یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ اتنے مختصر سے فاصلے میں ”کداٴب اٰل فرعون ----“ کامختصر سے طرق کے ساتھ تکرار کیوں ہوا ہے؟
اس سوال کے جواب میں اس نکتے کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ اگر چہ حساس اور زندہ میں تکرار اور تاکید ایک اصولِ بلاغت ہے جو فصحاء اور بلغاء کی گفتگو میں ہمیشہ دکھائی دیتا ہے لیکن مندرجہ بالا آیات میں ایک اہم فرق بھی موجود ہے جو عبارت کو صورتِ تکرار سے خارج کردیتا ہے اور وہ یہ کہ پہلی آیت آیات حق کے انکار کے بدلے میں خدائی سزاؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کے بعد ان کی اس حالت کو فرعونیوں اور ان سے پہلے کی قوموں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جب کہ دوسری آیت میں خداوند تعالیٰ کی نعمتوں اور عنایتوں کے متغیّر ہونے یعنی کامیابیوں، قدرتوں اور دیگر افتخارات و اعزازات کے خاتمے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے بعد ان کی حالت کو فرعونیوں اور گذشتہ اقوام سے تشبیہ دی گئی ہے۔
در حقیقت ایک مقام پر گفتگو نعمتوں کے سلب ہونے اور اس سے پیدا ہونے والی سزا کے بارے میں ہے اور دوسرے مقام پر نعمتوں کے متغیّر اور دگرگون ہونے سے متعلق بحث ہے۔