جس کیفیت میں سورہ شروع ہورہی ہے وہ خود اس سوال کا جواب ہے ۔ در حقیقت اس سورہ کا آغاز پیمان شکن دشمنوں سے اعلان جنگ اور اظہار بیزاری کے ساتھ ہوا ہے اور ان کے خلاف ایک محکم اور سخت روش اختیار کی گئی ہے اور اس گروہ کے بارے میں خدا کے غیض و غضب کو بیان کیا گیا ہے ۔ لہٰذا یہ صورت حال ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ سے مناسبت نہیں رکھتی جو صلح، دوستی، محبت،خدا کی رحمانیت و رحمیت کا اظہار ہے ۔ یہ بات ایک روایت میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے ۔(۱)
بعض حضرات کا نظریہ ہے کہ یہ سورت در حقیقت سورہٴ انفال کا تسلسل ہے کیونکہ سورہٴ انفال میں عہد و پیمان کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور اس سورہ میں پیمان شکنوں کے معاہدوں کو لغو قرار دینے کی بات کی گئی ہے لہٰذا ان دو کے درمیان ”بسم اللہ“ نہیں آئی ۔ اس سلسلے میں امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت بھی منقول ہے ۔ (۲)