طالب علمی کا کچھ عرصہ گذرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ خداوندعالم نے مجھے قلم کی نعمت سے نوازا ہے لہذا میں نے لکھنا شروع کیا اور میری پہلی کتاب ”جلوہ حق“ کے نام سے منتشر ہوئی ۔ اس کتاب کو لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ گرمیوں کی چھٹیوں میںحوزہ علمیہ قم سے شیراز گیا تو وہاں پر صوفیوں کے بعض فرقوں کے جوش وخروش اور ان کی کارکردگی کا مشاہدہ کیا جو بہت ہی گستاخانہ انداز میں مقدسات اسلام پر حملہ کرتے ہیں اور وہ بھی غیر منطقی دلائل کے ذریعہ۔ میں نے ارادہ کیا کہ ان کی باتوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے ، گویا کہ میں احساس کررہا تھا کہ مقدسات اسلامی کی حفاظت کے لئے جوانی کے زمانہ میں اپنا وظیفہ انجام دوں ۔ متعدد کتابوں اور مقالوں کا مطالعہ کرنے کے بعد قلم اٹھایا اور کتاب جلوہ حق کو لکھ کر منتشر کیا ۔ اگر چہ اس کی نشر و اشاعت میں بہت زیادہ زحمت ہوئی کیونکہ ہر لکھنے والے کو اپنی پہلی کتاب کو لکھنے میں اسی قدر زحمتیں ہوتی ہیں،اور جب لوگ اسے اوراس کے قلم کو پہچان لیتے ہیں تو اس وقت وہ آسودہ خاطر ہوجاتا ہے ، ،کیونکہ اپنی کتاب کو چھپوانے کے لئے ایک طولانی صف میں کھڑا ہونا پڑتا ہے
بحمداللہ اس کتاب پر بہت سے بزرگان جیسے آیت اللہ العظمی بروجردی نے عنایت کی اور میری بڑی ہمت افزائی کی(۱)۔