تفسیر علی بن ابراہیم اور بہت سی دوسری تفاسیر میں ہے کہ مندرجہ بالا آیت جنگ بدر کے لئے مکہ کے لوگوں کی مالی امداد کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ جب مشرکین مکہ ابوسفیان کے قاصد کے ذریعے واقعہ سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے بہت سا مال واسباب اکھٹا کیا تاکہ اپنے جنگی سپاہیوں کی مددکریں لیکن اخر کار وہ شکست کھاگئے اور مارے گئے اور جہنم کی آگ کی طرف چلے گئے اور اس راہ میں انھوں نے جو کچھ صرف کیا تھا ان کی حسرت واندوہ کا سبب بنا۔
پہلی آیت میں ان کی باقی امداد کی طرف اشارہ ہے جو انھوں نے اسلام کے خلاف مقابلوں میں کی تھی اور اس مسئلے کو ایک عمومی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آیت ابوسفیان کی جنگ بدر میں دو ہزار کرائے کے سپاہیوں کی مدد کے بارے میں نازل ہوئی لیکن چونکہ یہ آیات جنگ بدر سے مربوط آیات کے ساتھ آئیں ہیں اس لئے شانِ نزول زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔
آیت کی شانِ نزول میں جو کچھ بھی ہو اس کا مفہوم جامع ہے اور یہ دشمنانِ حق وعدالت کی ان تمام مالی امدادوں کے بارے میں ہے جو وہ اپنے بُرے مقاصد کی پیش رفت کے لئے کرتے تھے، پہلے کہا گیا ہے : کافر اور دشمنِ حق اپنا مال خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ حق سے روکیں (إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یُنْفِقُونَ اٴَمْوَالَھُمْ لِیَصُدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللهِ)۔ لیکن اموال کا یہ صرف کرنا ان کی کامیابی کا باعث نہیں بن سکتا ”عنقریب وہ یہ اموال خرچ کریں گے لیکن انجام کار وہ ان کی حسرت واندوہ کا سبب ہوگا“ (فَسَیُنفِقُونَھَا ثُمَّ تَکُونُ عَلَیْھِمْ حَسْرَةً)۔ اور پھر وہ اہلِ حق کے ہاتھوں مغلوب ہوںگے(ثُمَّ یُغْلَبُونَ)۔
یہ لوگ نہ صرف اس جہان میں حسرت وشکست میں گرفتار ہوںگے بلکہ دوسرے جہان میں یہ کافر اکھٹے ہوکر جہنم میں جائیں گے (وَالَّذِینَ کَفَرُوا إِلیٰ جَھَنَّمَ یُحْشَرُون)۔