حقوق بشر کے نام پر بہت بڑا جھوٹ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
کامیابی کا راز
انقلاب کی بنیادیںپہلی جلاوطنی شہر چابھار

ہمارے ملک کی معاصر تاریخ کو اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت حقوق بشر کی کس طرح مخالفت ہوتی تھی ،جب کہ حقوق بشر کے عالمی اعلان میں پوری دنیا کو تاکید کی گئی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارگی سے پیش آئیں اور اس کے پانچویں بند میں بیان ہوا ہے کہ ”کسی شخص کو حق نہیں ہے کہ وہ کسی کو جسمانی اذیت پہنچائے یاظالمانہ سلوک کرے یاانسانیت کے خلاف کوئی کام انجام دے ،اس کے علاوہ اسلامی حکومت کے قوانین میں جس پر علمائے دین خصوصا امام خمینی (رہ) بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں ،اس موضوع کو بہت اہمیت دی گئی ہے ، لیکن ہمارے ماحول میں یہ مسئلہ ایک کھیل بن گیا ہے اور ہم روزانہ حقوق بشر کی خلاف ورز یوں کا مشاہدہ کرتے تھے ۔
اس کا ایک نمونہ جلاوطن ہونے والوں کے ساتھ جلاوطنی کرنے والوں کے طریقہ کوملاحظہ کریں:
رات کا وقت تھا ، ٹھنڈ بہت زیادہ تھی اور رات کامل طور پر تاریک تھی ،قم کے تھانہ کے پاس فوج کی ایک گاڑی میرے اور دو لوگوں کے انتظار میں کھڑی تھی ، ہر آدمی کے لئے دو فوجی، اسلحہ سے لیس تعینات کئے گئے تھے اور چونکہ قم کی حالت بہت زیادہ خراب تھی اس لئے ہمیں لے جانے میں جلدی کررہے تھے ۔
جس وقت ہم فوج کے چھے سپاہیوں کے ساتھ قم اور اراک کی چیک پوسٹ پر پہنچے توآسمان سے برف برسنے لگا ۔ یہاں پر ہمیں رکنا کرنا تھا تاکہ ہمیں الگ الگ لے جانے والی گاڑیاں آجائیں اور پھرہم اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوجائیں ۔
گاڑیوں کے پہنچنے تک ہم نے پلیس کے آرام خانہ میں ٹہرنے کے لئے کا تو وہاں کے تھانہ دار نے اجازت نہ دی اورکہا کہ گاڑی ہی میں بیٹھے رہو اور یہی نہیں بلکہ فوجی ہماری کمر پر اسلحہ لگائے ہوئے تھے تاکہ ہم کچھ نہ کرسکیں ۔
اس گاڑی کی چھت کی ترپال پھٹی ہوئی تھی اور گاڑی کے ظلمت کدہ میں برف داخل ہورہا تھا اور شاید برف کی ٹھنڈک سے اس وقت درجہ حرارت زیرو سے بہت نیچے تھا ۔ فوجی ایک ایک کرکے پولیس کے چیک پوسٹ میں اندر جاتے تھے اورگرم ہو کر واپس آجاتے تھے ، میں نے احساس کیا کہ گاڑی میں بیٹھے رہنا خطرناک ہے لہذا بہتر ہے کہ زمین پر ٹہلتے رہیں تاکہ ہماری رگوں میں خون نہ جم سکے ، لیکن انہوں نے اجازت نہیں دی ، آخر کار ہم نے سوچا کہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اپنے ہاتھ اور پیروں کوہلاتے رہیں تاکہ خون کے جمنے سے محفوظ رہیں اور میں کبھی نہیں بھولوں گا کہ اس سردی کے آثار بہت دنوں تک میرے اندر باقی رہے ۔
اس کے بعد ہم ایک بس میں اصفہان کی طرف روانہ ہوگئے اور اس کے کئی گھنٹوں کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرا بدن گرم ہو رہا ہے ۔ اس بس کے مسافروں نے پولیس کی بندوقوں سے خوف زدہ ہونے کے باوجود (خاص طور سے جب انہوں نے مجھے پہچان لیا)کسی بھی طرح کی ہمدردی سے دریغ نہیں کیا ، اور اس منظر نے ان کو بہت سے مسائل سکھا دئیے ۔
حکم یہ تھا کہ تیزی سے چلیں اور شہروں میں توقف نہ کریں اور اگر ضرورت ہو تو صرف راستہ کی پولیس چیک پوسٹ پر ایک گاڑی سے اتر کر دوسری گاڑی میں سوار ہوجائیں ، آدھی رات کے بعد اصفہان پہنچے ،وہاں سے انہوں نے ہمیں ایک کار کے ذریعہ یزد کی طرف روانہ کردیا ، راستہ میں ہم ایسی جگہ پر پہنچیں جہاں کا راستہ بہت تنگ اورسخت تھا اس جگہ کا نام ”ملا احمد“ تھا ، وہاں پر برف اور غلیظ کہرا تھا اور بہت ہی کم رفت و آمد ہورہی تھی ، لیکن ان کا اصرار تھا کہ اسی حالت میں آگے بڑھتے رہیں، ہم ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں پر نہ آگے بڑھ سکتے تھے اور نہ پیچھے ہٹ سکتے تھے ، خلاصہ یہ کہ اس رات برف اور کہرے کے درمیان موت کے منہ تک پہنچ گئے تھے لیکن خدا نے ہمیں نجات دی اور بہت ہی زحمت کے ساتھ یزد پہنچ گئے اور بغیر توقف کے راستہ طے کرتے رہے ۔
رات کو شہر ”بم“ اور ”ایرانشھر“ کے درمیان راستہ بھول گئے اور غلط راستہ پر چل دئیے ، سب جگہ تاریکی تھی اور کوئی بھی ذی روح نظر نہیں آرہا تھا ، ہم سوچ رہے تھے کہ کیا کریں؟ اچانک دور سے ایک چراغ نظر آیا تو معلوم ہوا کہ ایک بس ہے جو اسی طرف آرہی ہے ،ہم لوگ ڈر رہے تھے کہ شاید ہمارے اشارہ کرنے سے گاڑی نہ رکے ، ان دونوںسپاہیوں میں سے ایک سپاہی سے میری دوستی سی ہوگئی تھی اور آہستہ آہستہ میں اس کی اصلاح کررہا تھا ،اس نے کہا کہ یہ بندوق یہاں پر کام آئے گی، لہذا وہ گاڑی سے اتر ا اور بندوق تان کر گاڑی کے سامنے کھڑا ہوگیا!
ڈارئیور اور مسافرین ڈر گئے کہ کیا بات ہے؟ اور جب ان کو معلوم ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں اور راستہ معلوم کرنے کیلئے گاڑی رکوائی ہے تو وہ بہت خوش ہوئے!
آخر کار ہمیں معلوم ہوگیا کہ ہم غلط راستہ پر ایرانشہر کے بجائے زاہدان کی طرف جارہے ہیں!
اس گاڑی کا ڈرائیور جو کہ ایک نوعمر جوان تھا ہمارے واپس جانے کا مخالف تھا ، لیکن میں نے اصرار کیا کہ واپس چلیں کیونکہ گاڑی میں پٹرول ختم ہونے کا بھی خطرہ ہے (یہاں پر ایک بات بیان کرنا ضروری ہے کہ اس زمانہ میں یہاں تک کہ بڑی بڑی شاہراہوں پر بھی ۳۵۰ کیلو میٹر پر ایک پٹرول پمپ نہیں ہوتا تھا )، اس کے علاوہ تیس گھنٹے کے راستہ کی تھکان اور نیند نے ہماری حالت خراب کر رکھی تھی ، ان پولیس والوں نے بھی اس وجہ سے کہ مجھے ان سے زیادہ تجربہ ہے ! میری بات کی حمایت کی اور ہم شہر ”بم“ واپس آگئے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ پچاس گھنٹے کا راستہ طے کرنے کے بعد پاکستان کے سرحدی علاقہ اور دریائے عمان کے ساحل پر چابھار کی بندرگاہ یعنی شہر کی سب سے دور ترین جگہ پر پہنچ گئے ۔ راستہ کے تھکے ہارے ہم لوگ ، راستہ بھر حقوق بشر کے عمومی اعلان کو یاد ک رتے رہے ! معلوم ہوا کہ پولیس والوں کا دل بھی ہماری طرح ملک کے ماحول سے بھرا ہوا ہے لیکن ان کے بقول وہ فرار نہیں کرسکتے ۔

 

انقلاب کی بنیادیںپہلی جلاوطنی شہر چابھار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma