تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
ایک مشہور اور جعلی روایتبے وقعت ’معبود‘

تفسیر

ان دونوں آیات میں توحید کی بحث اور شرک سے مقابلہ جاری ہے اور اس سلسلے میں گذشتہ بحث کی ان میں تکمیل ہوئی ہے، ان میں عبادت میں شرک اور غیر خدا کی پرستش کو احمقانہ اور عقل ومنطق سے عاری کام قرار دیا گیا ہے، ان روایات کے مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ چار دلیلوں سے بت پرستوں کی منطق باطل ہوجاتی ہے ۔
قرآن مختلف طرح کے استدلال سے اس مسئلہ پر بحث کرتا ہے اور ہر وقت اس پر ایک نئی برہان پیش کرتا ہے، اس کا راز یہ ہے کہ شرک ایمان کا اور انفرادی واجتماعی سعادت کا بدترین دشمن ہے اور چونکہ افکارِ بشر کی مختلف جڑیں اور شاخیں ہیں اور ہر دور میں شرک ایک نئی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور انسانی معاشروں کو خطرے سے دوچار کردیتا ہے لہٰذا قرآن اس کی خبیث جڑوں اور شاخوں کو کاٹنے کے لئے ہر موقع پر فائدہ اٹھاتا ہے ۔
یہاں ارشاد فرمایا گیاہے: جنھیں تم خدا کے علاوہ پکارتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو اور جن سے مدد طلب کرتے ہو وہ تمھاری طرح کے بندے میں (إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ عِبَادٌ اٴَمْثَالُکُمْ) ۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ انسان ایسی چیز کے سامنے سجدہ ریزہو جو خود اس جیسی ہے اور اپنی تقدیر اور سرنوشت اس کے ہاتھ میں سمجھ لے ۔ دوسرے لفظوں میں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر غور کرو تو دیکھو گے کہ وہ جسم بھی رکھتے ہیں، زمان ومکان کی زنجیر میں اسیر ہیں، قوانینِ طبیعت کے بھی محکوم ہیں اور زندگی اور دیگر توانائیوں کے لحاظ سے بھی محدود ہیں خلاصہ یہ ہے کہ وہ تم سے کوئی امتیاز نہیں رکھتے، تم نے صرف وہم خیال سے ان کے لئے امتیاز گھڑ رکھا ہے ۔
آیت میں بت پرستوں کے معبودوں کو ”عباد“ کہا گیا ہے جو ”عبد“ کی جمع ہے اور جس کا معنی ہے ”بندہ“ جبکہ ”عبد“ زندہ موجود کو کہا جاتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی کئی ایک تفاسیر کی گئی ہیں
پہلی: یہ کہ ممکن ہے یہاں ان معبودوں کی طرف اشارہ ہو جو انسانوں میںسے ہیں جیسے عیسائیوں کے لئے عیسیٰ، عرب بت پرستوں کے لئے فرشتے وغیرہ۔
دوسری: تفسیر یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس توہم کی وجہ جووہ بتوں کے متعلق رکھتے تھے، یہ کہا گیا ہو کہ فرض کریں کہ وہ عقل وشعور بھی رکھتے ہیں (پھر بھی وہ) تم سے برتر موجود تو نہیں ہیں ۔
تیسری: یہ کہ ”عبد“ لغت میں بعض اوقات ایسے موجود کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو دوسرے کے زیرِ تسلط اور زیر فرمان ہو اور اس کے سامنے خاضع ہو چاہے وہ عقل وشعور نہ رکھتا ہو۔ جیسے ایسی سڑک کو ”معبد“ (بروزن مقدم) کہتے ہیں جس پرز ہمیشہ آمد روفت رہتی ہے
مزید فرمایا گیا ہے: تم سوچتے ہو کہ وہ قدرت وشعور رکھتے ہیں تو ”انھیں پکارکر دیکھو کیا وہ تمھیں جواب دیتے ہیں، اگر تم سچ کہتے ہو (فَادْعُوھُمْ فَلْیَسْتَجِیبُوا لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ) ۔
ان کی منطق کو باطل کرنے کے لئے یہ دوسری دلیل بیان کی گئی ہے کہ ان کا موت کا سا سکوت وخاموشی ان کے بے ارزش ہونے اور کسی چیز پر ان کی قدرت نہ ہونے کی نشانی ہے ۔
پھر مزید واضح کیا گیا ہے کہ’ حتّیٰ کہ وہ اپنے عبادت گزاروں سے زیادہ پست اور عاجز ہیں ”اچھی طرح دیکھ لو کہ کیا وہ کم از کم تمھاری طرح پاؤں رکھتے ہیں کہ جن سے چل پھرسکیں“ (اٴَلَھُمْ اٴَرْجُلٌ یَمْشُونَ بِھَا) ۔ ”یا کیا وہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ جن سے کوئی پکڑ سکیں اور کوئی کام کرسکیں (اٴَمْ لَھُمْ اٴَیْدٍ یَبْطِشُونَ بِھَا)

”یا کیا وہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ جن سے دیکھ سکیں (اٴَمْ لَھُمْ اٴَعْیُنٌ یُبْصِرُونَ بِھَا) ۔ ”یا کیا پھر وہ کان رکھتے ہیں کہ جن سے سن سکیں“ (اٴَمْ لَھُمْ آذَانٌ یَسْمَعُونَ بِھَا) ۔ وہ تو اس قدر ضعیف ہیں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے تمھاری مدد کے محتاج ہیں اور خود اپنے وجود کی حفاظت کے لئے کمک محتاج ہیں، نہ وہ دیکھنے والی آنکھ رکھتے ہیں نہ سننے والے کان اور نہ کوئی اور قوتِ حس ان کے پاس ہے ۔
آیت کے آخر میں چوتھا استدلال یوں پیش کیا گیا ہے: اے پیغمبر! ان سے کہو کہ یہ معبود جنھیں تم نے خدا کا شریک قرار دے رکھا ہے انھیں میرے برخلاف بلاؤ اور تم سب ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر جتنی کرسکو میرے خلاف سازش کرلو اور اس کام میں کسی قسم کی تاخیر روا نہ رکھو پھر دیکھتے ہیں کہ اس کے باوجود تم کیا کرسکتے ہو (قُلْ ادْعُوا شُرَکَائَکُمْ ثُمَّ کِیدُونِی فَلَاتُنظِرُونِ)یعنی اگر میں جھوٹ بولتا ہوں اور وہ مقربان خدا ہیں اور میں نے ان کے حریم احترام میں جسارت کی ہے تو پھروہ مجھ پر غضب کیوں نہیں کرتے اور تم اور وہ مل کر مجھ پر کوئی اثر نہیں کرپاتے ۔ لہٰذا جان لو کہ یہ غیر موٴثر موجودات ہیں کہ جنھیں تمھارے توہشمات نے قوت بخشی ہے ۔

۱۹۶ إِنَّ وَلِیِّی اللهُ الَّذِی نَزَّلَ الْکِتَابَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِینَ.
۱۹۷ وَالَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ لَایَسْتَطِیعُونَ نَصْرَکُمْ وَلَااٴَنفُسَھُمْ یَنصُرُونَ.
۱۹۸ وَإِنْ تَدْعُوھُمْ إِلَی الْھُدیٰ لَایَسْمَعُوا وَتَرَاھُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْکَ وَھُمْ لَایُبْصِرُونَ.
ترجمہ
۱۹۶۔ (لیکن) میرا ولی اور سرپرست وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ سب نیکوں اور صالحین کا سرپرست ہے ۔
۱۹۷۔ اور جنھیں تم اس کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمھاری مدد نہیں کرسکتے اور (حتّیٰ کہ) اپنی بھی مدد نہیں کرسکتے ۔
۱۹۸۔ اور اگر ان سے ہدایت چاہو تو وہ تمھاری باتوں کو نہیں سنتے اور تم دیکھوگے کہ (وہ اپنی مصنوعی آنکھوں سے) تمھیں دیکھ رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ نہیں دیکھ سکتے ۔

 

ایک مشہور اور جعلی روایتبے وقعت ’معبود‘
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma