بعض کا نظریہ ہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد کی آیت کی پانچ آیات مکہ میں نازل ہوئی ہیں چونکہ یہ ہجرت پیغمبر کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن آیت کا طرزِ بیان گواہی دیتا ہے کہ یہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے چونکہ اس میں گذشتہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا اگرچہ واقعہٴ ہجرت کی طرف اشارہ کررہی ہے لیکن مسلّماً مدینہ میں نازل ہوئی۔ اس میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور مسلمانوں پر پروردگار کے ایک احسانِ عظیم اور نعمت عظمیٰ کو بیان کیا گیا ہے پہلے فرمایا گیا ہے: وہ وق تیاد کرو جب مشرکین مکہ نے سازش کی کہ تجھے قید کردیں یا قتل کردیں اور یا جلاوطن کردیں (وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ اٴَوْ یَقْتُلُوکَ اٴَوْ یُخْرِجُوکَ)۔
جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے لفظ ”مکر“ عربی زبان میں تدبیر، چارہ جوئی اور منصوبہ بندی کے معنی میں ہے نہ کہ اس مشہور معنی جو آج کل فارسی زبان میں مروّج ہے۔ اسی طرح لفظ ”حیلہ“ بھی لغت میں چارہ جوئی اور تدبیر کے معنی میں ہے لیکن فارسی زبان میں آج کل یہ لفظ خطرناک سازش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔(1)
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: وہ منصوبہ بندی، چارہ جوئی اور تدبیر کرتے ہیں اور خدا بھی چارہ جوئی اور تدبیر کرتا ہے اور وہ بہترین منصوبہ ساز اور مدبّر ہے (وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللهُ وَاللهُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ)۔
اگر ہم ہجرت کے واقعہ پر صحیح غور وفکر کریں تو اس نکتے پر پہنچیں گے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو ختم کرنے کے لئے اپنی پوری فکری اور جسمانی صلاحیتیں صرف کر چکہ تھے یہاں تک کے جب رسول خدا ان کے چنگل سے نیکل گئے تو انہوں نے آپ کی گفتاری کے لئے ایک سواونٹوں کا انعام مقرر کیا تھا جو کہ اس دور میں ایک بہت بڑاسرمایا تھا ۔بہت سے لوگوں نے مذہبی تعصب یا اتنا بڑا انعام حاصل کرنے کے لئے اطراف مکہّ کے کوہ بیابان چھان ڈالے تھے ۔یہاں تک کہ غار کے دھانے تک بھی آپہنچے لیکن خدا تعالیٰ نے ایک نہایت معمولی اور چھوٹے سے (مکڑی کی جالے )کے ذریعے ان کی سبب سازشیں نقش بر آپ کردیں ۔
اس طرح توجہ کرتے ہوئے کہ واقعہ ہجرت تاریخ اسلام بلکہ تاریخ انسانیت کی ایک نئے مرحلہ کا آغاز تھا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ خدا نے عنکبوت کی چند تاروں کے ذریعے تاریخ انسانیت کی راہ کو بدل کے رکھ دیا ۔
یہ بات واقعہ ہجرت میں منحرف نہیں بلکہ تاریخ انبیاء نشاند ہی گرتی ہے کہ خداتعالیٰ متکبر ین کی سر کوب کے لئے ہمیشہ معمولی سے ذرائع کو کام میں لاتا ہے ۔کبھی آندھی کے ذریعے ،کبھی ابابیل جیسے چھوٹے پرندوں کے ذریعے اور کبھی ایسی ہی دیگر چھوٹی چھوٹی چیزوں ذریعے ---- تا کہ خدا کی بے پایان قدرت کے سامنے انسان کی کمزوری اور ناتوانی واضح ہو جائے اورسرکشی کی فکر سے بازرکھے۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قید ،جلاوطنی اور قتل کی سارشیں صرف متکرین کی طرف پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے خلاف ہی نہیں بلکہ جابر اور سرکش لوگ ہمیشہ مصلحین کی زبان روکنے کے لئے اور معاشرے کے ستم رسیدہ دکھی عوام می ان کا اثر و نفوذ ختم کرنے کے لئے ان تین میں سے کسی نہ کسی حر بے کا سہارا لیتے رہے تھے ۔لیکن جیسے پیغمبر اسلام کے خلاف مشرکین مکہ کے اقوام کا نتیجہ برعکس نکلا اور وہ اسلام کے لئے ترقی اور نئی تحریک کامقدمہ اور تمہید بن گیا ایسے ظالمانہ اقدامات کا عام طور پر الٹا ہی نتیجہ نکلتا رہا۔(2)
ٍ