۶۔ ایک حقیقت جسے چھپانے کی کوشش ہوتی ہے:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
۵۔سورہ کی فضیلت اور تعمیری اثرات: توضیح اور تحقیق

تقریباً تمام مفسِّرین اورموٴرّخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب یہ سورت ابتدائی آیات کے ساتھ تازل ہوئی اور اس میں ان معاہدوں کو لغو قرار دیا گیا ہے جو مشرکین نے رسول الله سے کررکھے تھے تو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس فرمان کی تبلیغ کے لئے یہ سورة حضرت ابوبکر کو دی تاکہ وہ حج کے موقع پر مکہ جاکر عوام کے سامنے پڑھیں، بعدازان یہ سورة آپ نے اُن سے لے کر حضرت علی علیہ السلام کو دے دی اور حضرت علی علیہ السلام اس تبلیغ پر مامور ہوئے اور انھوں نے مراسمِ حج تمام لوگوں کے سامنے ابلاغِ رسالت کی ۔
اس واقعہ کی اگرچہ مختلف جزئیات اور شاخیں بیان کی گئی ہیں لیکن اگر ہم ذیل کے چند نکات کی طرف توجہ کریں تو ہم حقیقت واضح ہوجائے گی:
۱۔ احمد بن حنبل کی روایت:
اہل سنت کے مشہور امام احمد بن حنبل اپنی کتاب ”مسند “میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں:
رسول الله نے فلاں شخص (مراد حضرت ابوبکر ہیں جیسا کہ آئندہ روایات میں واضح ہوگا) کو بھیجا اور اسے سورہٴ توبہ دی (تاکہ حج کے موقع پر وہ اسے لوگوں تک پہنچائے) پھر علی(ع) کو اس کے پیچھے بھیجا اور وہ سورہ اس سے لے لی اور فرمایا:
’لاتذھب بھا اللا رجل منّی واٴنا منہ“
اس سورہ کی تبلیغ صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔(۱)
۲۔ احمد بن حنبل کی ایک اور روایت:
اسی کتاب میں انس بن مالک سے منقول ہے:
رسول الله نے ابوبکر کو سورہٴ برائت کے ساتھ بھیجا لیکن جب وہ ”ذی الحلیفہ“ (جس کا دوسرا نام مسجد شجرہ ہے جو مدینہ سے ایک فرسخ پر واقع ہے) پہنچے تو فرمایا:
”لاتبلغھا الا اٴنا اٴو رجل اھل بیتی فبعث بھا مع علی“
اس سورہ کا ابلاغ سوائے میرے یا اس شخص کے جو میرے اہلِ بیت میں سے ہو کوئی نہیں کرسکتا، پھر آپ نے وہ سورہ علیٰ کو دے کر بھیجا ۔(۲)
۳۔ ایک مزید روایت:
اسی کتاب میں ایک اور سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ جب رسول الله نے سورہٴ برائت ان کے ساتھ بھیجی تو آپ نے عرض کیا: میں خطیب نہیں ہوں ۔
سول الله نے فرمایا: اس کے بغیر چارہ نہیں کہ میں اسے لے کر جاوٴں یا تم۔
حضرت علی علیہ السلام نے کہا: جب معاملہ اس طرح ہے تو پھر میں لے کر جاتا ہوں ۔
اس پر رسول الله نے فرمایا:
”انطلق فانّ الله یثبت لسانک ویھدی قلبک“
جاوٴخدا تمھاری زبان کو ثابت رکھے گا اور دل کو ہدایت کرے گا ۔
پھر رسول الله نے اپنا ہاتھ علی(ع) کے منھ پر رکھا (تاکہ اس کی برکت سے ان کی زبان گویا اور فصیح ہو)(3)
۴۔ خصائص نسائی کی روایت:
اہل سنت کے مشہور امام نسائی اپنی کتاب ”خصائص“ میں زید بن سبیعسے ایک روایت نقل کرتے ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
رسول الله نے سورہٴ برائت ابوبکر کے سے ساتھ اہلِ مکہ کی طرف بھیجی پھر انھیں (حضرت علی(ع)) اُن کے پیچھے بھیجا اور کہا: ا س سے خط لے لو، علی(ع) نے راستے میں ابوبکر کو جالیا اور ان سے خط لے لیا، ابوبکر محزون ومغموم واپس ہوئے اور پیغمبر سے عرض کی: ”اٴنزل فیّ شیء“ (کیا میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے کہ آپ نے مجھے معزول کردیا ہے؟)
رسول الله نے فرمایا: نہیں اور مزید فرمایاکہ:
”الآ انّیٰ امرت اٴن اٴبلغہ اٴنا اٴو رجل من اٴھل بیتی“
(مگر یہ کہ مجھے مامور کیا گیا ہے کہ میں خود تبلیغ کروں یا میرے اہل بیت میں سے کوئی مرد تبلیغ کرے ۔(4)
۵۔ نسائی کی ایک اور روایت:
نسائی نے خصائص میں اور سند کے ساتھ عبدالله بن ارقم سے یوں نقل کیا ہے:
رسول الله نے سورہٴ برائت حضرت ابوبکر کے ساتھ بھیجی جب وہ کچھ راستہ طے کرچکا تو علی(ع) کو بھیجا اور انھوں نے ابوبکر سے سورت لے لی اور اسے اپنے ساتھ (مکہ کی طرف) لے گئے اورابوبکر نے اپنے دل میں ایک طرح کی پریشانی محسوس کی (اور خدمتِ پیغمبر میں پہنچے تو) رسول الله نے فرمایا:
لاوٴدّی عنّی الّا اٴنا ورجلٌ منّی“(5)
۶۔ ابک کثیر کی روایت:
مشہور عالم ابن کثیر اپنی تفسیر میں احمد بن حنبل سے اور وہ حنش سے اور وہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:
جس وقت سورہٴ برائت کی دس آیات رسو ل الله پر نازل ہوئیں تو آپ نے ابوبکر کو بلایا اور انھیں آیات کی تلاوت کے لئے اہلِ مکہ کی طرف بھیجا، پھر آپ نے کسی کو بھیج کومجھے بلوایا اور فرمایا ابوبکر کے پیچھے جاوٴ اور جہاں کہیں بھی اس سے جا ملو اس سے خط لے لو---- ابوبکر، پیغمبر کی طرف آئے اور پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے؟ پیغمبر نے فرمایا: نہیں ”ولٰکن جبرئیل جائنی فقال لن یوٴدی الّا اٴنت اٴو رجل منک“ (لیکن جبرئیل میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے کہا ہے کہ یہ ذمہ داری آپ )یا وہ مرد جو آپ سے ہے کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرسکتا) ۔(7)
۷۔ ابن کثیر کی ایک اور روایت:
بعینہ یہی مضمون ابن کثیر نے زید بن یسیغ سے بھی نقل کیا ہے ۔(8)
۸۔ ایک روایت مزید:
اہلِ سنت کے اسی عالم (ابن کثیر) ہی نے اس حدیث کو دوسری سند سے حضرت ابوجعفر محمد(ع) بن علی(ع) بن حسین(ع) بن علی(ع) (امام باقر(ع)) سے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ۔(9)
۹۔ علامہ ابن اثیر کی روایت:
اہلِ سنت کے ایک اور عالم علامہ ابن اثیر نے ”جامع الاصول“ میں ترمذی کی وساطت سے انس بن مالک سے نقل کیا ہے:
رسول الله نے سورہٴ برائت ابوبکر کے ساتھ روانہ کی، پھر انھیں بلایا اور فرمایا:
”لاینبغی لاٴحدٍ اٴن یبلغ ھٰذہ الّا رجل من اھلی، فدعا علیّاً فاٴعطاہ ایّاہ“
کسی کے لئے مناسب نہیں کہ اس سورہ کی تبلیغ کرے مگر وہ شخص جو میر ے اہل بیت میں سے ہو۔
۱۰۔ محب الدین طبری کی روایت:
اہل سنّت کے عالم محب الدین طبری اپنی کتاب ”ذخائر العقبیٰ“ میں ابو سعید یا ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں:
رسول الله نے ابوبکر کو امر حج کی نظارت پر مامور کیا، جس وقت وہ ضجنان کے مقام پر پہنچے تو علی(ع) کے اونٹ کی آواز سنی اور انھیں پہچان لیا اور سمجھ لیا کہ وہ انہی کی تلاش میں آئے ہیں اور کہا کہ آپ کس لئے آئے ہیں؟ انھوں نے کہا: خیریت ہے، رسول الله نے سورہٴ برائت کو میرے ساتھ بھیجا ہے، اس وقت ابوبکر واپس آگئے (اور پیغام رسانی کی اس تبدیلی کا اظہار کیا) تو رسول الله نے فرمایا:
”لایبلغ عنّی غیری اٴو رجل منّی یعنی علیّاً“
میری طرف سے میرے علاوہ کوئی تبلیغ نہیں کرسکتا مگر وہ شخص جو مجھ سے ہے آپ کی مراد علی(ع) تھے ۔(10)
دوسری روایت میں تصریح ہوئی ہے کہ رسول الله نے اپنا اونٹ حضرت علی علیہ السلام کو دیا تاکہ اس پر سوار ہوکر آپ مکہ جائیں اور اس دعوت کی تبلیغ کریں، اثنائے راہ میں جب ابوبکر نے اونٹ کی سنی تو پہچان لیا ۔
یہ روایات اور مندرجہ بالا حدیث در اصل ایک ہی مطلب پیش کرتی ہیں اور وہ یہ کہ اونٹ خود پیغمبر اکر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کا تھا جو اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام کو دیا گیا تھا کیونکہ ان کی ذمہ داری نہایت اہم تھی ۔
اہل سنت کی دوسری بہت سی کتب میں یہ حدیث بعض اوقات مسند اور گاہے مرسل نقل ہوئی ہے، اور یہ ایسی حدیث ہے جس کی اصل میں کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔
بعض روایات کے مطابق جو طرق اہل سنت سے وارد ہوئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر جب ان آیات کی تبلیغ کے منصب سے معزول ہوئے تو ”امیر لحاج “ کی حیثیت سے مکہ آئے اور وہ حج کے معاملے پر نگران تھے ۔

 


۱۔ مسند احمد ، ج۱، ص۲۳۱، طبع مصر-
۲۔ مسند احمد ، ج۳، ص۲۱۲، طبع مصر-
3۔ مسند احمد بن جنل، ج۱، ص۱۵۰-
4۔ خصائص نسائی، ص۲۸-
5۔ خصائص نسائی، ص۲۸-
6۔ تفسیر ابن کثیر ج۲، ص۳۲۲-
7۔ تفسیر ابن کثیر ج۲، ص۳۲۲-
8۔ تفسیر ابن کثیر ج۲، ص۳۲۲-
9۔ جامع الاصول، ج۹، ص۴۷۵-
10۔ ذخائر العقبیٰ، ص۶۹-
 
۵۔سورہ کی فضیلت اور تعمیری اثرات: توضیح اور تحقیق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma