انتظار کا مفہوم

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
انتظار ظہور مہدی (ع) کے تربیت کنندہ اثراتدوسرا فلسفہ :اجتماعی کاوشیں

لفظ”انتظار“ ایسے شخص کی کیفیت پر بولا جاتا ہے جو موجودہ حالت سے پریشان ہو اور اس سے بہتر کیفیت کے ایجاد کرنے میں لگا ہو ، مثلا وہ بیمار جو صحت کے انتظار میں یا وہ باپ جو سفر پر گئے ہوئے بیٹے کے انتظار میں، بیمار بیماری پر پریشان اور دکھی ہوتا ہے اور باپ بیٹے کے فراق میں پریشان ہوتا ہے ، دونوں بہتر حالت کی کوشش میں ہوتے ہیں، اسی طرح وہ تاجر جو کاروبار کی بدحالی پر پریشان ہو اور اقتصادی بحران کے خاتمے کے انتظار میں ہو، ایسے تاجر کی دو ھالتیں ہوتی ہیں ایک موجودہ حالت پر پریشانی اور ناپسندیدگی اور دوسرا بہتر حالت کے لئے کوشش ۔
اس بنا پر حضرت مہدی(ع) کی عادلانہ حکومت اور عالمی مصلح کے قیام کا انتظار بھی دو عناصر کا مرکب ہے، ۱۔ ”نفی“ کا عنصر اور دوسرا”اثبات“ کا عنصر، منفی عنصر جوجودہ حالت کی نا پسندیدگی ہے اورمثبت عنصر بہتر اور اچھی حالت کی آرزو ہے ۔
اب اگر یہ دونوں پہلو روح انسانی میں اتر جائیں تو دو قسم کے وسیع اعمال کا سرچشمہ بن جائیں گے، ان دو قسم کے اعمال میں ایک طرف تو ظلم و فساد کے عوامل سے ہر طرح کا تعلق ترک کرنا ہے یہاں تک کہ ان سے مقابلہ اور جنگ کرنا ہے اور دوسری طرف خود سازی، اپنی مدد آپ اور عوام کی واحد عالمی حکومت کی تشکیل کے لئے جسمانی اور روحانی طور پر تیاری کرنا ہے، اور اگر ہم اچھی طرح غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس کے دونوں حصے اصلاح کن ، تربیت کنندہ اور تحرک، آگاہی اور بیداری کے عوامل ہیں ۔
”انتظار“ کے حقیقی اور اصلی مفہوم کی طرف توجہ کریں تو مندرجہ بالا متعددروایات میں جو انتظار کی جزا اور نتیجہ بتایا گیا ہے وہ اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور سمجھ آتا ہے کہ کس طرح حقیقی انتظار کرنے والے کبھی ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو مہدی (ع) کے کیمپ میں یا ان کے پرچم کے نیچے یا اس شخص کی طرح قرار پاتے ہیں جو راہ خدامیں تلوار چلائے یا جو اپنے خون میں غلطاں ہو اور یا جو شہید ہوجائے، کیا یہ حق و عدالت کی راہ کے مختلف مراحل اور مجاہدہ کے مخلتف درجات کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ جو مختلف لوگوں کو ان کی تیاری اور انتظار کے درجے کی مناسبت سے حاصل ہوتے ہیں، یعنی جس طرح راہ خدا کے مجاہدین کی فداکاری اور اس کے نتیجہ و اثر کے مختلف درجے ہوتے ہیں اسی طرح انتظار کے خودسازی اور آمادگی کے بھی بالکل مختلف درجے ہوتے ہیں”مقدمات“ اور نتائج کے لحاظ سے ان کی ایک دوسرے سے مشابہت ہوتی ہے دونوں جہاد ہیں، دونوں کے لئے تیاری اور خود سازی کی ضرورت ہے، جو شخص ایسی حکومت کے قائد کے کیمپ میں ہوں یعنی ایک عالمی حکومت کے فوجی مرکز میں ہو وہ ایک غافل اور جاہل شخص نہیں ہوسکتا اور نہ وہ لاابالی پن کا مظاہرہ کرسکتا ہے، ایسے مرکز میں ہرکوئی نہیں آسکتا، یہ جگہ تو ان افراد کے لئے ہے جو حقیقتاً اس حیثیت، مقام اور اہمیت کی لیاقت اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔
اسی طرح جس شخص کے ہاتھ میں ہتھیار ہو اور وہ اس قائد انقلاب کے سامنے اس کی صلح و آشتی اور عادلانہ حکومت کے مخالفین سے جنگ کرے تو اس میں روحانی اور فکری جنگی لحاظ سے پوری آمادگی اور تیاری ہونا چاہئے ۔
ظہور مہدی(ع) کے انتظار کے حقیقی اثرات سے مزید آگاہی کے لئے حسب ذیل وضاحت کی طرف توجہ کریں:
انتظار۔ یعنی بھرپور تیاری میں اگر ظالم اور ستمگر ہوں تو کیسے ممکن ہے اس شخص کا انتظار کروں کہ جس کی تلوار ستمگروں کے خون سے سیراب ہوگی، میں اگر گناہ آلود اور ناپاک ہوں تو میں کیوں کر ایسا انقلاب کا منتظر ہوں گا جس کا پہلا شعلہ ناپاک لوگوں کے دامن کو لپکے گا، وہ لشکر جو ایک عظیم جہاد کے انتظار میں ہے وہ اپنے سپاہیوں کی جنگی تربیت کو آخری حد تک پہنچائے گا اوران میںانقلاب کی روح پھونک دے گا اور کمزوری کے ہر نقطے کی اصلاح کرے گا ۔
کیوں کہانتظار کی کیفیت ہمیشہ اس ہدف اور مقصد کے مطابق ہوتی ہے جس کے ہم انتظار میں ہوتے ہیں ۔
ایک عام مسافر کے آنے کا انتظار ۔
ایک بہت ہی عزیز دوست کے لوٹ آنے کا انتظار۔
درخت سے پھلوں کے اتارنے کے موسم کا انتظار۔
فصل کی کٹائی کے سمے کا انتظار۔
ان میں سے ہر انتظار میں ایک طرح کی آمادہ گی اور تیاری شامل ہوتی ہے ۔
مہمان کے لئے گھر کو تیار کرنا پڑتا ہے، اس کی پذیرائی اور خدمت کے ذرائع مہیا کرنا پڑتے ہیں ۔
پھل اتارنے اور فصل کاٹنے کے لئے ضروری سازوسامان، درانتی اور متعلقہ مشین وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جو فراہم کرنا پڑتی ہے ۔
اب غور کریں کہ وہ جو ایک عظیم عالمی مصلح کے قیام کا انتظار کررہے ہیں وہ درحقیقت صورت حال کو یکسر پلٹ دینے والے انقلاب اور ایک تحول کا انتظار کررہے ہیں کہ جو پوری انسانی تاریخ میں سب سے بڑا اور سب سے بنیادی انسانی انقلاب ہوگا ۔
وہ انقلاب کہ جو گذشتہ انقلابوں کے برعکس علاقائی نہیں ہوگا بلکہ ہمہ گیر اور سب کے لئے ہوگا اور انسانی زندگی کے تمام پہلوو-ں پر محیط ہوگا ۔
وہ انقلاب سیاسی ، ثقافتی، اقتصادی اور اخلاقی ہر حوالے سے انقلاب ہوگا ۔
پہلا فلسفہ: انسان سازی اس قسم کا تحول ہر چیز سے پہلے آمادہ اور تیار عنصر کا محتاج اور انسانی قدروقیمت کا حامل ہے، اسے ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو پوری دنیام ین وسیع اصلاحات کابھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں ۔
پہلی منزل میں اس عظیم پروگرام کو عملی شکل دینے میں تعاون کرنے کی فکر اور آگاہی کی سطح بلند کرنے کی ضرورت ہے اور روحانی فکری آمادگی کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
تنگ نظری، کوتاہ بینی، کج فکری، حسد،بچگانہ اور غیر عقلانہ اختلافات اور ہر قسم کا نفاق و انتشار حقیقی انتظار کرنے والوں کے شایان شان نہیں ۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ حقیقی انتظار کرنے والا اس قسم کے اہم پروگرام کا فقط تماشائی ہرگز نہیں ہوسکتا، اسے چاہئے کہ وہ ابھی سے حتمی طور پر انقلابیوں کی صف میں شامل ہوجائے، اس انقلاب کے نتائج پر ایمان اسے ہر گزاجازت نہیں دیتا کہ وہ مخالفین کی صف میں کھڑا ہو، دوسری طرف موافقین کی صف میں کھڑا ہونے کے لئے بھی پاک اعمال، پاکہزہ روح، کافی دلیری اور آگاہی کی ضرورت ہے ۔
میں اگر فاسد، خراب اور نادرست ہوں تو ایسے نظام کے ایام کو کیسے یاد کرسکتا ہوںجس میں فاسد، خراب اور نادرست افراد کی کوئی حیثیت نہ ہوگی بلکہ وہ تو اس میں ٹھکرا دئےے جائیں گے اور قابل نفرت ہوں گے ۔
کیا یہ انتظار فکر وروح اور جسم وجان کی پاکیزگی کے لئے کافی نہیں ۔
وہ لشکر جو آزادی بخش جہاد کے انتظار میں وقت گزار رہاہے یقینا مکمل طور پر آمادہ اور تیار ہوگا، وہ ہتھیار جو ایسے میدان جنگ کے لئے مناسب اور ضروری ہے اسے مہیا رکھے گا، ایسا لشکر ضرور مورچہ بند رہے گا، اپنے افراد کی تیاریوں میں اضافہ کرتا رہے گا اور اپنے فوجیوں کے دلوں کو مضبوط کرے گا اور ایسے جہاد اور مقابلے کے لئے اپنے ہر سپاہی کے دل میں عشق اور شوق زندہ رکھے گا، جو لشکر اس طرح سے تیار نہ ہو وہ کبھی منتظر نہیں رہ سکتااور اگر تیار رہنے کا دعویٰ کرے توجھوٹ ہے ۔
ایک عالمی مصلح اور مربی کا انتظار تمام جہانوں کی مکمل فکری، اخلاقی، مادی اور روحانی اصلاح کی آمادگی کا مفہوم رکھتا ہے، اب آپ سوچئے کہ ایسی آمادگی اور انتظار کس قدر انسان ساز اور تربیت کنندہ ہے ۔
تمام روئے زمین کے اصلاح اور تمام مظالم اور خرابیوں کا خاتمہ کوئی مزاق نہیں اور نہ یہ کوئی آسان کام ہے، ایسے عظیم مقصد کی تیاری اس کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے، یعنی تیاری بھی اس پروگرام کی گہرائی اور گیرائی کے مطابق ہوناچاہے، ایسے انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لئے عظیم مصمم اردوں والے، بہت قوی اور شکت ناپذیر، انتہائی باز، بلند نظر، پوری طرح تیار اور گہری نگاہ رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے ۔
ایسے مقصد کے لئے خودسازی اور اپنی عمیق ترین تربیت کی ضرورت ہے، ایسے ہدف کے لئے بہت سے اخلاقی، فکری اور اجتماعی منصبوں پر عمل درآمدانہ گزیر ہے ۔
یہ ہے حقیقی انتظار کا مفہوم تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار انسان ساز اور اصلاح کنندہ نہیں ہے؟

 

انتظار ظہور مہدی (ع) کے تربیت کنندہ اثراتدوسرا فلسفہ :اجتماعی کاوشیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma