منافقین کی ایک اور نشانی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
تفسیربے منطق خود غرض افراد

مندرجہ بالاآیات میںمنافقین کے اعمال اور حاالت کے بارے میں ایک اور نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :وہ خدا کی قسم کھاتے ہیں وہ تم میں سے ہیں

( وَیَحْلِفُونَ بِاللهِ إِنَّھُمْ لَمِنْکُمْ )، ”حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں اور نا ہی کسی چیز میں تمہارے مواقف ہیں بلکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو بے حد ڈرپوک ہیں “ اور شدت خوف ہی کے باعث اپنے کفر کو چھپاتے ہیں اور ایمان کا اظہار کرتے ہیں کہ کہیں گرفتارِ بلا نہ ہوجائیں( وَمَا ھُمْ مِنْکُمْ وَلَکِنَّھُمْ قَوْمٌ یَفْرَقُونَ) ۔
یفرقون“ مادہ ”فرق“ (بروزن” شفق“)سے ہے اور اس کا معنی ہے شدت خوف وہراس ، راغب نے ”مفردات“ میں کہا ہے کہ یہ مادہ اصل میں تفرقہ، جدائی اور پراگندگی کے معنی میں ہے، گویا اس طرح ڈرتے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ ان کا دل متفرق اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے ۔
درحقیقت باطن میں چونکہ ان کا کوئی سہارا نہیں لہٰذا ہمیشہ کے لئے خوف وہراس اور شدید وحشت میں گرفتار ہیں اور اسی خوف ووحشت کی وجہ سے جو کچھ ان کے باطن میں ہے اس کا کبھی اظہار نہیں کرپاتے اور چونکہ خدا سے نہیں ڈرتے اس لئے ہر چیز سے ڈرتے ہیں اور ہمیشہ وحشت زدہ رہتے ہیں جب کہ سچے اور حقیقی مومن ایمان کے سائے میں سکون واطمینان اور ایک خاص شہامت وجراٴت سے رہتے ہیں ۔
بعد والی آیت میں مومنین سے ان کے شدید بغض، عداوت اور نفرت کو مختصر سی عبارت میں لیکن رسا اور واضح انداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ ایسے ہیں کہ اگر کوئی پناہ گاہ (مثلاً مستحکم قلعہ) انہیں مل جائے یا پہاڑوں کی غاروں تک جاسکتے ہوں یا انہیں زیر زمین کوئی راستہ مل جائے تو جتنا جلدی ہوسکے اس کی طرف کھڑے ہوں تاکہ وہ تم سے دور ہوکر اپنے کینہ اور عداوت کو ظاہر کرسکیں

( لَوْ یَجِدُونَ مَلْجَاٴً اٴَوْ مَغَارَاتٍ اٴَوْ مُدَّخَلًا لَوَلَّوْا إِلَیْہِ وَھُمْ یَجْمَحُونَ) ۔
ملجاء“ کا معنی ہے ”پناہ گاہ“ مثلا کوئی مستحکم قلعہ یا اس قسم کی کوئی جگہ۔
مغارات“ جمع ہے ”مغارہ“ کی جس کا معنی ہے ”غار“ ۔
مدخل“ کا معنی ہے پوشیدہ اور چھپے ہوئے راستے، مثلا وہ نقب جو زیر زمین لگاتے ہیں اور اس کے کسی جگہ میں داخل ہوجاتے ہیں ۔
یجمحون“ “جماح“کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے تیزی اور شدت کے ساتھ چلنا کہ جیسے کوئی چیز روک نہ سکے، مثلا سرکش اور موہ زور گھوڑے کا دوڑنا کہ جسے روجا نہ جاسکتا ہو، اسی اسے گھوڑے کو ”جموح“ کہتے ہیں ۔
بہرحال یہ ایک واضح ترین اور نہایت عمدہ تعبیر ہے جو قرآن منافقین کے خوف ووحشت کے بارے میں یا ان کے بغض ونفرت کے سلسلے میں بیان کرتا ہے کہ اگر انہیں پہاڑوں یا زمین پر کوئی راہ فرار مل جائے تو خوف یا دشمنی کی وجہ سے تم سے دور ہوجائیں لیکن چونکہ ان کی قوم وقبیلہ اور مال وثروت تمہارے علاقے میں ہے لہٰذا مجبور ہیں کہ خون جگر پی کر تم میں رہ جائیں ۔

۵۸ وَمِنْھُمْ مَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ فَإِنْ اٴُعْطُوا مِنْھَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْھَا إِذَا ھُمْ یَسْخَطُونَ۔
۵۹ وَلَوْ اٴَنَّھُمْ رَضُوا مَا آتَاھُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ سَیُؤْتِینَا اللهُ مِنْ فَضْلِہِ وَرَسُولُہُ إِنَّا إِلَی اللهِ رَاغِبُونَ۔
ترجمہ
۵۸۔ان میں ایسے لوگ ہیں جو غنائم (کی تقسیم)کے بارے میں تم پر اعتراض کرتے ہیں اگر ان میں سے انہیں دے دیں تو راضی ہوجاتے ہیں اور اگر نہ دیں تو ناراض ہوجاتے ہیں(چاہے ان کا حق ہو یا نہ ہو) ۔
۵۹۔لیکن اگر وہ اس پر راضی ہوں کہ جو خدا اور اس کا رسول انہیں دیتا ہے اور کہیں کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے اور عنقریب خدا اور اس کا رسول اپنے فضل میں سے ہمیں بخشے گا اور ہم صرف اس کی رضا چاہتے ہیں اگر ایسے کریں تو ان کے فائدے میں ہے ۔


شان نزول

تفسیر در منثور صحیح بخاری ، نسائی اور بعض دیگر محدثین سے نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم کچھ غنائم( یا ان جیسے) اموال کی تقسیم میں مشغول تھے کہ قبیلہ بنی تمیم میں سے ایک شخص ”ذوالخویصرہ “ آپہنچا اور بلند آواز سے پکار کر کہنے لگا : یا رسول اللہ عدل وانصاف سے کام لیں ۔
رسول اللہ نے فرمایا : وائے ہو تجھ پر، اگر میں عدالت نہ کروں تو پھر کون عدالت کرے گا ۔
عمر نے چیخ کر کہا: یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئے کہ میںاس کی گردن اڑا دوں ۔
رسول اللہ نے فرمایا : اسے اس کی حالت پر چھوڑ دو، اس کے ایسے ساتھی ہیں کہ تم اپنی نماز روزہ ان کے مقابلے میں ناچیز سمجھو گے لیکن اس کے باوجود وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے کہ جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔
اس موقع پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور اس قسم کے افراد کو نصیحت کی گئی ۔

 

تفسیربے منطق خود غرض افراد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma