اہم شخصیت تھے تو مجھے خیال آتا ہے کہ ایک دن اس گھر میں کس قدر آمد ورفت تھی ، کتنا شور وغل اور کس کس کی آنکھیں اس دروازے سے وابستہ تھیں لیکن آج اس کے اوپر فراموشی کے گردو غبار پڑے ہوئے ہیں اور خاموش و ساکت ہیں ۔ کبھی مجھے مولی علی علیہ السلام کا وہ متنبہ کرنے والا کلام یاد آتا ہے جو آپ نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا ہے : فکانھم لم یکونوا للدینا عمارا و کان الاخرة لم تزل لھم دارا ۔ گویا یہ کبھی بھی اس دنیا میں تھے ہی نہیں اور ہمیشہ سے آخرت ان کا گھر تھا(2
بہت سے دوستوں کو دیکھتا ہو ں کہ وہ کمر جھکائے ہوئے عصا کے سہارے چل رہے ہیں چند قدم چلتے ہیں اور رک جاتے ہیں تاکہ سانس لے کر چند قدم اور چل سکیں اسی اثناء میں مجھے ان کی جوانی کا زمانہ یاد آجاتا ہے ، یہ لوگ کس قد و قامت کے مالک تھے؟ کیا جوش و جذبہ ؟ شادمانی و نشاط؟ کیسی ہنسی اور کیسے قہقہ؟ لیکن آج غم و رنج کاغبار ان کے چہرے پر پڑا ہوا ہے اور اس طرح رنجیدہ ہیں جیسے اب کبھی خوشحالی کی گلی سے ان کا گذر نہیں ہوگا ۔
یہاں پہنچ کر میں پرور دگار کے بیدار کرنے والا کلام کو اپنے تمام وجود کے ساتھ محسوس کرتا ہوں”وما ھذہ الحیواة الدنیا الا لھو و لعب“(3)۔ اور مطمئن ہوجاتا ہوں دوسرے لوگ بھی میری عمر تک پہنچیں گے تو اس مطلب کو سمجھیں گے ۔
جب یہ سچ ہے تو یہ مال و مقام اور جاہ وجلال کس لئے ہے؟ یہ تمام مال و دولت کی جمع آوری کس کے لئے ہے؟ اور یہ غفلت کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟
خصوصا آج جب کہ دنیا بہت تیزی سے بدلتی جارہی ہے اور اس میں شدید بدلاؤ آچکا ہے ۔
میں کچھ ایسے خاندانوں کو پہچانتا ہوں کہ جو کل سب کے سب ایک جگہ جمع تھے اور ان کی اپنی ایک دنیا تھی ، لیکن آج وہ سب لوگ منتشر ہوگئے، ایک امریکا میں زندگی بسر کررہا ہے دوسرا یوروپ میںاور کوئی کہیں اوربوڑھے ماں باپ گھر میں یکا و تنہا رہ گئے ہیں اور کبھی ماہ و سال گذر جاتے ہیں کہ نہ بچوں کی ان کو کوئی خبر ہوتی ہے اور نہ بچوں کو ان کی ۔ اس وقت مجھے امام علیہ السلام کا پر نور کلام یاد آجاتا ہے :
ان شیئا ھذا آخرہ لحقیق ان یزھد فی اولہ، جس چیز کا انجام یہ ہو ، بہتر ہے کہ اس کی ابتداء ہی میں کوئی حرص و لالچ نہ رکھا جائے(4
کبھی کبھی مردوں کی زیارت کیلئے خصوصا جہاں پر علماء و فضلاء کے مقبرہ بنے ہوئے ہیں وہاں گیااور دیکھا کہ عجب ! بہت سے پرانے دوست اور عزیز وہاں آرام کر رہے ہیں ، ان کی تصویریں کامل طور سے آشنا ہیں تو تاریخ کی گہرائی میں چلا جاتا ہوں کہ کہیں ایسا تونہیں کہ میں بھی انہی کے درمیان میں ہوں اور خیال کر رہا ہوں کہ زندہ ہوں اور اس با صفا شاعر کے شعر کو یاد کرتا ہوں:
ہر کہ باشی و بہ ہر جا برسی آخرین منزل ہستی این است!

 


۱۔ سورہ آل عمران ، آیت ۱۸۵ ۔
2۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۸۸ ۔
3۔ سورہ عنکبوت ، آیت ۶۴ ۔
4۔ بحار الانوار، ج ۷۰، ص ۱۰۳، ح ۹۱۔
 
۱۔ تقوی۳۔ تجربوں کا کردار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma