مشرکین کو مسجد میں داخلے کا حق نہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
۵۔ ایک سبق:اہلِ کتاب کے بارے میں ہماری ذمہ داری

ہم کہہ چکے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ۹ھء مراسم حج میں مکہ کے لوگوں تک جو چار احکام پہنچائے ان میں سے ایک یہ تھا کہ آئندہ سال کوئی مشرک مسجد الحرام میں داخل ہونے اور خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنے کا حق نہیں رکھتا، مندرجہ بالا آیت اس امر اور اس کے فلسفے کی طرف اشارہ کرتی ہے، پہلے ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان والو! مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد انھیں مسجد الحرام کے قریب نہیں آنا چاہیے (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا) ۔
کیا یہ آیت مشرکین کے نجس ہونے پر فقہی مفہوم کے لحاظ سے دلیل ہے یا نہیں ، اس سلسلے میں فقہاء اور مفسّرین میں اختلاف ہے ۔
آیت کے معنی کی تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ پہلے لفظ ”نجس“ (بروزن ”ہوس“) پر بحث کی جائے، یہ لفظ مصدری معنی رکھتا ہے اور تاکید ومبالغہ کے طور پر صفت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
راغب نے مفردات میں اس لفظ کے معنی کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ”نجاست“ اور ”نجس“ ہر قسم کی ناپاکی کے معنی میں ہے اور وہ دو طرح کی ہوتی ہے ایک حسّی اور دوسری باطنی ۔
طبرسی ”مجمع البیان“ میں کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز کہ جس سے انسان کی طبیعت متنفر ہو اسے ”نجس“ کہا جاتا ہے ۔
اس لئے یہ لفظ بہت سے ایسے مواقع پر استعمال ہوتا ہے جہاں اس کا ظاہری نجاست اور آلودگی کا مفہوم نہیں ہوتا، مثلاً ایسی تکلیف اور درد کہ جس کا علاج دیر میں ہو عرب اسے ”نجس“ کہتے ہیں، پست اور شریر اشخاص کے لئے بھی یہی لفظ بولا جاتا ہے، بڑھاپے اور بدن کی کہنگی وفرسوگی کو بھی ”نجس“ کہتے ہیں ۔
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ مشرکین کو نجس اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کا جسم پلید ہے جیسے خون، پیشاب اور شراب نجس ہوتے ہیں یا یہ کہ بت پرستی کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے ان میں ایک قسم کی باطنی پلیدگی ہے، اس طرح سے کفار کی نجاست ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا اور اس کے لئے ہمیں دوسری ادلّہ تلاش کرنا پڑ یں گی ۔
اس کے بعد ان کوتاہ فکر افراد کو جواب دیا گیا ہے جو یہ اظہار کرتے تھے کہ اگر مشرکین کا مسجد الحرام میں آنا جانا بند ہوگیا تو ہمارا کاروبار اور تجارت بند ہوجائے گی اور ہم فقیر ہوکر رہ جائیں گے، ارشاد ہوتا ہے: فقر وفاقہ سے ڈرتے ہو تو اگر خدا نے چاہا تو عنقریب تمھیں اپنے فضل وکرم کے ذریعہ بے نیاز کردے گا (وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیکُمْ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ) ۔
اور ایسا ہی ہوا کہ اُس نے مسلمانوں کو بہترین طور پر بے نیاز کردیا اور زمانہٴ پیغمبر ہی میں اسلام کے پھیلاوٴ اور وسعت سے خانہٴ خدا کے زائرین کا ایک سیلاب مکہ کی طرف اُمڈ آیا اور آج تک اسی طرح جاری وساری ہے ، مکہ جو جغرافیائی لحاظ سے نامناسب ترین حالات سے دوچار ہے، جو چند خشک اور سنگلاخ بے آب وگیاہ پہاڑوں کے درمیان موجود ہے، اس کے باوجود ایک بہت ہی آباد شہر ہے اور تجارت کا اہم مرکز ہے ۔
آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: خدا علیم و حکیم ہے (إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ) اور وہ جو بھی کم دیتا ہے حکمت کے مطابق ہوتا ہے اور وہ نتائج سے مکمل طور پر آگاہ اور باخبر ہے ۔


۲۹ قَاتِلُوا الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَابِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلَایُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولُہُ وَلَایَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَھُمْ صَاغِرُونَ
ترجمہ
۲۹۔ اہلِ کتاب میں سے وہ لوگ جو نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز جزا پر اور نہ اسے حرام سمجھتے جسے الله اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور نہ دینِ حق قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ خضوع وتسلیم کے ساتھ جزیہ دینے لگیں ۔

 

۵۔ ایک سبق:اہلِ کتاب کے بارے میں ہماری ذمہ داری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma