۱۔ عزیر کون ہیں؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
اہل کتاب کی بت پرستی۲۔ مسیح(ع) خدا کے بیٹے نہ تھے

عربی زبان میں ”عزیر“ انہی کو کہا جاتا ہے جو یہودیوں کی لغت میں ”عزرا“ کہلاتے ہیں، عرب چونکہ جب غیر زبان کا کوئی نام اپناتے ہیں تو عام طور پر اس میں تبدیلی کردیتے ہیں، خصوصاً اظہار محبت کے لئے اسے صیغہٴ تصغیر میں بدل لیتے ہیں، ”عزرا“ کو بھی ”عزیر“ میں تبدیل کیا گیا ہے ہے جیسا کہ ”عیسیٰ“ کے اصل نام کو جو دراصل ”یسوع“ تھا اور ”یحییٰ“ کو جوکہ ”یوحنا“ تھا بدل دیا ۔(۱)
بہرحال عزیر یا عزرا یہودیوں کی تاریخ میں ایک خاص حیثیت رکھتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بعض ملت وقوم کی بنیا اور اس کی جمعیت کی تاریخ کی درخشنگی کی نسبت ان کی طرف دیتے ہیں، درحقیقت حضرت عزیر نے اس دین کی بڑی خدمت کی ہے کیونکہ بخت النصر کے واقعہ میں جو بابل کا بادشاہ تھا یہودیوں کی کیفیت اس کے ہاتھوں درہم برہم ہوگئی، ان کے شہر بخت النصر کی فوج کے ہاتھ آگئے، ان کا عبادت خانہ ویران ہوگیا اور ان کی کتاب تورات جلادی گئی ۔
ان کے مرد قتل کردیئے گئے اور ان کی عورتیں اور بچے قید کرکے بابل کی طرف منتقل کردیئے گئے اور وہ تقریباً ایک سو سال وہیں رہے ۔
پھر جب ایران کے بادشاہ کورش نے بابل فتح کیا تو عزرا جو اس وقت کے یہودیوں کے ایک سردار اور بزرگ تھے اس کے پاس آئے اور اسے ان کے بارے میں سفارش کی، کورس نے ان سے موافقت کی کہ یہودی اپنے شہروں کی طرف پلٹ جائیں اور نئے سرے سے تورات لکھی جائے، اسی بناپر ان کا حد سے زیادہ احترام کرتے ہیں ۔(2)
اسی امر کے سبب یہودیوں کے ایک گروہ نے انھیں ”ابن الله“ (الله کا بیٹا) کا لقب دیا، اگرچہ بعض روایات سے مثلاً احتجاج طبرسی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ لقب حضرت عزیر کے احترام کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن اسی روایت میں ہے کہ جب پیغمبر اسلام نے ان سے پوچھا کہ اگر تم نے حضرت عزیر کا ان عظیم خدمات کی وجہ سے کرتے ہو اور اس بناء پر انھیں اس نام سے پکارتے ہو تو پھر یہ لقب حضرت موسیٰ کو کیوں نہیں دیتے جبکہ انھوں نے حضرت عزیر کی نسبت تمھاری بہت زیادہ خدمت کی ہے تو وہ اس کا کوئی جواب نے دے سکے اور نہ ہی اس کا کوئی جواب تھا ۔(3)
بہرحال اس نام سے بعض لوگوں کے اذہان میں احترام سے بالاتر صورت ہوگئی اور جیسا کہ عوام کی روش ہے کہ اس سے اپنی فطرت کے مطابق حقیقی مفہوم لیتے تھے اور انھیں واقعاً خدا کا بیٹا خیال کرتے تھے کیونکہ ایک تو حضرت عزیر نے انھیں دربدر کی زندگی سے نجات دی تھی اور دوسرا تورات لکھ کر ان کے دین کو ایک نئی زندگی بخشی تھی، البتہ ان سب کا یہ عقیدہ نہ تھا لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ خصوصیت سے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں تھا کی یہی طرز فکر تھی یہی وجہ ہے کہ کسی تاریخ میں یہ نہیں ہے کہ انھوں نے زیرِ بحث آیت کو سن کر اس سے انکار کیا ہو یا انھوں نے کوئی آواز بلند کی ہو اگر ایسا نہ ہوتا تو یقیناً وہ کوئی ردِّ عمل ظاہر کرتے ۔
جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے کہ آج یہودیوں میں ایسا عقیدہ موجود نہیں ہے اور کوئی شخص حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتا تو پھر قرآن نے کیوں اس کی نسبت ان کی طرف دی ہے؟
اس کی وضاحت یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام یہودی ایسا عقیدہ رکھتے ہوں البتہ یہ مسلم ہے کہ آیات قرآن نزول کے وقت یہودیوں میں ایسے عقائد رکھنے والے موجود تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی کسی نے مذکورہ نسبت کا انکار نہیں کیا صرف روایات کے مطابق اس کی توجیہ کی جاتی تھی اور حضرت عزیر کو ابن الله کہنے کو ایک طرح کا احترام قرار دیتے تھے ۔ اس لئے کہ جب پیغمبر اسلام نے یہ اعتراض کیا کہ کیا پھر ایسا ہی احترام حضرت موسیٰ کے بارے میں کیوں نہیں کرتے تو وہ جواب سے عاجز ہوجاتے تھے ۔
بہرکیف جب کسی عقیدے کی نسبت کسی قوک کی طرف دی جائے توضروری نہیں کہ اس کے تمام افراد اس سے متفق ہوں بلکہ اگر ایک قابلِ توجہ تعداد ایسا عقیدہ رکھتی ہو تو کافی ہے ۔

 


۱۔ جیساکہ عربی مباحث میں آیا ہے کہ تصغیر سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو چھوٹی نوع کو بیان کرنے کے لئے اس کے اصل صیغہ سے ایک خاص صیغہ بنایا جاتا ے مثلاً ”رجل“ (مرد) کی تصغیر ”رجیل“ (چھوٹا مرد) ہے البتہ بعض اوقات اس کا لفظ استعمال چھوٹے ہونے کے لحاظ سے نہیں ہوتا بلکہ اس شخص یا چیز سے اظہار محبت کے لئے ہوتا ہے جیساکہ انسان اپنے بیٹے سے اظہار محبت کرتا ہے ۔
2۔ المیزان، ج۹، ص۲۵۳ اور المنار، ج۱۰، ص۳۲۲.
3۔ نور الثقلین، ج۲، ص۲۰۵

 

اہل کتاب کی بت پرستی۲۔ مسیح(ع) خدا کے بیٹے نہ تھے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma