شان نزول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
دعوت، زندگی کی طرفایمان اور روشن ضمیری

مندرجہ بالا آیت کے نزول کے بارے میں کئی ایک روایات ہیں۔ ان میں سے ایک روایت امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ:
پیغمبر خدا نے حکم دیا کہ بنی قریظہ (جو مدینہ کے یہودیوں میں سے تھے) کا محاصرہ کرلیا جائے، یہ محاصرہ اکیس راتوں تک جاری رہا، لہٰذا وہ صلح کی تجویز پیش کرنے پر مجبور ہوگئے جیسے ان کے بھائی بنی نضیر (جو مدینے کا یہودیوں کا ایک اور گروہ تھا) کے لوگوں نے بھی کیا تھا۔ صلح کی تجویز میں انھوں نے پیش کش کی صداقت مشکوک تھی)اور فرمایا کہ صرف سعد بن معاذ کا فیصلہ قبول کیا جائے۔
انھوں نے تقاضا کیا کہ رسول الله ابولبابہ (آپ کے مدنی صحابی) کو ان کے پاس بھیجا جائے۔
ابولبابہ کا ان سے دوستی کا پرانا رشتہ تھا اور اس کے گھر والے، بیٹے اور مال ومنال ان کے پاس تھے۔
یہ تجویز رسول الله نے قبول فرمالی اور ابولبابہ کو ان کے پاس بھیج دیا۔
انھوں نے ابولبابہ سے مشورہ کیا کہ کیا اس میں مصلحت ہے کہ وہ سعد بن معاذ کی قضاوت قبول کرلیں۔
ابولبابہ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی اگر قبول کروگے تومارے جاوٴگے لہٰذا اس تجویز کو قبول نہ کرو۔
وحی خدا کے قاصد جبرئیل نے اس امر کی اطلاع پیغمبرکو دے دی۔
ابولبابہ کہتا ہے: ابھی میں نے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا تھا کہ متوجہ ہوا کہ میں نے خدا اور پیغمبر سے خیانت کی ہے۔
اس موقع پر یہ آیات اس کے متعلق نازل ہوئیں۔
اس وقت ابولبابہ سخت پریشان ہوا یہاں تک کہ اس نے اپنے آپ کو ایک طناب کے ذریعے مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا اور کہا: خدا کی قسم نہ کھاوٴں گا نہ پانی پیوں گا یہاں تک کہ مرجاوٴں گا یا یہ کہ خدا میری توبہ قبول کرلے۔
سات شب وروز گزر گئے نہ اُس نے کھایا اور پیا یہاں تک کہ بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑا تو خدا نے اس کی توبہ قبول کرلی۔
یہ خبر مومنین کے ذریعے اسے ملی لیکن اس نے قسم کھائی کہ میں اپنے آپ کو ستون سے نہیں کھولوں گا جب تک پیغمبر خدا آکر خود نہ کھولیں۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم آئے اور انھوں نے اسے کھو لا۔
ابولبابہ نے کہا:میں اپنی توبہ کی تکمیل کے لئے اس گھر کو چھوڑتا ہوں جس میں مَیںاس گناہ کا مرتکب ہوا تھا اور اپنے تمام مال سے صرفِ نظر کرتا ہوں ۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا :صرف اتنا کافی ہے کہ اپنے مال کا تیسرا حصّہ صدقہ کردے۔(۱)
کتب اہلِ سنّت میں بھی یہی مضمون اس آیت کی شان نزول کے متعلق موجود ہے ۔
گذشتہ آیات چونکہ جنگ بدر سے مربوط تھیں لہٰذا بعض نے اس بات کو بعید سمجھا ہے کہ یہ آیت یہودیوں اور بنی قریظہ سے متعلق ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ان روایات سے مراد یہ ہے کہ ابولبابہ کا واقعہ آیت کا ایک مصداق قرار پاسکتا ہے نہ یہ کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی ہے۔ ایسا ہی انھوں نے گذشتہ آیات کی شایان نزول سے متعلق بھی کہا ہے۔ مثلاً بعض کتب میں کچھ صحابہ سے منقول ہے کہ فلاں آیت عثمان کے بارے میں نازل ہوئی ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ عثمان کا قتل وفات پیغمبر سے سالہا سال بعد ہوا ہے۔
یہ احتمال بھی ہے کہ آیت تو بنی قریظہ کے واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہو لیکن چونکہ بدر کی آیات سے مناسبت رکھتی تھی لہٰذا پیغمبرِ خدا کے حکم سے ان کے ساتھ رکھ دی گئی ہو۔ 

خیانت اور اس کا شرچشمہ

پہلی آیت میں خداوندعالم نے روٴے سخن مسلمانوں کی طرف کرتے ہوئے کہا ہے: اے ایمان والو! خدا اور پیغمبر سے خیانت نہ کرو (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ)۔
خدا اور رسول سے خیانت یہ ہے کہ مسلمانوں کے فوجی راز دوسروں تک پہنچادیئے جائیں یا دشمنوں کو اپنے ساتھ مقابلے اور جنگ میں تقویت پہنچائی جائے یا واجبات، محرّمات اور خدائی احکام کو بالکل پس پشت ڈال دیا جائے۔ لہٰذا ابن عباس سے منقول ہے کہ جو شخص اسلامی احکام اور پروگراموں میں سے کسی چیز کو ترک کردے وہ اسی قدر خدا اور پیغمبر سے خیانت کا مرتکب ہوا ہے۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اپنی امانتوں میں سے خیانت نہ کرو(وَتَخُونُوا اٴَمَانَاتِکُمْ)۔(2)
امانت“ اگرچہ مالی امانتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن منطق قرآن میں اس کا وسیع مفہوم ہے زندگی کے جو تمام اجتماعی، سیاسی اور اخلاقی پہلوؤں پر محیط ہے۔ اس لئے حدیث میں آیا ہے:
”المجالس بالامانة“
جو باتیں خصوصی نشستوں اور مجالس میں ہوں وہ امانت ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے:
”اذا حدث الرجل بحدیث ثمّ التفت فھو امانة“
جب کوئی شخص کسی سے بات کررہا ہو ، پھر وہ اِدھر واُدھر دیکھے (کہ کہیں کوئی اسے سُن تو نہیں رہا) تویہ بات امانت ہے۔
لہٰذا اسلام کی آب وخاک مسلمانوں کے ہاتھ خدائی امانت ہے، ان کی اولاد بھی امنت ہے اور سب بالاتر قرآن مجید اور اس کی تعلیمات پروردگار کی عظیم امانت ہیں۔
بعض کا کہنا ہے کہ خدا کی امانت اُس کا دین ہے، رسول کی امانت ان کی سنّت اور مومنین کی امانت ان کا مال واسرار ہیں لیکن مندرجہ بالا آیت میں امانت میں تمام مفاہیم شامل ہیں۔
بہرحال امانت میں خیانت سب سے زیادہ قابلِ نفرت عمل اور قبیح ترین گناہ ہے۔ جو شخص امانت میں خیانت کرتا ہے در حقیقت وہ منافق ہے جیسا کہ حدیث میں منقول ہے:
”آیة المنافق ثلاث: اذا حدث کذب، واذا وعد اخلف، واذا ائتمن خانَ واذا صام وصلی وزعم انّہ مسلم“
منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے توخیانت کرتا ہے۔ ایسا شخص منافق ہے چاہے روزہ رکھتا ہو اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔
اصول طور پر امانت میں خیانت نہ کرنا انسانی فرائض اور حقوق میں سے ہے یعنی اگرچہ صاحبِ امانت مسلمان نہ ہو تب بھی اس کی امانت میں خیانت نہیں کی جاسکتی۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: ہوسکتا ہے تم غلطی سے اور بے خبری میں کسی چیز میں خیانت کر بیٹھو لیکن جان بوجھ کر کبھی ایسا نہ کرنا

(وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ)۔
البتہ جو اعمال ابولبابہ کے کام جیسے ہیں انھیں اشتباہ یا بے خبری نہیں کہا جاسکتا بلکہ مال، اولاد اور ذاتی مفاد سے عشق بعض اوقات حساس مواقع پر انسان کی آنکھ اور کان بند کردیتے ہیں اور وہ خدا اور پیغمبر سے خیانت کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ در حقیقت جان بوجھ خیانت کرنا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ انسان فوراً باولبابہ کی طرح بیدار ہوکر گذشتہ گناہ کی تلافی کرے۔
اگلی آیت میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ ہوشیار رہیں کہیں مادّی امور اور جلد گزر جانے والے شخصی مفادات انسان کی آنکھ اور کان پر پردہ نہ ڈال دیں اور وہ ایسی خیانتوں کا مرتکب نہ ہوجائے جو اس کے معاشرے کی زندگی اور سرنوشت کو خطرے میں ڈال دے۔ ارشاد ہوتا ہے : جان لو کہ تمھارے اموال اور اولاد آزمائش اور امتحان کا ذریعہ ہیں (وَاعْلَمُوا اٴَنَّمَا اٴَمْوَالُکُمْ وَاٴَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ)۔
جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے ایسے مواقع پر ”فتنة“کا معنی ہے ”آزمائش کا ذریعہ“ اور درحقیقت ایمان وکفر اور انسانی قدر وقیمت کے اندازے کے لئے یہ دو چیزیں اہم ترین میزان ہیں۔ مال واسباب حاصل کرنا، انھیں خرچ کرنا، ان کی حفاظت کرنا اور ان سے لگاوٴ کی کیفیت یہ سب امتحانِ بشر کے میدان ہیں۔
بہت سے ایسے اشخاص ہیں جو عام عبادات اور دین ومذہب کے ظاہری امور کے لحاظ سے بلکہ بعض اوقات مستحبات کے انجام دہی میں بہت سخت اور پکّے ہیں لیکن جب کوئی مکالی معاملہ بیچ میں آجائے تو سب چیزیں ایک طرف ہوجاتی ہیں اور قوانین الٰہی، مسائل انسانی اور حق وعدالت سب کچھ بھول جاتا ہے۔
اولاد کے بارے میں بھی یہی صورت ہے کہ جو انسان کے دل کا میوہ ہے اور بچّے انسان کی شاخِ حیات کے پھول ہیں، بہت سے افراد جو بظاہر امور دینی اور مسائلِ انسانی واخلاقی کے پابند ہیں انھیں ہم دیکھتے ہیں کہ جب ان کی اولاد کا معاملہ ہوتا ہے تو گویا ان کے افکار ونظریات پر پردہ پڑجاتا ہے اور وہ ان تمام مسائل کو بھول جاتے ہیں۔ اُولاد کی محبت کے ہاتھوں حرام کو حلال اور حلال کو حرام شمار کرتے ہیں۔ۺ اولاد کی آئندہ کی خیالی زندگی کے لئے ہر کام پر تیار ہوجاتے ہیں اور ہرحق کو پاوٴں تلے روند دیتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ امتحان کے ان دونوں میدانوں میں پھسل گئے ہیں اوروہ گر پڑے ہیں۔ انھوں نے اپنے لئے ابدی نفرین اوردائمی پھٹکار حاصل کی ہے۔
اگر ہم سے بھی کوئی لغزش سرزد ہوجائے تو ابولبابہ کی طرح ہیں ہمیں اس کی تلافی کرنا چاہیے یہاں تک کہ وہ اموال جو ایسی لغزش کا سبب بنے اسے اس راہ میں قربان کردینا چاہیے۔
آیت کے آخر میں ان لوگوں کو جو اِن دونوں میدانوں سے کامیابی کے نکل آئیںانھیں بشارت دی گئی ہے کہ پروردگار کے پاس اجر عظیم اور بہت بڑی جزا ہے (وَاٴَنَّ اللهَ عِنْدَہُ اٴَجْرٌ عَظِیمٌ)۔ اولاد کی محبت کتنی ہی عظیم دکھائی دے ار مال دولت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو پھر بھی الله کا اجر اور جزا ان سے برتر، عالی تر اور بزرگ تر ہے۔
یہاں کچھ سوالات سامنے آتے ہیں مثلاً یہ کہ اپنے علمی احاطے کے باوجود خداتعالیٰ لوگوں کو آزمائش کیوں کرتا ہے اور یہ کہ خدا کی آزمائش سب کے لئے کیوں ہے یہاں تک کہ انبیاء ومرسلین کے لئے بھی ہے، نیز یہ کہ خدائی آزمائش کے مواقع کون کون سے ہیں اور ان میں کامیابی کا طریقہ کیا ہے۔ ان سب سوالات کے جوابات تفسیر نمونہ جلد اول (۲۷۷ اُردوترجمہ) میں دیئے جاچکے ہیں۔

 

۲۹- یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا وَیُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ
ترجمہ
۲۹۔ اے ایمان لانے والو! اگر خدا کے حکم کی مخالفت سے ڈرو تو وہ تمھارے لئے حق اور باطل کو الگ الگ کردے گا (اور تمھیں ایسی روشن ضمیری عطا کرے گا جس کے ذریعے تم حق اور باطل میں تمیز کرسکو) اور تمھارے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا اور تمھیں بخش دے اور وہ عظیم فضل وبخشش کا مالک ہے۔

 


۱۔ نور الثقلین، ج۲، ص۱۴۳-
2-”خیانت“ کا مطلب یہ ہے کہ اس حق کی ادائیگی کا انسان نے ذمہ لیا ہو۔ یہ در اصل ”امانت“ کی ضد ہے۔

 

دعوت، زندگی کی طرفایمان اور روشن ضمیری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma