جہاد کے بارے میں چھ اور احکام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
وہ کام جو ہونا چاہیےمشرک، منافق اور شیطانی وسوسے

مفسّرین نے لکھا ہے کہ ابوسفیان جب بڑی چالبازی سے قریش کے تجارتی قافلے کو مسلمان کے علاقے سے صحیح سالم لے کر نکل گیا تو اس نے کسی کو لشکر قریش کی طرف بھیجا جو میدانِ بدر کی طرف عازم تھا اور کہلایا کہ اب تمھیں جنگ کرنے کی ضرورت نہیں رہی لہٰذا واپس آجاؤ۔ لیکن ابوجہل خاص غرور تکبر اور تعصب رکھتا تھا۔اس نے قسم کھائی کہ ہم ہرگز نہیں پلٹیں گے جب تک سرزمین بدر میں نہ جائےں (بدر اس واقعہ سے پہلے اجتماع عرب کا ایک مرکز تھا۔ ہر سال یہاں ایک تجارتی بازار لگتا تھا ) ۔ اس نے کہا کہ ہم تین دن تک وہاں وہاں رہیں گے، اونٹ ذبح کریں گے،خوب کھائیں گے، شراب پئیں گے اور گانے بخانے والے گائیں گے بجائیں گے تاکہ ہماری آواز تمام دنیائے عرب کے کانوں تک پہنچنے اور طاقت ثابت ہوجائے۔
لیکن آخر کار انھیں شکست ہوئی۔ شراب نوشی کی بجائے انہوں نے موت کے گھونٹ پیے اور گانے والوں کی بجائے نوحہ کرنے والی عورتیں ان کے غم میں بیٹھیں۔
مندرجہ بالا آیات بھی اسی امر کی طرف اشارہ کررہی ہیں اور مسلمانوں کو ایسے کاموں سے منع کرتی ہیں اور گذشتہ احکام کے بعد ان آیات میں جہاد کے بارے میں مزید احکام جاری کیے گئے ہیں۔ زیر نظر آیات میں کل چھ اہم احکام مسلمانوں کو دیئے گئے ہیں:
۱۔ پہلے قرآن کہتا ہے: اے ایمان لانے والو! جب دشمنوں کے کسی گروہ کو میدان جنگ میں اپنے سامنے دیکھو تو ثابت قدم رہو ( یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا)۔ یعنی ایمان کا ایک واضح نشانی ہر معاملے میں خصوصاً دشمنانِ حق سے برسرپیکار ہونے کی صورت میں ثابت قدمی ہے۔
۲۔ خدا کو بہت زیادہ یاد کرو تاکہ رستگار اور کامیاب ہوجاؤ ( وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِیرًا لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ)۔
اس میں شک نہیں کہ یاد خدا سے مراد صرف لفظی ذکر نہیں ہے بلکہ روح کے اندر خدا کا مشاہدہ ہے اور اس کے بے انتہا علم و قدرت اور وسیع رحمت کو یاد رکھنا ہے۔ خدا کی طرف ایسی توجہ مجاہد سپاہی کی ہمت اور جذبے کو تقویت دیتی ہے اور اس کے سائے میں وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ میدانِ جہاد میں اکیلا نہیں ہے۔ اس کی ایک طاقتور پناہ گاہ اور سہارا ہے کے جس کے مقابلے میں کوئی طاقت کھڑی نہیں ہوسکتی اور اگر وہ مارا بھی گیا تو اسے شہادت جیسی عظیم سعادت حاصل ہوگی اور وہ جوارِ رحمت حق میں رستگار ہوگا اور فلاح پائے گا۔ خلاصہ یہ کہ یاد خدا اسے طاقت، اطمینان اور پامردی عطا کرتی ہے۔
علاوہ ازیں خدا کی یاد اور اس کا عشق اس کے دل سے بیوی، اولاد، مال اور مقام سے لگاؤ کو نکال دیتا ہے اور خدا کی طرف توجہ ان چیزوں کو دل سے باہر نکال دیتی ہے جو مقابلے اور جہاد کے معاملے میں سستی اور کمزوری کا باعث بنتی ہیں۔
چنانچہ امام سجاد زین العابدین علیہ السلام کے صحیفہ کی مشہور دعا جو اسلام کی سرحدوں کے مسلمان محافظین اور مدافعین کے بارے میں ہے، میں آپخدا کی بارگاہ میں یوں عرض کرتے ہیں:
وانسھم عند لقآئھم العدوذکردنیا ھم الخداعة و امح عن قلوبھم خطرات المال الفتون و اجعل الجنة نصب اعینھم
پروردگارا! (اپنی یاد کے سائے میں) فریب دینے والی دنیا کی یادان محافظ سپاہیوں کے دل سے نکال دے اور رزق برق اموال کی طرف سے ان کے دل پھیردے اور بہشت کو ان کی نگاہِ فکر کے سامنے کردے۔(۱)
۳۔ جنگ سے متعلق دووسرا اہم ترین مسئلہ رہبری ہے۔ پیشوا اور رہبر کے حکم کی اطاعت کا ہے۔ یہی وہ اہم معاملہ ہے کہ اگر اس پر عمل نہ کیا جاتا تو جنگ بدر کا انجام مسلمانوں کی مکمل شکست کی صورت میں سامنے آتا۔ اسی لئے دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:خدا اور اس کے رسول کی اطاعت

( وَاٴَطِیعُوا اللهَ وَرَسُولَہُ)۔
۴۔ اور پراندگی، نزاع اور اختلاف سے پرہیز کرو (وَلَاتَنَازَعُوا)۔ کیونکہ دشمن کے سامنے مجاہدین کے ما بین کشمکش, نزاع اور اختلاف کا پہلا اثر جنگ میں سستی، ناتوانی اور کمزوری ہے (فَتَفْشَلُوا)۔ اور اس کمزوری کے نتیجے میں تمہاری طاقت، قوت، ہیبت اور عظمت ختم ہوجائے گی (وَتَذْھَبَ رِیحُکُمْ)۔
”ریح“ کا معنی ”ہوا“۔ اور یہ جو کہتے ہیں کہ اگر ایک دوسرے سے جھگڑو گے تو سست اور کمزور ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، یہ اس معنی کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ قوت و عظمت اور تمہاری مراد اور مقصود کے موافق جاری نہیں رہیں گے چونکہ موافق ہواؤں کے چلنے کی وجہ سے کشتیاں منزلِ مقصود کی طرف چلتی رہتی ہیں اور اس زمانے میں جب کہ کشتی کو چلانے کے لئے واحد محرک ہوا ہی تھی، اس لحاظ سے یہ مطلب بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔
علاوہ ازیں ہوا کا چلنا جھنڈوں کے ساتھ جھنڈے قائم رہنے کی نشانی ہے جو کہ قدرت و حکومت کی رمز ہے اور مندرجہ بالا تعبیر اس معنی کے لئے کنایہ ہے۔
۵۔ اس کے بعد قرآن دشمن کے مقابلے میں اور سخت حوادث کے مقابلے میں استقامت اور صبر کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے: صبر و استقامت اختیار کرو کہ خدا صبرو استقامت کا مظاہر کرنے والوں کے ساتھ ہے (وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِینَ)۔
پہلے حکم میں ثباتِ قدم کا ذکر ہے اور پانچویں حکم میں صبر و استقامت کا۔ ان میں اس لحاظ سے فرق ہے کہ ثباتِ قدم زیادہ تر جسمانی اور ظاہری پہلو رکھتا ہے جب کہ استقامت اور صبر زیادہ ترنفسیاتی اور باطنی پہلو رکھتا ہے۔
۶۔ آخری آیت میں مسلمانوں کو احمقانہ کاموں، متکبرانہ افعال اور مہمل شورشین کی پیروی سے روکا گیا ہے۔ نیز ابوجہل، اس کے طرزِکار اور اس کے یارو انصار کے انجامِ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان افراد کی طرح نہ ہوجانا جو اپنے علاقے سے غرور، ہوا پرستی اور خود نمائی کے لئے نکلتے تھے

 ( وَلَاتَکُونُوا کَالَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِیَارِھِمْ بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ)۔ وہی کہ جن کا ہدف اور مقصد لوگوں کو راہِ خدا سے روکنا تھا (وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ) ۔ ان کا ہدف بھی ناپاک تھا اور اس تک پہنچنے کے اسباب بھی ناپاک تھے اور ہم نے دیکھا کہ آخر کار اتنی قوت اور جنگی سازو سامان کے باوجود انھیں شکست ہوئی۔ عیش و عشرت اور طرب و سرور کی بجائے ان میں سے کچھ خاک و خون میں غلطاں ہوئے اور کچھ ان کے غم میں اشکبار ہوئے۔ اور جو کام یہ لوگ انجام دیتے ہیں خدا ان پر محیط ہے اور ان کے اعمال سے باخبر ہے (وَاللهُ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ)۔

 

۴۸- وَإِذْ زَیَّنَ لَھُمْ الشَّیْطَانُ اٴَعْمَالَھُمْ وَقَالَ لَاغَالِبَ لَکُمْ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّی جَارٌ لَکُمْ فَلَمَّا تَرَائَتْ الْفِئَتَانِ نَکَصَ عَلیٰ عَقِبَیْہِ وَقَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِنْکُمْ إِنِّی اٴَریٰ مَا لَاتَرَوْنَ إِنِّی اٴَخَافُ اللهَ وَاللهُ شَدِیدُ الْعِقَابِ-
۴۹- إِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِھِمْ مَرَضٌ غَرَّ ھٰؤُلَاءِ دِینُھُمْ وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ-
۵۰- وَلَوْ تَریٰ إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِینَ کَفَرُوا الْمَلَائِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَھُمْ وَاٴَدْبَارَھُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ-
۵۱- ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اٴَیْدِیکُمْ وَاٴَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ-
ترجمہ
۴۸۔ اور وہ وقت (یاد کرو) جب شیطان نے ان (مشرکین) کے اعمال کو ان کی نظر میں مزین کیا اور کہا کہ لوگوں میں سے کوئی بھی تم پر کامیاب نہیں ہوگا اور میں تمہارا ہمسایہ (اور تمھیں پناہ دینے والا) ہوں لیکن جب اس نے دوگروہوں (مجاہد مسلمانوں اور ان کے حامی فرشتوں) کو دیکھا تو پیچھے کی طرف پلٹا اور کہا کہ میں تم (دوستوں اور پیرو کاروں) سے بیزار ہوں۔ میں ایسی چیز دیکھ رہا ہوں جسے تم نہیں دیکھتے۔ میں خدا سے ڈرتا ہوں اور خدا شدید العقاب ہے۔
۴۹۔جس وقت منافقین اور وہ کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی کہنے لگے :(مسلمانو ں کے )اس گروہ کو ان کے دین نے مغرورکیا(اورد ھوکا دیا )ہے اور جو شخص خدا پر توکل کرے (کا میاب ہو گاکہ )خدا عزیز و حکیم ہے۔
۵۰۔ اور اگر کفار کو دیکھے کہ جب (موت کے) فرشتے ان کی روح نکال رہے ہوتے ہیں اور ان کے چہرے اور پشت پر مار ہے ہوتے ہیں اور (کہتے ہیں کہ) چکھو جلانے والے عذاب کو (ان کی حالت پر تجھے افسوس ہوگا)۔
۵۱۔ یہ ان کاموں کے بدلے میں ہے کہ جو آگے بھیج چکے ہو اور خدا اپنے بندوں پر کبھی ظلم و ستم روا نہیں رکھتا۔

 


۱۔ صحیفہ سجادیہ
وہ کام جو ہونا چاہیےمشرک، منافق اور شیطانی وسوسے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma