۱۔ کیا یک طرفہ طور پر معاہدہ کالعدم کردیا صحیح ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
مشرکین کے معاہدے لغو ہوجاتے ہیں۲۔ یہ چار مہینے کب سے شروع ہوئے؟

ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں ایفائے عہد اور معاہدوں کی پابندی کو خاص اہمیت دی گئی ہے، ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم یہ حکم دے رہا ہے کہ مشرکین سے کیا گیا معاہدہ یکطرفہ طور پر فسخ ہوگیا ہے ۔
ذیل کے امور کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے:
پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے اسی سورہ کی آیت ۷ اور ۸ میں تصریح ہوئی ہے کہ بلاوجہ اور بلاوجہ تمہید معاہدوں کو اسی طرح لغو قرار نہیں دیا گیا تھا بلکہ ان کی طرف معاہدہ توڑنے کے واضح قرائن اور نشانیاں موجود تھیںاور وہ اس بات پر تیار تھے کہ طاقت حاصل ہونے کی صورت میں مسلمانوں سے کئے گئے معاہدوں کی ذرّہ بھر پرواہ کئے بغیر ان پر کاری ضرب لگائیں ۔
یہ بات بالکل منطقی ہے کہ اگر انسان دیکھے گا کہ دشمن اپنے آپ کو عہد شکنی کے لئے تیار کررہا ہے اور اس کے اعمال میں ایسی کافی علامات اور قرآئن نظر آرہے ہوں تو اس سے پہلے کہ وہ غفلت میں پکڑا جائے معاہدے کی منسوخی کا اعلان کرکے اس کے مقابلے میں کھڑا ہوجائے گا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ جو معاہدے خاص حالات میں کسی قوم یا ملت پر ٹھونسے اور وہ انھیں قول کرنے پر مجبور ہو تو کیا حرج ہے کہ طاقت حاصل ہونے کے بعد ایسے معاہدے یک طرف طور پر لغو کردے ۔
بت پرستی کوئی دین تھا نہ کوئی عاقلانہ فکر بلکہ ایک بیہودہ، موہوم اور خطرناک روش تھی کہ جسے آخرکار معاشرے سے ختم کیا جانا تھا، اب اگر بت پرستوں کی طاقت ابتداء میں جزیرہٴ عرب میں اس قدر تھی کہ پیغمبر اسلام مجبور تھے کہ ان سے صلح اور عہد وپیمان کریں تو یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ طاقت کے حصول کے بعد ہوئے عہد وپیمان کو جو منطق، عقل اور درایت کے خلاف ہیں وہ قائم رہیں، یہ بالکل اس طرح ہے کہ طاقت کے ایک عظیم مصلح گاوٴ پرستوںںمیں ظاہر ہو اور اس طریقے کو ختم کرنے کے لئے وسیع تبلیغات شروع کرے اور جب دباؤ میں ہو تو مجبوراً ان سے ترکِ مخاصمت اور ترک جنگ کا معاہدہ کرے لیکن جب اس کے کافی پیروکار ہوجائیں تو قیام کرے اور کہنہ افکار کو صاف کرنے کے لئے فعّالیت کرے اور اپنے معاہدے کے منسوخ ہونے کا اعلان کردے ۔
اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کم صرف مشرکین کے ساتھ مخصوص تھا اور اہلِ کتاب یا دیگر قوّتیں جو جزیرہٴ عرب کے اطراف میں آباد تھیں ان سے کئے گئے معاہدوں کا رسول الله کی آخر عمر تک احترام کیاگیا ۔
علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ مشرکین کے معاہدوں کو غفلت کی حالت میں منسوخ نہیں کردیا گیا بلکہ انھیں چار مہینوں کی مہلت دی گئی اور حجاز کے عوامی اجتماع کے مرکز میں عید قربان کے دن خانہٴ کعبہ کے پاس اس امر سے تمام لوگوں کو باخبر کیا گیا تاکہ انھیں غوروفکر کرنے کے لئے زیادہ سے مہلت اور موقع مل جائے اور شاید اس طرح وہ اس ے بیہودہ مذہب سے دستبردار ہوجائیں جو پس ماندگی، طراکندگی، جہالت اور خباثت کا سبب ہے، خداتعالیٰ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ انھیں غفلت میں رکھے اور ان سے فکرونظر کی مہلت سلب کرلے یہاں تک کہ اگر وہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو انھیں اپنے دفاع کے لئے قوت وطاقت مہیا کرنے کے لئے کافی وقت دیاجائے تاکہ وہ ایک عادلانہ جنگ میں گرفتار نہ ہوجائیں ۔
اگر پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم تربیت اور اصولِ انسانی کو ملحوظ نہ رکھتے تو چار ماہ کی مہلت دے کر کبھی دشمن کو بیدار نہ کرتے اور جنگی طاقت مہیا کرنے اور تیاری کے لئے انھیں کافی وقت نہ دیتے بلکہ کسی ایک دن یک طرفہ طور پر معاہدہ توڑکر بغیر کسی تمہید کے ان پر حملہ کرکے ان کی بساط اُلٹ دیتے ۔
اسی بناپر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے بت پرستوں نے ان چار ماہ کی مہلت سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی تعلیمات کا زیادہ مطالعہ کرکے آغوش اسلام میں آگئے ۔

مشرکین کے معاہدے لغو ہوجاتے ہیں۲۔ یہ چار مہینے کب سے شروع ہوئے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma