اس سوال کے جواب میںمفسّرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن جو کچھ مندرجہ بالا آیات سے ظاہر ہوتا ہے یہ ہے کہ ان کی ابتداء اس وقت ہوئی جب سے یہ اعلان عام لوگوں کے سامنے پڑھا گیا اور ہم جانتے ہیں کہ یہ عید قربان کے روز دس ذ الحجہ کو پڑھا گیا تھا، اس بناپر اس کی مدت اگلے سال کے ماہ ربیع الثانی کی دس تاریخ کو ختم ہوئی تھی، امام صادق علیہ السلام سے جو روایت نقل ہوئی ہے وہ بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہے ۔(1)
۳ وَاٴَذَانٌ مِنْ اللهِ وَرَسُولِہِ إِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاٴَکْبَرِ اٴَنَّ اللهَ بَرِیءٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُہُ فَإِنْ تُبْتُمْ فَھُوَ خَیْرٌ لَکُمْ وَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا اٴَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللهِ وَبَشِّرِ الَّذِینَ کَفَرُوا بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ
۴ إِلاَّ الَّذِینَ عَاھَدتُّمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ثُمَّ لَمْ یَنقُصُوکُمْ شَیْئًا وَلَمْ یُظَاھِرُوا عَلَیْکُمْ اٴَحَدًا فَاٴَتِمُّوا إِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْ إِلیٰ مُدَّتِھِمْ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ
ترجمہ
۳۔ یہ آگاہی ہے خدا اوراس کے پیغمبر کی طرف سے (تمام) لوگوں کو حجِ اکبر (عید قربان) کے دن کہ خدا اور اس کا رسول مشرکین سے بے آزار ہے، ان حالات میں اگر توبہ کرو تو تمھارے نفع میں ہے اور اگر روگردانی کرو تو جان لو کہ تم خدا کو ناتواں اورعاجز نہیں کرسکتے (اور اس کی قدرت کی قلمرو سے نہیں نکل سکتے) اور کافروں کو دردناک سزا اور عذاب کی خوشخبری دے ۔
۴۔ مگر مشرکین میں سے وہ لوگ جن سے تم نے معاہدہ کیا ہے اور اس میں ان سے کوئی فروگذاشت نہیں ہوئی اور تمھارے خلاف انھوں نے کسی کو تقویت نہیں پہنچائی ان کا معاہدہ اس کی مدت ختم ہونے تک محترم شمار کرو کیونکہ خد اپرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے ۔