لازمی جنگ بندی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
ارتکاز دولت کی سزاشان نزول

سورہ میں چونکہ مشرکین سے جنگ کے بارے میں تفصیلی مباحث آئی ہیں لہٰذا زیر نظر دو آیات میں بحث کے دوران جنگ اور اسلامی جہاد کے ایک اور قانون کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور وہ حرام مہینوں کے احترام کا قانون ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : خدا کے ہاں کتاب خلقت میں اس دن سے جب اس نے آسمان اور زمین پیدا کئے مہینوں کی تعداد بارہ ہے( إِنَّ عِدَّةَ الشُّھُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِی کِتَابِ اللهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ)
”کتاب اللّٰہ“کی تعبیر ہوسکتا ہے قرآن مجید یا دیگر آسمانی کتب کی طرف اشارہ ہو لیکن ”ِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض“ کی طرف توجہ کرتے ہوئے زیادہ موزوں یہی لگتا ہے کہ یہ کتاب آفرینش اور کتاب جہان ہستی کی طرف اشارہ ہو، بہرحال جس دن سے نظام شمسی نے موجودہ اختیار کی ہے سال اور مہینے موجود ہیں، سال عبارت ہے سورج کے گرد زمین کے ایک مکمل دورے سے اور مہینہ عبارت ہے کرہ ماہتاب کے زمین کے گرد ایک مکمل دورے سے اور ہر سال کرہ آفتاب کے ایسے ۱۲، دورے ہوتے ہیں ۔
یہ در حقیقت ایک قیمتی طبیعی اور ناقابل تغیر تقویم ہے کہ جو تمام انسانوں کی زندگی کو ایک طبیعی نظام بخشی ہے اور ان کے تاریخی حسابات کو بڑے اچھے طریقے سے منظم کرتی ہے اور یہ نوع انسانی کے لئے خدا کی ایک عظیم نعمت شمار ہوتی ہے جیسا سورہ بقرہ کی آیہ۸۹کے ذیل میں تفصیل سے بحث ہوچکی ہے، آیت یوں ہے:
یسئلونک عن الاھلة قل ھی مواقیت للناس والحج
اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے :”ان بارہ مہینوں میں سے چار حرام ہیں“ کہ جن میں ہر قسم کی جنگ وجدال حرام ہے(منھا اربعة حرم)
بعض مفسرین کے مطابق ان چار مہینوں میں جنگ کی حرمت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے دور سے ہے اور یہ حرمت زمانہ جاہلیت کے عربوں میں بھی پوری قوت سے ایک سنت کے طور پر موجود تھی اگرچہ میلانات اور ہواوہوس کے مطابق کبھی کبھی وہ ان مہینوں کو آگے پیچھے کرلیتے تھے لیکن اسلام میں یہ ماہ غیر متغیر ہیں، ان میں تین مہینے یکے بعد دیگر ہیں اور وہ ہیں ذاالقعدة، ذی الحجة اور محرم ۔ ایک ماہ الگ اور وہ رجب ہے، اربوں میں اصلاح میں تین ماہ ”سرد“(یکے بعد دیگرے)اور ایک ماہ”فرد“(اکیلا)ہے ۔
اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ ان مہینوں میں جنگ کی اس صورت میں سے جب جنگ دشمن کی طرف ٹھونسی ہوئی نہ ہو ورنہ اس میںشک نہیں کہ دوسری صورت میں مسلمانوں کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے رہنا چاہیے کیوں کہ اس صورت میں ماہ حرام کی حرمت مسلمانوں کی طرف سے زائل نہیں کی گئی بلکہ اسے دشمن کی طرف سے توڑا گیا ہے(جیسا کہ اس کی تفصیل سورہ بقرہ کی آیہ ۱۹۴ میں گزرچکی ہے) ۔
اس کے بعد تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے یہ دین وآئین ثابت، قائم و دائم اور ناقابل تغیر ہے ناکہ غلط وسم جو عربوں میںتھی وہ پائیددار ہے کہ وہ اپنی خواہش اور ہوا وہوس سے اسے آگے پیچھے کردیتے تھے(ذٰلِکَ الدِّینُ الْقَیّم) ۔
چند ایک روایات (۱)سے معلوم ہوتا ہے کہ چار ماہ جنگ کی یہ حرمت دین ابراہیمی کے علاوہ یہود ونصاریٰ اور باقی آسمانی ادیان میںبھی تھی اور ”ذٰلِکَ الدِّینُ الْقَیّم“)ہوسکتا ہے اس نکتے کی طرف بھی اشارہ ہو یعنی پہلے سے ایک قانون مستقل اور ثابت طور پر موجود تھا ۔
اس کے بعد کہا گیا ہے: ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم روا نہ رکھو اور ان کا احترام زائل نہ کرو اور اپنے تئیں دنیا کی سزاؤں اور آخرت کے عذابوں میں مبتلا نہ کرو(فَلَاتَظْلِمُوا فِیھِنَّ اٴَنْفُسَکُمْ ) ۔
لیکن چونکہ ادھر ممکن ہے کہ ان چار مہینوں میں حرمت جہاد دشمن کے لئے فائدہ اٹھانے کا سبب بنے اور اسے مسلمانوں پر حملے کرنے پر ابھارے لہٰذا اگلے جملے میں مزید فرمایا گیا ہے:مشرکین کے ساتھ سب مل کر جنگ کرو جیسا کہ وہ سب اکٹھے ہوکر تم سے جنگ کرتے ہیں(وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّةً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَافَّةً )، یعنی باوجودیکہ وہ مشرک ہیں اور شرک وبت پرستی اختلاف و انتشار کا سرچشمہ ہے لیکن وہ ایک ہی صف میں تم سے جنگ کرتے ہیں اور تم موحد یکتا پرست ہو اور توحید ،دین، اتحاد و یک جہتی ہے لہٰذا تم زیادہ حق رکھتے ہو کہ دشمن کے مقابلے میں وحدت کلمہ کی حفاظت کرو اور ایک ہی آہنی دیوار کی طرح دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوجاؤ۔
آخر میں ارشاد ہوتا ہے: اور جا ن لو کہ اگر پرہیزگار بنوگے اور تعلیمات اسلامی کے اصولوں پر پوری طرح سے عمل پیرا ہو گے تو خدا تمہاری کامیابی کی ضمانت دیتا ہے کیوں کہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے(وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ) ۔
زیر نظر دوسری آیت میں زمانہ جاہلیت کی ایک غلط سنت یعنی مسئلہ نسئی(حرام مہینوں کو آگے پیچھے کردینا ہے)کی طرف اشارہ کیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: حرام مہینوں کو ادل بدل کردیناایساکفر ہے جو ان کے کفر میں زیادتی کا سبب ہے ( إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَةٌ فِی الْکُفْرِ)اس عمل کے ذریعے بے ایمان لوگ مزید گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں( یُضَلُّ بِہِ الَّذِینَ کَفَرُوا)وہ ایک سال ایک ماہ کو حلال شمار کرتے ہیں اوردوسرے سال اسی ماہ کو حرام قرار دے لیتے ہیں تاکہ اپنے گمان میں اسے خدا معین کردہ حرام مہینوں کی تعداد پر منطبق کریں یعنی جب ایک حرام مہینے کو حزف کردیتے ہیں تو اس کی جگہ دوسرا مہینہ مقرر کرلیتے ہیں تاکہ چار ماہ کہ تعداد مکمل ہوجائے( یُحِلُّونَہُ عَامًا وَیُحَرِّمُونَہُ عَامًا لِیُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللهُ)، حالانکہ اس برے مضحکہ خیز عمل سے حرام مہینوں کی حرمت کا فلسفہ بالکل ختم ہوکر رہ جاتا ہے اور وہ اس طرح حکم خدا کو اپنی خواہشات کا بازیچہ بنا دیتے ہیں اورتعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے اس کام پر بڑے خوش اور راضی ہیںکیوں کہ ان کے برے اعمال ان کی نگاہ میں بڑے زیبا ہوچکے ہیں( زُیِّنَ لَھُمْ سُوءُ اٴَعْمَالِھِمْ) ۔
جیساکہ آگے آئے گا وہ شیطانی وسوسوں سے حرام مہینوں کو ادل بدل کردیتے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اس کام کو تدبیر زندگی اورمعیشت کے لئے مفید خیال کرتے یا جنگ اور جنگ کی تیاری کے لئے اچھا سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ طویل جنگ بندی سے جنگی مہارت کم ہوجاتی ہے لہٰذا آتش جنگ بھڑکائی جائے ۔
خدا بھی ان لوگوں کو جو ہدایت کی اہلیت نہیں رکھتے ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے اور ان کی ہدایت سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے کیوں کہ خدا کافر گروہ کو ہدایت نہیں کرتا ( وَاللهُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ) ۔

چند قابل توجہ نکات

۱۔ حرام مہینوں کا فلسفہ:
ان چار مہینوں میں جنگ کو حرام قرار دینا طویل المدت جنگوں کے خاتمے کا طریقہ اور صلح و آشتی کی دعوت دینے کا ذریعہ ہے کیوں کہ اگر جنگجو افراد سال میں چار مہینے ہتھیار زمین پر رکھ دے اور تلواروں کی جھنکار اور بموں کے دھماکوں کی آواز خاموش ہوجائے اور غوروفکر کا موقع مل جائے تو جنگ ختم ہوجانے کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے ۔
کسی کام کو جاری و ساری رکھنا، اسے چھوڑ کر نئے سرے سے شروع کرنے سے ہمیشہ مختلف ہوتا ہے نیز پہلے کی نسبت کئی درجے زیادہ مشکل ہوتا ہے، ویت نام کی بیس سالہ جنگوں کی وہ کیفیت بھلائی نہیں جاسکتی جب نئے عیسوی سال کی آمد کے موقع پر صرف چوبیس گھنٹے کی جنگ بندی کے لئے کس قدر زحمت اٹھانا پڑتی تھی لیکن اسلام اپنے پیروکاروں کے لئے ہرسال چار ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کئے ہوئے ہے اور یہ خود اسلام کی امن پسندی کی ایک نشانی ہے،
لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اگر دشمن اس اسلامی قانون سے غلط فائدہ اٹھانا چاہے اور حرام مہینوں کی حرمت کو پائمال کردے تو پھر مسلمانوں کا اس کا ویسا ہی جواب دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔
۲۔ زمانہ جاہلیت میں ”نسئی“کا مفہوم اور فلسفہ:
”نسیٴ“ (بروزن کثیر)”نساء“کے مادہ سے تاخیر میں ڈالنے کے معنی میں ہے (اور خود یہ لفظ اسم مصدر یا مصدر ہوسکتا ہے)، وہ لین دین کہ جس میں قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی جائے اسے ”نسیہ“کہتے ہیں ۔
زمانہ جاہلیت میں عرب کبھی کبھی کسی ماہ حرام کو موخر کردیتے تھے یعنی مثلا محرم کے بجائے صفر کا انتخاب کرلیتے تھے، اس کا طریقہ اس طرح تھا کہ بنی کنانہ کا کوئی ایک سردار مراسم حج میں منیٰ کے مقام پر نسبتا ایک بڑے اجتماع میں لوگوں کے تقاضے کے بعد کہتا:
میں ماہ محرم کو اس موخر کرتا ہوں اور اس کے لئے ماہ صفر کا انتخاب کرتا ہوں ۔
ابن عباس سے منقول ہے کہ پہلا شخص جس نے اس طریقے کا آغاز کیا عمرو بن لحی تھا اور بعض کہتے ہیں کہ اس کام کا آغاز کرنے والا قلمس تھا جس کا تعلق بنی کنانہ سے تھا ۔
بعض کے خیال میں ان کی نگاہ میں اس کام کا فلسفہ یہ تھا کہ بعض اوقات مسلسل تین ماہ کی پابندی (یعنی ذی القعدہ،ذی الحجہ اور محرم) انہیں مشکل لگتی تھی اور وہ اسے اپنے خیال میں جذبہ جنگ کی کمزوری کا باعث سمجھتے اور خیال کرتے کہ یہ سپاہیوں کی کارکردگی رک جانے کا سبب ہے کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ غارت گری، خونریزی اور جکگ سے ایک عجیب سا لگاؤ رکھتے تھے اور اصلی طور پر جنگ وجدال ان کی زندگی کا ایک حصہ تھا اور ان کے پے در پے تین ماہ کی جنگ بندی ایک طاقت فرسا امر تھا لہٰذا وہ کوشش کرتے تھے کہ کم از کم ماہ محرم کو ان تین مہینوں سے جدا کرلیں ۔
یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کبھی ماہ ذی الحجہ گرمیوں میں آجاتا رتھا اور اس سے معاملہ ان کے لئے مشکل ہوجاتا تھااور یم جانتے ہیں کہ حج اور اس کے مراسم زمانہ جاہلیت کے عربوں کے لئے عبادت میں منحصر نہ تھے یہ عظیم مراسم حضرت ابراہیم (ع)کے زمانے سے بطوریادگار چلے آرہے تھے، یہ ایک عظیم کانفرنس شمار ہوتی تھی جو ان کی تجارت اور کاروبار کی رونق کا سبب بھی تھی، انہیں اس عظیم اجتماع سے بہت سے فوائد نصیب ہوتے تھے لہٰذا وہ ماہ ذی الحجہ کو اس کی جگہ سے اپنی خواہش اور رغبت کے مطابق تبدیل کردیتے تھے اور اس کی جگہ موسم میں کوئی دوسرا مہینہ مقرر کردیتے تھے اور ہوسکتا ہے کہ دونوں وجوہ صحیح ہوں، بہرحال یہ عمل سبب بنتا کہ آتش جنگ اسی طرح بھڑکتی رہتی اور حرام مہینوں کا مقصد پامال ہوجاتا، یوں مراسم حج اس کے اور اس کے ہاتھ میں کھلونا اور ان کے مادی مفادات کا ذریعہ بن گئے ۔
قرآن اس کام کو کفر کی زیادتی شمار کرتا ہے کیوں کہ ان کے ”اعتقادی شرک اور کفر“کے علاوہ اس حکم کو ٹھکراکر وہ ”عملی کفر“ کا ارتکاب کرتے تھے خصوصاً جب اس کام کی وجہ سے وہ دو حرام عمل بجالاتے تھے، ایک یہ کہ حرام خدا کو انہوں نے حلال کیا ہوا تھا اور دوسرے یہ کہ حلال خدا کو انہوں نے حرام کررکھا رتھا ۔
۳۔ دشمن کے مقابلے میں وحدت کلمہ:
مندرجہ بالا آیات میں قرآن حکم دیتا ہے کہ دشمن سے جنگ کرنے کے موقع پر مسلمان متفق ہوکر ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر ان سے جنگ کریں، اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان سیاسی ،ثقافتی، اقتصادی اور فوجی میدان میں بھی اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں تیار کرےں اور وہ صرف ایسی وحدت سے جس کا سرچشمہ توحید اسلامی کی روح ہے، دشمن پر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ۔
یہ وہی حکم ہے جو مدت ہوئی طاق نسیاں ہوچکا ہے اور یہی بات مسلمانوں کے انحطاط اور پسماندگی کی علت ہے ۔
۴۔ برے کام کیوں زیبا معلوم ہوتے ہیں:
جب تک انسان برے راستے پر گامزن نہ ہو اس کا وجدان اچھی طرح سے اچھائی اور برائی کی تمیز کر سکتا ہے لیکن جب وہ جان بوجھ کر جادہ گناہ پر چل نکلے اور غلط کاری کی راہ پر قدم رکھ لے تو وجدان کی روشنی مدہم پڑ جاتی ہے اور بات رفتہ رفتہ یہاں تک جاپہنچی ہے کہ گناہ کی قباحت اس لئے آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے اور اگر وہ اسے کام جاری رکھے تو آہستہ آہستہ برے کام اس کی نظر میں اچھے اور اچھے کام برے لگنے لگتے ہیں اوراسی بات کی طرف زیر نظر آیات میں اور متعدد دیگر آیات میں اشارہ کیا گیاہے ۔
بعض اوقات”برے اعمال کی تزئین “کی نسبت شیطان کی طرف دی جاتی ہے، مثلا سورہ نحل کی آیہ۶۳ میں ہے:
<فَزَیَّنَ لَھُمْ الشَّیْطَانُ
اور کبھی فعل مجہول کی صورت میں ذکر ہوئی ہے، جیسا کہ زیر نظر آیت میں ہے، اس کا فاعل ہوسکتا ہے شیطانی وسوسے ہوں یا پھر سرکش نفس ہو۔
کبھی یہ نسبت”شرکاء“ (یعنی بتوں)کی طرف دی گئی ہے، اس کی مثال سورہ انعام کی آیہ۱۳۷ ہے یہاں تک کہ کبھی خدا کی طرف بھی نسبت دی گئی ہے، مثلا سورہ نمل کی آیہ۴ میں ہے:
<إِنَّ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَیَّنَّا لَھُمْ اٴَعْمَالَھُمْ
وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے برے اعمال کو ان کی نظر میں مزین کردیا ۔
ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس قسم کے امور کی خدا کی طرف نسبت اس بنا پر ہے کہ یہ چیزیں ان کے عمل کی خاصیت شمار ہوتی ہے اور تمام چیزوں کے خواص اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ مسبب الاسباب ہے، نیز ہم کہہ چکے ہیں کہ اس قسم کی نسبتیں انسان کے اختیار اور ارادے کی آزادی سے مختلف نہیں رکھتیں ۔

 

۳۸ یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا مَا لَکُمْ إِذَا قِیلَ لَکُمْ انفِرُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الْاٴَرْضِ اٴَرَضِیتُمْ بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلِیلٌ
۳۹ إِلاَّ تَنفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا وَیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَاتَضُرُّوہُ شَیْئًا وَاللهُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ
ترجمہ
۳۸۔اے ایمان والوں! جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ راہ خدا میں جہاد کرنے کے لئے نکل پڑو تو کیوں زمین پر اپنا بوجھ ڈال دیتے ہو (اور سستی کرتے ہو)، کیا تم آخرت کے بدلے دنیاوی زندگی پر راضی ہوگئے ہو حالانکہ حیات دنیا کی متاع آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں مگر بیت ہی کم۔
۳۹۔اگر (میدان جہاد کی طرف)حرکت نہ کرو تو تمہیں دردناک عذاب دے گا اور کسی دوسرے گروہ کو تمہاری جگہ مقرر کردے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

 


۱۔ تفسیر برہان، ج۲،ص ۱۲۲۔

 
ارتکاز دولت کی سزاشان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma