ایمان اور روشن ضمیری

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
شان نزولشان نزول

گذشتہ آیات میں ایسے حیات بخش احکام بیان ہوئے جو مادی اور روحانی سعادت کے ضامن ہیں لیکن ان پر تقویٰ اور پرہیزگاری کے بغیر عمل نہیں ہوسکتا لہٰذا اس آیت میں انسانی کردار میں تقویٰ اور اس کے آثار کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ اس آیت میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے چار نتائج بین گئے ہیں۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان لانے والو! اگر تقویٰ اختیار کرو اور حکم خدا کی مخالفت سے پرہیز کرو تو وہ تمھیں ایک خاص نورانیت اور روشن ضمیری بخشے گا جس سے تم حق اور باطل کے درمیان اچھی طرح سے امتیاز کرسکوگے۔ (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا)۔
”فرقان“ ”فرق“ کے مادّہ سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہاں ایک ایسی چیزو کے معنی میں جو حق کو باطل سے اچھی طرح جدا کرے۔
یہ مختصر اور پُر معنی لفظ انسان کے لئے ایک اہم ترین حیات ساز مسئلہ بیان کرتا ہے اور وہ یہ کہ جس راستے میں انسان کامیابیوں کی طرف جاتا ہے ہمیشہ پھسلنے کے مقاات آتے ہیں اور بے راہ ورویاں موجود ہوتی ہیں اور اگر انھیں اچھی طرح نہ دیکھے اور نہ پہچانے اور ان سے پرہیز نہ کرے تواس طرح کرے گا کہ اس کانام ونشان تک باقی نہیں رہے گا۔ اس راستے میں اہم ترین مسئلہ حق وباطل، نیک وبد، دوست ودشمن، مفید ونقصان دہ عوامل اور سعادت وبدبختی کی شناخت ہے اگر واقعاً انسان ان حقائق کو اچھی طرح پہنچان لے تو اس کے مقصد تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔
مشکل یہ ہے کہ ایسے بہت سے مواقع پر انسان اشتباہ میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ باطل کو حق، دشمن کو دوست اور بے راہ روی کو شاہراہ سمجھنے لگ جاتا ہے۔
ایسے مواقع پر تیز نظر، قوی ادراک اور بہت زیادہ نورانیت اور روشن بینی درکار ہے۔ زیر نظر آیت کہتی ہے کہ یہ نگاہ اور ادراک تقویٰ کے درخت کا ثمر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح تقویٰ اختیار کرنے سے اور گناہ وسرکشی سے پرہیز کرنے سے انسان میں ایسی نظر اور ادراک پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ بات شاید بعض لوگوں کے لئے مبہم اور غیر واضح ہو لیکن اگر کچھ دقّت نظر سے کام لیا جائے تو ان دونوں باتوں کے درمیان موجود رشتہ واضح ہوجاتا ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے تو انسانی قوت عاقلہ کے ادراک کے لئے کافی حد تک آماد ہ ہے لیکن حریص، طمع، شہوت، خود پرستی، حسد اور مال، بیوی، اولاد جاہ وحشمت اور مقام ومنصب سے عشق کے پردے سیاہ دھوئیں کی طرح عقل کی آنکھوں پر پڑجاتے ہیں، یا گاڑھے گردو وغبار کی طرح اردگرد کی فضا کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے تاریک ماحول میں انسان حق وباطل کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا لیکن اگر تقویٰ کے پانی سے اس غبار کو دھوڈالا جائے اور درمیان سے یہ سیاہ اور تاریک دھواں خم ہوجائے تو حق کے چہرے کو دیکھنا آسان ہوجائے۔ بقول شاعر:
جمالِ یار ندارد حجاب وپردہ دلی
غبارہ رہ بنشان تا نظر توانی کرد
ترجمہ: یعنی حسنِ یار تو حجاب اور میں نہیں ہے لیکن
ایک اور شاعر نے کہا ہے:
حقیقت سرائی است آراستہ
ہوی وہوس گردبرخاستہ
نبینی کہ ہر جا کہ برخاست گرد
نبیند نظر گرچہ بیناست مرد!
ترجمہ: کیا تو نہیں دیکھتا کہ جہاں گرد پڑی ہو وہاں آنکھ نہیں دیکھتی اگرچہ دیکھنے والا شخص بینا ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ جانتے ہیں کہ ہر کمال جہاں بھی ہے وہ کمالِ حق کا پرتُو ہے اور انسان جس قدر خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے اس کمال مطلق کا زیادہ طاقتور پرتُو اس کے وجود پر پڑتا ہے۔ اس حساب سے تمام علوم وفنون کا سرچشمہ اس کا علم ہے اور جب بھی انسان تقویٰ کے ذریعے اور گناہ اور ہو وہوس سے پرہیز کرکے اس سے زیادہ نزدیک ہو اور اپنے وجود کے قطرے کو اس کے وجود ہستی کے بے کنار سمندر سے ملادے تو اس کے علم ودانش سے بہت کچھ پالے گا۔
دوسرے لفظوں میں انسان کا دل آئینے کی طرح ہے اور پروردگار کا وجود ہستی آفتاب عالمتاب کی طرح ہے۔ اب اگر اس آئینے کو ہو وہوس کا زنگ تاریک کردے تواس میں نور کا انعکاس نہیں ہوگا لیکن اگر اسے تقویٰ وپرہیزگاری کے پانی سے صِقل کردیا جائے اور زنگ اتار دیا جائے تو اس آفتاب پرفروغ کا خیرہ کرنے والا نور اس میں منعکس ہوگا اور وہ ہر طرف روشن کردے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم پوری تاریخ میں پرہزگار مردوں اور عورتوں کے حالات میں روشن ضمیری اور روشن بینی کے ایسے واقعات دیکھتے ہیں جو علم ودانش کے عام طریق سے ہرگز قابلِ اراک نہیں ہیں۔
وہ بہت سے ایسے حادثات کی بنیاد کو اچھی طرح سے پہچانتے تھے جنھیں اجتماعی مصائب وآلام اور شور وغوغا میں نہیں پہچانا جاسکتا اوروہ دشمنانِ حق کے قابلِ نفرت چہروں کو ہزاروں پُرفریب پردوں کے پیچھے دیکھ لیتے تھے انسانوں کی شناخت، معرفت، ادراک اور بصیرت پر تقویٰ کا عجیب اثر بہت سی روایات میں بیان ہوا ہے اور دیگر آیات میں بھی اس کی تاثیر بیان کی گئی ہے۔
سورہٴ بقرہ آیت۲۸۲ میں ہے:
<وَاتَّقُوا اللهَ وَیُعَلِّمُکُمْ اللهُ
تقویٰ اختیار کرو اور اللهتمھیں تعلیم دے گا۔
ایک مشہور حدیث میں ہے:
”الموٴمن ینظر بنور الله“
صاحب ایمان انسان الله کے نور سے دیکھتا ہے۔
نہج الباغہ کے کلمات قصار میں ہے:
”اکثر مصارع العقوق تحت بروق المطامع“
زیادہ تر عقلوں کو لالچ کی چمک دمک پچھاڑدیتی ہے اور حرص وطمع عقل کی آنکھ کو بیکار کردیتی ہے اور پھر لوگ گرنے اور پھسلنے کی جگہ کو نہیں دیکھ پاتے۔
تیسری بات یہ ہے عقلی تجزیہ وتحلیل کے لحاظ سے بھی تقویٰ اور ادراک کے درمیان تعلق قابلِ فہم ہے۔ مثلاً وہ معاشرے جو ہوا وہوس کے محور پر گردش کرتے ہیں اور ان کے نشر واشاعت کے ادارے اسی ہوا وہوس کی ترویج کے لئے کردار ادا کرتے ہیں، اخبارات برائیوں اور خرابیوں کو رواج دیتے ہیں،, ریڈیو سے آلودگی اور انحرافات کی آواز بلند ہوتی ہے اور ٹیلیویژن بھی ہوا وہوس کی خدمت کرتے ہیں، واضح ہے کہ ایسے معاشرے میں ق وباطل میں اچھائی اور برائی میں تمیز اکثر لوگوں کےلئے بہت ہی مشکل ہے۔ لہٰذا تقویٰ کا فقدان عدمِ تشخیص یا غلط تشخیص کا سرچشمہ ہے۔ یا مثلاً وہ گھرانہ جو تقویٰ سے مرحوم ہے اور اس کے بچّے گندے ماحول میں پرورش پارہے ہیں اور بچپن ہی سے برائی اور بے لگام آزادی کے خوگر ہوچکے ہیں آئندہ جب بڑے ہوںگے تو اچھائی اور برائی میں تمیز ان کے لئے مشکل ہوجائے گی۔
اصولی طور پر اگر یہ صلاحتیں اور قُویٰ بیکار ہوجائیں اور سرمایہ راہِ گناہ میں رائیگاں ہوجائے تو لوگ شعور ادراک کے لحاظسے پست ہوجائیں اور پست افکار کے حامل ہوںگے، چاہے وہ صنعتی اور مادی لحاظ سے ترقی کرجائیں۔
لہٰذا اچھی طرح دیکھتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو تقویٰ کے خلاف ہے ایک طرح کی بے خبری، عدم آگاہی یا غلط تشخیص کا سرچشمہ ہے۔ لہٰذا آج کی اس مشینی دنیا میں ایسے معاشرے موجود جو علم وصنعت کے لحاظ سے بہت آگے پہنچ گئے ہیں لیکن اپنی روز مرّہ کی زندگی میں ایسی وحشتناک بے سروسامانی اور تضادات کا شکار ہیں جو انسان کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ سب امور قرآن کی اس بات کی عظمت کو واضح کردیتے ہیں۔
اس طرح توجہ کرتے ہوئے کہ تقویٰ صرف عقلی عملی تقویٰ میں منحصر نہیں ہے بلکہ فکری اور عقلی تقویٰ بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے تو حقیقت زیادہ واضح تر ہوجاتی ہے، بے لگام فکری آزادی کے مقابلے میں فکری تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ ہم اپنے مطاعلات میں صحیح مدارک اور حقیقی مطالب تلاش کریں، کافی تحقیق اور ضروری غور وخوض کے بغیر کسی مسئلے کے بارے میں نظریے اور عقیدے کا اظہار نہ کریں، جولوگ فکری تقویٰ کوبروئے کار لاتے ہیں بیشک وہ بڑی آسانی سے بے لگام لوگوں کی نسبت صحیح نتائج پہنچ جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو انتخابِ مدارک اور طرزِ استدلال میں بے اصول ہیں ان سے بے حساب غلطیاں اور اشتباہات ہوتے ہیں۔
باقی رہی وہ اہم بات جس کی طرف یقیناً سنجیدگی سے توجہ کرنا چاہیے اور وہ یہ کہ اسلام کے دیگر اصلاحی اور انسان ساز پروگراموںکی طرح ”تقویٰ“ بھی ہم مسلمانوں کے ہاتھوں تحریف وتغیّر کا شکار ہے، بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صاحبِ تقویٰ انسان وہ ہے جو اپنا بدن اور لباس زیادہ دھوتا ہے، تمام لوگوں اور تمام چیزوں کونجس یا مشکوک سمجھے، اجتماعی اور معاشرتی مسائل سے کنارہ کش ہو، کسی سیاہ وسفید کو ہاتھ نہ لگائے اور ہر معاملے میں خاموش رہے۔ پرہیزگاری اور تقویٰ کی ایسی غلط تفسیریں در حقیقت اسلامی معاشروں کے انحطاط کے عوامل میں سے ہیں، اس قسم کا تقویٰ آگاہی پیدا کرتا ہے نہ روشن ضمیری اور نہ حق وباطل کے درمیان تمیز عطا کرتا ہے۔
اب جبکہ پرہیزگاروں کی پہلی جزا کی وضاحت ہوچکی ہے ہم آیت کے اگلے حصّہ کی تفسیر اور باقی چار جزاوٴں کو بیان کرتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے حق وباطل میں امیتاز کے علاوہ پرہیزگاری کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ ”خدا تمھارے گناہ چھپائے گا اور ان کے آثار تمھارے وجود سے ختم کردے گا (وَیُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ)۔ علاوہ ازیں اپنی بخشش بھی تمھارے شامل حال کرے گا (وَیَغْفِرْ لَکُمْ)۔اور یہ بہت سی جزائیں اور عنایات تمھارے انتظار میں ہیں جنھیں خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ خدا بہت زیادہ فضل وبخشش رکھتا ہے(وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ)۔
یہ چار اثرات تقویٰ وپرہیزگاری کے درخت کا ثمر ہیں، تقویٰ اور ان آثار میں بعض کے درمیان فطری اور طبیعی ربط اس سے مانع نہیں کہ ہم ان سب کی نسبت خدا کی طرف دے دیں کیونکہ ہم اس تفسیر میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہر موجود ہر اثر خدا کی مشیّت اور ارادے سے ہے لہٰذا اس اثر کی نسبت خدا کی طرف دی بھی جاسکتی ہے اور اس موجود کی طرف بھی۔
یہ کہ ”تکفیر سیئات“ اور ”غفران“ میں کیا فرق ہے، اس سلسلے میں مفسّرین کا نظریہ ہے کہ پہلا دنیا میں پردہ پوشی کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا آخرت کی سزا سے نجات حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے، لیکن ایک اور احتمال بھی کہ ”تکفیر سیئات“ گناہوں کے نفسیاتی اور اجتماعی آثار کی طرف اشارہ جو تقویٰ کے ذریعے ختم ہوجاتے ہیں۔ لیکن ”غفران“ خدا کی بخشش اور سزا سے نجات کی طرف اشارہ ہے۔

۳۰- وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ اٴَوْ یَقْتُلُوکَ اٴَوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللهُ وَاللهُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ
ترجمہ
۳۰۔ وہ وقت (یاد کرو) جب کافر سازش کررہے تھے کہ تجھے قید کرلیں یا قتل کردیں اور یا (مکہ سے) نکال دیں اور سوچ بچار کررہے تھے (اور پروگرام بنارہے تھے) اور خدا بھی تدبیر کررہا تھا اور خدا بہترین چارہ جو (اور مدبّر) ہے۔

شان نزولشان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma