تلاوتِ قرآن ہو رہی ہو تو خاموش رہو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
جامع اخلاقی ترین آیتسورہٴ انفال کے مختلف اور اہم مباحث

تلاوتِ قرآن ہو رہی ہو تو خاموش رہو

اس سورة (اعراف) کا آغاز عظمتِ قرآن کے بیان سے ہوا ہے اور قرآن ہی کے بارے میں اس کی آخری آیات گفتگو کررہی ہیں ۔
بعض مفسّرین نے زیر بحث آیات میں سے پہلی کے بارے میں کئی ایک شان نزول ذکر کی ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ابن عباس اور دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان ابتداء میں کبھی کبھی نماز میں باتیں کرلیتے تھے ۔ کبھی یوں ہوتا کہ جماعت ہو رہی ہوتی اور نیا آنے والا پوچھ لیتا کہ کتنی رکعتیں ادا ہوچکی ہیں اور وہ جواب دیتے کہ اتنی رکعتیں ادا ہوچکی ہیں ۔ اسی صورتِ حال کے پیش نظریہ آیت نازل ہوئی اور اس کام سے منع کیا گیا ۔
نیز زہری سے منقول ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم قرآن کی تلاوت کررہے ہوتے تو ایک انصاری نوجوان بلند آواز سے قرآن پڑھتا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کام سے روکا گیا ۔
بہر صورت قرآن مندرجہ بالا آیت میں حکم دیتا ہے: جب قرآن کی تلاوت ہورہی ہو تو توجہ سے اسے سنو اور خاموش رہو، شاید رحمتِ خدا تمھارے شاملِ حال ہو ( وَإِذَا قُرِءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَہُ وَاٴَنصِتُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ) ۔
” وَاٴَنصِتُوا “ ” انصاب “
کے مادہ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے کان دھر کر خاموشی سے سننا ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خاموشی اور سننے کا یہ حکم تمام مواقع کے لئے ہے کہ جب قرآن کی تلاوت ہورہی ہو یا صرف حالت نماز کے لئے ہے جبکہ امام جماعت قراٴت کررہا ہو۔ اس سلسلے میں مفسّرین میں بہت اختلاف ہے ۔ اس ضمن میں حدیث و تفسیر کی کتابوں میں مختلف احادیث نقل کی گئی ہیں ۔
ظاہر آیت سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ حکم عمومی ہے اور سب کے لئے ہے اور کسی معین حالت سے مخصوص نہیں ہے لیکن متعدد روایات جو ہادیاں اسلام سے نقل ہوئی ہیں سے معلوم ہوتا ہے اور علماء نے بھی جس امر پر اجماع و اتفاق کیا ہے یہ ہے کہ تمام اوقات میں استماع اور تلاوت کا سننا واحب نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستحب حکم ہے ۔ یعنی بہتر اور مستحب یہ ہے کہ جہاں کہیں اور جس حالت میں کوئی تلاوت قرآن کررہا ہو دوسرے سننے والے احترام قرآن میں سکوت اور خاموشی اختیار کریں اور کان لگا کر خدا کا پیغام سنیں اور اپنی زندگی میں اس سے سبق حاصل کریں کیونکہ قرآن صرف پڑھنے کی کتاب نہیں بلکے سمجھنے اور اس کے بعد عمل کرنے کی کتاب ہے ۔ اس مستحب حکم کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ بعض روایات میں اسے واجب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
یحب الانصات للقرآن فی الصلٰوة و فی غیرہاو اذا قرء عندک القراٰن وجب علیک الانصات والا ستماع
تجھ پر واجب ہے کہ نماز کے علاوہ بھی تلاوت قرآن ہورہی ہو تو خاموشی اختیار کرے اور اسے سنے اور جب تیرے سامنے قرآن پڑھا جائے تو ضروری ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے اور کان دھر کے اسے سنا جائے ۔ (۱)
یہاں تک کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر امام جماعت قراٴت میں مشغول ہو اور کوئی دوسرا آدمی کسی آیت کی تلاوت کرنے لگے تو مستحب ہے کہ امام خاموش ہوجائے یہاں تک کہ وہ آیت ختم کرے پھر امام قراٴت کی تکمیل کرے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
حضرت علی علیہ السلام نماز صبح میں مشغول تھے اور (ایک تاریک دل منافق) ”ابن کوا“ آپ(علیه السلام) کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا اچانک اس نے نماز میں اس آیت کی تلاوت کی:
و لقد اوحیٰٓ الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک و لتکونن من الخاسرین۔ (2)
(اس آیت کی تلاوت سے اس کا مقصد یہ تھا کہ بطور کنایہ حضرت علی (علیه السلام) پر احتمالی طور پر میدان صفین میں حکمیت قبول کرنے پر اعتراض کرے) ۔
لیکن امام نے اس حالت میں بھی احترام قرآن میں سکوت اختیار کیا یہاں تک کہ اس نے آیت ختم کی اس کے بعد امام(علیه السلام) اپنی نماز کی قراٴت کی طرف لوٹے ۔ ”ابن کوا“ نے دوبارہ وہی کام امام نے پھر سکوت اختیار کیا ۔ ”ابن کوا“ نے تیسری مرتبہ آیت کا تکرار کیا اور حضرت علی (علیه السلام)نے پھر سے احترام قرآن میں سکوت فرمایا ۔ اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت کی :
فاصبرانّ وعد اللّٰہ حق ولا یستخفنک الّذین لا یوٴمنون
(یہ اس طرف اشارہ تھا کہ خدا کا دردناک عذاب منافقین اور بے ایمان لوگوں کے انتظار میں ہے اور ان کے مقابلے میں تحمل اور حوصلہ مندی کا ثبوت دو) ۔
آخر کار امام نے سورت کو تمام کیا اور رکوع میں گئے ۔ (3)
اس ساری بحث سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کی آیات کو سنتے وقت استماع اور سکوت بہت ہی مناسب اور اچھا کام ہے لیکن ایسا کلی طور پر واجب نہیں اور شاید اجماع اورروایات کے علاوہ ” لعلکم ترحمون “ (شاید رحمت خدا تمھارے شاملِ حال ہو) بھی اس حکم کے مستحب ہونے کی طرف اشارہ ہو۔
صرف ایک ہی مقام پر یہ حکم الٰہی واجب ہے اور وہ نماز جماعت کا موقع ہے کہ جہاں ماموم سے حمد اور سورة کی قراٴت کے سقوط کی دلیل سمجھاہے ۔
منجملہ ان روایات کے جو اس حکم پر دلالت کرتی ہیں ایک حدیث ہے جو امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے جس میں آپ(علیه السلام) نے فرمایا ہے:
و اذا قرء القرآن فی الفریضة خلف الامام فاستمعوالہ و انصتوا لعلکم ترحمون
اور جب قرآن نمازِ واجب میں پڑھا جارہا ہو اور تم پیش نماز کے پیچھے ہو تو کان دھر کر سنو اور خاموش رہو۔ شاید رحمت خدا تمھارے شامل حال ہو۔ (4)
رہا سوال لفظ ”لعل“ (شاید)کے بارے میں جو ایسے مواقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ تو پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ رحمت خدا تمھارے شامل حال ہونے کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ بس تم سکوت اختیار کرو اور اسے کان دھر کے سنو بلکہ اس کی اور بھی شرائط ہیں کہ جن میں سے ایک اس پر عمل کرنا ہے ۔
اس نکتے کا ذکر بھی برمحل ہے کہ مشہور فقیہ ”فاضل مقداد“ نے کتاب ”کنز العرفان“ میں اس آیت کی ایک اور تفسیر بیان کی ہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد آیات قرآن کا سننا، ان کے مفاہیم کو سمجھنا اور اس کے معجزہ ہونے کا کھوج لگانا ہے ۔
یہ تفسیر شاید اس بناء پر کی گئی ہوکہ اس سے پہلے کی آیت میں مشرکین کے متعلق گفتگو تھی کہ وہ نزول قرآن کے بارے میں بہانہ جوئی کرتے تھے، لہٰذا قرآن ان سے کہتا ہے: خاموش رہو اور کان لگا کر سنو تاکہ حقیقت کو پاسکو۔ (5)
اس میں کوئی مانع نہیں کہ مندرجہ بالا آیت کا مفہوم اس قدر وسیع سمجھا جائے کہ اس میں مسلمان اور کافر سب سے خطاب ہو۔ غیر مسلمان سنیں تو سکوت اختیار کریں اور اس میں غور و فکر کریں تاکہ ایمان لے آئیں اور خدا کی رحمت ان کے شامل حال ہو اور مسلمان بھی کان دھریں، اس کے مفاہیم کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں تاکہ رحمت الٰہی انھیں اپنے جلوہ میں لے لے کیونکہ قرآن سب کے لئے ایمان ،علم اور عل کی کتاب ہے اور یہ کسی ایک گروہ کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔
اگلی آیت میں مندرجہ بالا حکم کی تکمیل کے لئے پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے (البتہ یہ ایک عمومی حکم ہے اگر چہ روئے سخن پیغمبر کی طرف ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں دیگر مقامات پر بھی ایسا ہوا ہے): اپنے پروردگار کو اپنے دل میں تضرع وزاری اور خوف کے ساتھ یاد کرو ( وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِی نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَخِیفَة) ۔ (6)
مزید ارشاد ہوتا ہے: اور آہستہ ، آرام اور سکون کے ساتھ اس کا نام زبان پر لاؤ ( وَدُونَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ ) ۔اور ہمیشہ صبح و شام یہ کام جاری رکھو

 (بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ) ۔
”اصال“”اصیل“ کی جمع ہے جو غروب اور شام کے قریب کا معنی دیتا ہے ۔
اور یاد خدا سے غافل اور بے خبر لوگوں میں سے ہرگز نہ ہوجا (وَلَاتَکُنْ مِنَ الْغَافِلِینَ) ۔
ہر حالت میں، ہر روز صبح و شام خدا کی یاد دولوں کی بیداری کا سب ہے اور غفلت کے تاریک بادلوں کو انسان سے دور رکھنے کا ذریعہ ہے ۔ یاد خدا باران بہار کی طرح ہے کہ اس کی پھوار جب دل پر پڑتی ہے تو بیداری، توجہ، احساسِ ذمہ داری، روشن بینی اور ہر قسم کے مثبت اور اصلاحی عمل کے پھول اُگاتی ہے ۔
اس کے بعد سورة کو اس گفتگو پر ختم کیا گیا ہے کہ نہ صرف تمھیں ہی ہر حالت میں یاد خدا میں رہنا چاہیے بلکہ مقرب بارگاہ پروردگار فرشتے اور وہ جو مقام َ قرب میں تیرے پروردگار کے قریب ہیں کسی وقت بھی اس کی عبادت کرنے پر تکبر نہیں کرتے اور مسلسل اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس کی پاک ذات کو ہر اس چیز سے منزہ سمجھتے ہیں جو اس کے مقام و منزلت کے لائق نہیں اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہتے ہیں ( إِنَّ الَّذِینَ عِنْدَ رَبِّکَ لَایَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیُسَبِّحُونَہُ وَلَہُ یَسْجُدُونَ ) ۔
”عند ربک“ یعنی وہ جو تیرے پروردگار کے پاس ہیں، یہ قربِ مکانی کے معنی نیں ہے کیونکہ خدا کا کوئی مکان نہیں ہے بلکہ قربِ مقام کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ اس حیثیت ومقام کے باوجود بندگی، سجدہ اور تسبیح میں کوتاہی نہیں کرتے لہٰذا تم بھی کوتاہی نہ کرو۔
اس آیت کی تلاوت کے وقت سجدہ کرنا مستحب ہے لیکن بعض ال سنّت مثلاً ابوحنیفہ کے پیروکار اسے واجب شمار کرتے ہیں ۔
بارالٰہا! ہمارے دل کو اپنی یاد کے نور سے روشن کردے، وہی روشنی جس کے سائے میں ہم اپنا راستہ حقیقت کی طرف کھول سکیں اور اس نور سے پرچمِ حق لہرائے، ظالموں سے برسرِپیکار رہنے اور ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اپنے ذمہ پیغاموں کو پہنچانے میں مدد لیں ۔

 


۱۔ تفسیر برہان جلد ۲ ص ۵۷.
2۔آیت کا مفہوم یہ ہے:
3۔تفسیر برہان جلد ۲ ص ۵۶.
4۔تفسیر برہان جلد ۲ ص ۵۷.
5۔ کنز العرفان جلد اول ص ۱۹۵.
6۔ ”تضرع“”ضرع“کے مادہ سے ”پستان“ کے معنی میں ہے اس شخص کے کام کو بھی ”تضرع“کہتے ہیں جو انگلیوں کی پوروںسے دودھ دو ہے ۔ بعد ازاں یہ لفظ اظہار خضوع اور تواضع کے لئے استعمال ہونے لگا ۔
 

سورہٴ اعراف کی تفسیر اختتام کو پہنچی


 

جامع اخلاقی ترین آیتسورہٴ انفال کے مختلف اور اہم مباحث
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma