چند قابل توجہ نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
اسلام کی عالمگیر حکومتانتظار ظہور مہدی (ع) کے تربیت کنندہ اثرات

۱۔ ہدایت اور دینِ حق سے کیا مراد ہے؟
یہ مندرجہ بالا آیت میں قرآن کہتا ہے: ”اٴَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْھُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ “ یہ گویا تمام ادیانِ عالم پر اسلام کی کامیابی کی دلیل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب پیغمبر اسلام کی دعوت کا مضمون اور متن مبنی بر ہدایت ہے اور عقل ہر مقام پر اس کی گواہی دے گی، نیز جب اصول وفروع حق کے موافق اور حق کے خواہاں ہیں تو ایسا دین فطری طور پر تمام ادیان پر کامیابی حاصل کرے گا ۔
ہندوستان کے ایک دانشور کے بارے میں مرقوم ہے کہ وہ یک مدت تک مختلف عالمی ادیان کا مطالعہ کرتا رہا اور ان کے بارے میں اس نے تحقیق کی اور آخرکار بہت زیادہ مطالعہ کرنے کے اس نے اسلام قبول کرلیا اور انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا: ”میں مسلمان کیوں ہوا“ اس میں اس نے تمام ادیان کے مقابلے میںاسلام کی خوبیاں واضح کی ہیں، اہم ترین امور جنھوں نے اس کی توجہ جذب کی ان میں سے ایک کے بارے میں وہ کہتا ہے:
اسلام وہ واحد دین ہے جس کی تاریخ ثابت وبرقرار اور محفوظ ہے ۔
وہ تعجب کرتا ہے کہ یورپ نے ایک ایسا دین کیونکر اپنا رکھا ہے کہ جس میں اس کے لانے والے کو ایک انسان کے مقام سے بالاتر جاکر اسے اپنا خدا قرار دے لیا ہے جبکہ اس کی کوئی مستند اور قابلِ قبول تاریخ نہیں ہے ۔(1)
وہ لوگ جنھوں نے اپنے سابقہ دین کو ترک کرکے اسلام قبول کیا ہے اگر ان کے اظہارات اور خیالات کا مطالعہ اور تحقیق کی جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اس دین کی انتہائی سادگی، اس کے مبنی بردلائل احکام، اس کے اصول وفروع کے استحکام اور اس کے پیش کردہ انسانی قوانین سے متاثر ہوئے ہیں اور انھوں نے دیکھا ہے کہ اس کے قوانین ومسائل ہر قسم کی بیہودگی سے پاک ہیں اور ان میں ”حق“ و ”ہدایت“ کا نور جلوہ گر ہے ۔
۲۔ منطقی غلبہ یا طاقت کا غلبہ:
اس سلسلہ میں کہ اسلام کس طرح تمام ادیان پر غلبہ حاصل کرے گا اور کامیاب ہوگا اور یہ کامیابی کس صورت میں ہوگی مفسّرین میں اختلاف ہے ۔
بعض اسے صرف منطقی واستدلالی کامیابی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا ہوچکا ہے کیونکہ منطق واستدلال کی نظر سے موجودہ ادیان کا اسلام سے کوئی موازنہ اور مقابلہ نہیں ہے ۔
لیکن لفظ ’اظہار“ جس کا مادہ ”لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّینِ....“ میںبھی استعمال ہوا ہے، اگر اس کا قرآن کے دیگر مواقع پر مطالعہ کیا جائے اور جہاں جہاں یہ مادہ استعمال ہواہے اس کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ مادہ زیادہ ترجسمانی غلبہ اور ظاہری قدرت کے لئے آتا ہے، جیساکہ اصحابِ کہف کے واقعہ میں ہے:
<إِنَّھُمْ إِنْ یَظْھَرُوا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ
اگر وہ (دقیانوس اور اس کا لشکر) تم پر غلبہ حاصل کرلیں تو تمھیں سنگسار کریں گے ۔(کہف/۲۰)
نیز مشرکین کے بارے میں ہے:
<کَیْفَ وَإِنْ یَظْھَرُوا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوا فِیکُمْ إِلًّا وَلَاذِمَّةً
جب وہ تم پر غالب آجاتے ہیں تو رشتہ داری، قرابت اور عہدہ پیمان کا لحاظ نہیں کرتے ۔(توبہ/۸)
بدیہی امر ہے کہ ایسے مواقع پر غلبہ منطقی نہیں ہوتا بلکہ عملی اور عینی ہوتا ہے ۔
بہرحال زیادہ صحیح یہ ہے کہ مذکورہ غلبہ اورکامیابی کو ہر قسم کا غلبہ سمجھا جائے کیونکہ یہ معنی مفہوم قرآن سے بھی زیادہ مطابقت رکھتا ہے کیونکہ وہاں مطلق طور پر غلبہ کا ذکر ہے یعنی ایک دن ایسا آئے گا جب اسلام منطق واستدلال کے لحاظ سے بھی اور ظاہری نفوذ اور حکومت کے حوالے سے بھی تمام ادیان عالم پر کامیابی حاصل کرے گا اور سب اس کے تحت شعاع اور زیرِ نگین ہوںگے ۔
۳۔ قرآن اور قیامِ مہدی(ع):
مندرجہ بالا آیت جو بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ سورہٴ صف میں بھی آئی ہے اور کچھ فرق کے ساتھ اس کا تکرار سورہٴ فتح میں بھی ہوا ہے ایک اہم واقعہ کی خبر دیتی ہے، جس کی اہمیت اس تکرار کا سبب بنی ہے اور جو اسلام کے عالمگیر ہونے کی خبر دیتی ہے ۔
اگرچہ بعض مفسّرین نے زیرِ بحث آیت میں کامیابی کوایک علاقے کی اور محدود کامیابی کے معنی میں لیا ہے کہ جو رسول الله کے زمانے میں یا آپ کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آیت میں کسی قسم کی قید اور شرط نہیں ہے اور یہ ہر لحاظ سے مطلق ہے لہٰذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کے معنی کو محدود کریا جائے، آیت کا مفہوم اسلام کی تمام پہلووٴں سے تمام ادیانِ عالم پر کامیابی کی خبر دیتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرکار اسلام تمام کرہٴ زمین پر محیط ہوجائے گا اور تمام عالم پر کامیاب ہوگا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوپایا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ خدا یہ حتمی وعدہ تدریجاً اور آہستہ آہستہ عملی شکل اختیار کررہا ہے، دنیا میں اسلام کی تیز رفتار ترقی، یورپ کے مختلف ممالک میں اسے باقاعدہ تسلیم کرلیا جانا، امریکہ اور افریقہ میں اس کا نفوذ، بہت سے دانشوروں اور غیر دانشوروں کا قبولِ اسلام اور اس کے دیگر عوامل نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام عالمی ہونے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے، البتہ مختلف روایات جو منابع اسلامی میں وارد ہوئی ہیں ان کے مطابق اس پرورگرام کا تکامل اس وقت ہوگا جب حضرت مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے اور اسلام کے عالمی پرورگرام کو تحقق بخشیں گے اور عالمی طور پر اسے نافذ کریں گے ۔
مرحوم طبرسی ”مجمع البیان“ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں آپ(ع) کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:
ان ذٰلک یوکن عند خرج المھدی فلایبقیٰ اٴحداً الّا اٴقر بمحمد (ص)اس آیت میں جو وعدہ کیا گیا ہے مہدی آلِ محمد کے ظہور کے وقت صورت پذیر ہوگا، اس دن کوئی خص روئے زمین میں نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ حضرت محمد کی حقانیت کا اقرار کرے گا ۔
نیز اسی تفسیر میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
”لایبقیٰ علیٰ ظھر الاٴرض بیت مدر ولا وبرالا ادخلہ کلمة الاسلام “
دنیا میں کوئی بھی گھر جو پتھر اور مٹی کا، چادر اور خیمے کا اور اُون اور بالوں سے بنا ہو باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ خدا نامِ اسلام اس میں داخل کردے گا ۔
نیز صدوق کی کتاب اکمال الدین میں امام صادق علیہ السلام سے اس کی آیت کی تفسیر میں یوں منقول ہے:
واللّٰہ ما نزل تاویلھا بعد ولا ینزل تاٴویلھا حتّیٰ یخرج القائم فاذا خرج القائم لم یبق کافر باللّٰہ العظیم (نورالثقلین،ج۲،ص ۲۱۱)
خدا کی قسم اس آیت کے مضمون نے عملی صورت اختیار نہیں کی اور ایسا صرف اس زمانے میں ہوگا جب ”قائم“خروج کریں گے اور جب وہ قیام کریں گے تو ساری دنیا میںکوئی ایسا شخص باقی نہیں رہے گا جو خدا کا انکار کرے ۔
اسی مضمون کی اور احادیث بھی پیشوایان اسلام سے نقل ہوئی ہیں اور بعض مفسرین نے بھی اس آیت کے ذیل میں یہی تفسیر ذکر کی ہے لیکن یہ امر تعجب خیز ہے کہ المنار کے مولف نے نہ صرف یہ کہ اس تفسیر کو قبول نہیں کیا بلکہ حضرت مہدی (ع) کے بارے میں احادیث چونکہ زیر نظرآیت سے مناسبت رکھتی ہے اس لئے اس نے ان پر بحث تو کی ہے لیکن شیعوں سے اپنے مخصوص تعصب کی بنا ء بزدلانہ حملوں کے لئے کوئی دقیق فروگذاشت نہیں کیا اور حضرت مہدی (ع) سے مربوط احادیث کا سرے سے انکار کرتے ہوئے انہیں متضاد اور غیر قابل قبول قرار دے دیا ہے، اس کے گمان میں وجود مہدی (ع) کا عقیدہ صرف شیعوں سے یا جو شیعوں کی طرف ہیں انہی سے مربوط ہے، ان سب باتوں ست قطع نظر اس نے وجود مہدی(ع) کے عقیدے کو پسماندگی اور تنزل کا ایک عامل قرار دے دیا ہے ۔
اس صورت حال پیش نظر ہم مجبور ہیں کہ کچھ اختصارسے ظہور مہدی (ع) سے مربوط روایات کا ذکر کریں، نیز السامی معاشرے کی ترقی اور ظلم وجور کے خلاف قیام میں اس عقیدے کے اثرات پر بحث کریں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ جب ایک دروازے سے تعصب داخل ہوتا ہے تو علم ودانش دوسرے دروازے سے بھاگ جاتے ہیں، اس بحث سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ مذکورہ مفسر اگرچہ اسلامی مسائل میں بہت معلومات رکھتاہے لیکن تعصب کے اس کمزور پہلو کی وجہ سے اس نے واضح حقائق کو کس طرح الٹی نظر سے دیکھا ہے ۔

ظہور مہدی (ع) اور اسلامی روایات

اگر چہ سنی شیعہ علما ء نے بہت سی کتب میں قیام مہدی (ع) سے متعلق احادیث لکھی ہیں لیکن ہماری نظر میں کوئی چیز اس خط سے بڑھ کر گویا اور جچی تلی نہیں ہیں جو چند علماء حجاز نے ایک سائل کے جواب میں لکھا ہے لہٰذا ہم اس کا بعینہ ترجمہ قارئین محترم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں لیکن پہلے ہم یہ بات یاد دلا دیں کہ قیام مہدی(ع) سے مربوط روایات ایسی ہیں کہ کسی اسلامی محقق نے چاہے وہ کسی گروہ اور مذہب کا پیرو کار ہو ان کے تواتر کا انکار نہیں کیا ۔ اب تک اس سلسلے میں بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ان کے مولفین نے بالاتفاق عالمی مصلح یعنی حضرت مہدی (ع) سے مربوط احادیث کی صحت کو قبول کیا ہے ۔صرف معدودے چند افراد مثلا ابن خلدون اور احمد امین مصری نے ان اخبار و روایات کے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے صدور کے بارے میں شک و تردید کی ہے، البتہ ہمارے پاس ایسے قرائن موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کام ابھارنے والی چیز ان اخبار کا ضعف نہیں تھا بلکہ ان کا خیال تھا کہ حضرت مہدی(ع) سے مربوط روایات ایسے مسائل پر مشتمل ہیں جن پر آسانی سے یقین نہیں کیا جاسکتایا اس بنا پر کہ وہ صحیح اور غیر صحیح روایات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے تھے یا انہیں ان کی تفسیر نہیں مل سکی، بہرحال ضروری ہے کہ پہلے اس مسائل میں اس جواب کو پیش کیا جائے جو”رابطہ عالم اسلامی“ کی طرف سے سامنے آیا ہے، جب کہ”رابطہ عالم اسلامی“عالم اسلام کے انتہائی سخت گیر افراد، یعنی وہابیوں پر مشتمل ہے، اس سے واضح ہوجائے گا کہ ظہور مہدی (ع) کا معاملہ ایسا ہے جس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے،ہمارے نظرےے کے مطابق اس چھوٹے سے رسالہ میں ضروری مدارک کو اس طرح سے جمع کردیا گیا ہے کہ کسی شخص کو ان کے انکار کی جراٴت نہیںہے اور اگر سخت گیر وہابی حضرات نے اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ہے تو اس کی بھی وجہ اس کے ناقابل انکار مدارک ہی ہیں ۔
تقریبا ایک سال پہلے ابو محمد نامی ایک شخص نے کینیا سے ”رابطہ عالم اسلامی“ سے مہدی (ع) منتظر کے بارے میں سوال کیا، رابطہ کے سربراہ محمد الصالح القزاز نے اس کے جواب میں ضمنا تصریح کی ہے کہ ابن تیمیہ جو مذہب وہابی کابانی ہے نے بھی ظہور مہدی (ع) سے مربوط احادیث کو قبول کیا ہے ۔
مذکورہ رسالے کا متن حجاز کے دورحاضر کے پانچ مشہور علماء نے تیار کیا ہے، اس رسالے میں حضرت مہدی (ع) کے نام کی وضاحت کی گئی ہے اوران کے ظہور کا مقام مکہ بیان کیا گیا ہے، اس کے بعد لکھا گیا ہے:
دنیا میں فتنہ وفساد کے ظہور اور کفر وظلم کے پھیل جانے پر خدا وند عالم اس (مہدی (ع))کے ذریعے دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح معمور کردے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی ۔
وہ ان بارہ خلفاء راشدین میں سے آخری ہے جن کے متعلق پیغمبر نے کتب صحاح میں خبر دی ہے ۔
مہدی (ع) سے مربوط احادیث بہت سے صحابہ نے پیغمبر سے نقل کی ہیں ان صحابہ میں سے عثمان بن عفان، علی ابن ابی طالب، طلحہ ابن عبیداللہ، عبدالرحمن ابن عوف، قرة بن اساس مزنی،عبداللہ ابن حارث، ابوہریرہ،حذیفہ بن یمان، جابر ابن عبداللہ ، ابو امامہ، عبداللہ ابن عمر، انس ابن مالک، عمران ابن حصین اور ام سلمہ شامل ہیں ۔
یہ افراد ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے روایات مہدی (ع) کو نقل کیا ہے اور ان کے علاوہ بھی بہت افراد موجود ہیں ۔
خود صحابہ سے بھی بہت سی باتیں منقول ہیں کہ جن میں ظہور مہدی(ع) سے متعلق گفتگو کی گئی ہے کہ جنہیں احادیث پیغمبر کے ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ مسئلہ ایسے مسائل میں سے نہیں ہے کہ جس کے بارے میں اجتہاد کے ذریعے کچھ کہا جا سکے(لہٰذا ظاہر ہے کہ یہ باتیں بھی انھوں نے پیغمبر سے سن کر کی ہیں) ۔
مزید لکھا ہے:
مذکورہ بالا احادیث جو پیغمبر سے نقل ہوئی ہے اور صحابہ کی گواہی جو یہاں حدیث کا حکم رکھتی ہے بہت سی مشہور اسلامی کتب اور احادیث کی بنیاد کتب میں آئی ہے چاہے وہ سنن و معاجم ہوں یا مسانید، ان میں سے سنن ابو داود، سنن ترمزی، ابن عمرو الدانی ، مسند احمد ،ابن یعلی وبزاز، صحیح حاکم، معاجم طبرانی کبیر ومتوسط، رویانی و دار قطنی اور ابو نعیم نے اخبار المہدی میں، خطیب نے تاریخ بغداد میں اور ابن مساکر نے تاریخ دمشق میں اور ان کے علاوہ دیگر علماء کی کتب میں یہ روایات موجود ہیں ۔
اس کے بعد مزید لکھا ہے:
بعض علماء اسلام نے اس سلسلے میں مخصوص کتب تالیف کی ہیں جن میں ابو نعیم کی ”اخبار المہدی“ ، ابن حجر ہیثمی کی ”القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر“،شوکانی کی”التوضیح فی تواتر ما جاء فی المنتظر والدجال والمسیح“، ادریس عراقی کی”المہدی“ اور ابو العباس ابن عبدالمومن کی” الوھم المکنون فی الرد علی ابن خلدون“ شامل ہیں ۔
اور آخری شخص جس نے اس سلسلے میں مفصل بحث کی ہے وہ اسلامی یونیور سٹی مدینہ کا سربراہ ہے جن نے مذکورہ یونیورسٹی کے مجلہ کے چند شماروںمیں اس مسئلے پر بحث کی ہے ۔
مزید لکھا ہے:
قدیم اور جدید بزرگان اور علماء اسلام کی ایک جماعت نے بھی اپنی تحریروں میں تصریح کی ہے کہ مہدی کے سلسلے میں احادیث حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں(اور وہ کسی طرح سے قابل انکار نہیں ہیں )ان میں سے السخاوی نے کتاب”فتح المغیث“ میں، محمد ابن احمد سفاوینی نے ”شرح العقیدہ “ میں، ابوالحسن الابری نے”مناقب شافعی“ میں، ابن تیمیہ نے”کتاب فتاواش“ میں، سیوطی نے”الحاوی“ میں، ادریس عراقی نے مہدی (ع) کے بارے میں اپنی تالیف میں،شوکانی نے ”التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر“ میں، محمد جعفر کنانی نے ”نظم التناثر“ میں اور ابو العباس ابن عبدالمومن نے” الوھم المکنون “ میں تصریح کی ہے ۔
اس بحث کے آخر میں لکھا گیا ہے:
صرف ابن خلدون ہے جس نے چاہا ہے کہ مہدی (ع) سے مربوط احادیث پر ایک بے بنیاد اور جعلی حدیث کے سہارے اعتراض کرے اور وہ جعلی حدیث ہے:لا مھدی الا عیسیٰ(مہدی عیسیٰ کے علاوہ کوئی نہیں)لیکن بزرگ ائمہ اور علماء اسلام نے اس کے قول کو رد کیا ہے ۔خصوصا ابن عبدالمومن نے تو اس کے نظریے کے خلاف ایک خصوصی کتاب لکھی ہے کہ جو تیس سال پہلے مشرق ومغرب میں پھیل چکی ہے ۔
حفاظ احادیث اور بزرگ علماء حدیث نے بھی تصریح کی ہے کہ مہدی (ع) کے بارے میں روایات ”صحیح“ اور ”حسن“ احادیث پر مشتمل ہیں اور ان کا مجموعہ متواتر ہے اس لئے ظہور مہدی کا اعتقاد رکھنا (ہرمسلمان پر واجب ہے) اور یہ اہل سنت والجماعت کے عقائد کا جز شمار ہوتا ہے اور سوائے نادان، جاہل یا بدعتی افراد کے اس کا کوئی انکار نہیں کرتا ۔

 


1۔ المنار، ج۱۰، ص۳۸۹.
 
اسلام کی عالمگیر حکومتانتظار ظہور مہدی (ع) کے تربیت کنندہ اثرات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma