اسلام اور ہجرتیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
چند اہم نکاتسورہٴ برائت

مکہ کے مسلمانوں کی حبشہ کی طرف ہجرت سے ایک تو جزیرہ عرب سے باہر اسلام کا بیج چھڑکا اور ساتھ ہی ساتھ جو پہلے معدودے چند مسلمان تھے اور دشمن کے سخت دباوٴ میں تھے ان کے لئے اس نے ایک مورچے کا کام بھی دیا۔
پھر رسول الله اور پہلے مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، یہ مہاجرین جنھیں بعض اوقات مہاجرینِ بدر بھی کہتے ہیں تاریخ اسلام میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ بظاہر تو یہ ایک بالکل تاریک مستقبل کی طرف چل پڑے تھے اور درحقیقت انھوںنے خدا کے لئے تمام مادی سرمائے سے آنکھیں بند کرلی تھیں، مہاجرین کہ جنھیں مہاجرینِ اوّلین سے تعبیر کیا جاتا ہے انھوں نے در حقیقت اسلام کے پُرشکوہ محل کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی، قرآن ان کے لئے ایک مخصوص عظمت کا قائل ہے کیونکہ وہ تمام مسلمانوں کی نسبت زیادہ با ایثار سمجھے جاتے ہیں۔
ایک اور ہجرت صلح حدیبیہ کے بعد نسبتاً امن وامان کے ماحول میں ہوئی کچھ مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔بعض اوقات ان تمام مسلمانوں کی ہجرت شمار کیا جاتا ہے اور اسے ”ہجرت ثانیہ“ کا نام دیا جاتا ہے۔
فتح مکہ کے بعد پہلے کی سی ہجرت کا سلسلہ ختم ہوگیا یعنی مکہ سے مدینہ کی طرف آنا ختم ہوگیا اب مکہ ایک اسلامی شہر میں تبدیل ہوچکا تھا اور رسول الله سے یہ جو حدیث نقل ہوئی ہے کہ:
”لاھجرة بعد الفتح“
یعنی ، فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔
یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے۔
لیکن اس گفتگو کا یہ مفہوم نہیںہے کہ اسلام نے ہجرت کی آئندہ کے لئے بالکل نفی کردی ہے جیسا کہ بعض نے خیال کر رکھا ہے بلکہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی نفی کی گئی ہے ورنہ جب بھی مسلمانوں کے لئے پہلے مسلمانوں کے سے حالات پیدا ہوں ان کے لئے قانونِ ہجرت اپنی قوت کے ساتھ باقی ہے اور جب تک اسلام کا پوری دنیا پر قبضہ نہیں ہوجاتا یہ قانون برقرار دہے گا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کے مسلمان اس اہم اسلامی بنیاد کو بھلادینے کی وجہ سے زیادہ تر اپنے محیط میں بند ہیں جبکہ مسیحی مبلغ، گمراہ فرقوں کے نمائندے اور سامراجب مذاہب کے مبلغ مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کی طرف ہجرت کرتے ہیں یہاں تک کہ یہ لوگ وحشی اور آدم خور قبائل میں جاتے ہیںبلکہ قطبِ شمال اور قطبِ جنوبی کے علاقوں میں جاتے ہیں، درحقیقت یہ حکم تو مسلمانوں کے لئے تھا اور اس پر عمل دوسرے کررہے ہیں۔
زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے شہروں کے اطراف میں بہت سے ایسے دیہات ہیں جو بعض اوقات چند میلوں کے فاصلے پر ہونے کے باوجود اسلامی مسائل سے بے خبر ہیں اور بعض تو ایسے کہ انھوں نے کبھی اسلامی مبلغ کی صورت تک نہیں دیکھی، اسی لئے ان کا ماحول فساد کے جراثیم اور جعلی وسامراجب مذاہب کے لئے آمادہ اور تیار ہے، نہ جانے آج کے مسلمانوں نے جو مہاجرینِ اوّلین کے وراث ہیں خدا کے سامنے اس کیفیت کے لئے کیا جواب سوچ رکھا ہے۔
حالیہ دنوں میں اگرچہ اس سلسلے میں کچھ حرکت نظر آنے لگی ہے لیکن یہ ہرگز کافی ووافی نہیں ہے۔
بہرحال تاریخ اور مسلمانوں کی سرنوشت میں ہجرت کا موضوع اور اس کے نقوش اس سے کہیں زیادہ اہم ہیں کہ اس اختصار سے اس کے تمام پہلووٴں کا مطالعہ اور تحقیق ہوسکے۔
(تفسیر نمونہ جلد چہارم سورہٴ نساء آیت نمبر ۱۰۰ پر بھی اس سلسلے میں ہم کچھ باتیں کر آئے ہیں، آئندہ بھی انشاء الله متعلقہ آیات کے ذیل میں پھر گفتگو کریں گے)
۲۔ صحابہ کے بارے میں مبالغہ: قرآن مہاجرینِ اوّلین کے بارے میں جس احترام اور اہمیت کا قائل ہے اس سے ہمارے کچھ اہلِ سنّت بھائیوں نے یہ مطلب نکالنا چاہیے کہ وہ حضرات آخر عمر تک کسی غلطی اور خلافِ شریعت امر کے مرتکب نہیں ہوئے، لہٰذا ان کے خیال میں بلاچون وچرا سب کو بلا استثناء محترم سمجھنا چاہیے، پھر قرآن نے بیعت رضوان وغیرہ کے واقعہ میں ان کی جو تعریف وستائش کی ہے اس کے وجہ سے وہ اس احترام میں صحابہ کو شامل سمجھتے ہیں اور عملی طور پر وہ صحابہ کو ان کے اعمال وکردار کو مدّنظر رکھے بغیر استثنائی انسان شمار کرتے ہیں اور اس طرح انھوںنے ان کے کردار پر کسی قسم کی تنقید اور بحث وتمحیص کے اپنے حق کوسلب کرلیا ہے ان میں سے المنار کے موٴلف مشہور مفسّر نے زیر بحث آیات کے ذیل میں شیعوں پر سخت حملہ کیا ہے کہ وہ بعض مہاجرین اوّلین پر کیوںانگلی رکھتے ہیں اور ان پر کیوں تنقید کرتے ہیں، ان کے خیال میں شیعہ اس طرف متوجہ نہیں

نہیںکہ صحابہ کے بارے میں ایسا نظریہ رکھنا روحِ اسلام اور تاریخ اسلام سے بہت متضاد ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ، خصوصاً مہاجرینِ اوّلین بڑی عزت واحترام کے حامل ہیں لیکن یہ احترام اس وقت ہے جب تک وہ صحیح راستے پر گامزن رہے اور انھوں نے فداکاری کی، لیکن جس روز سے صحابہ کا ایک گروہ اسلام کے حقیقی راستے سے ہٹ گیا مسلّماً ان کے بارے میں قرآن کا دوسرا فیصلہ ہوگا۔
مثلاً ہم طلحہ اور زبیر کو کیسے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں جنھوں نے بیعت توڑی، ایسے امام کی مخالفت کی جو اس کے علاوہ کہ رسول الله کے ارشادات کے مطابق پیشوا تھا بلکہ تمام مسلمانوں حتّیٰ کہ خود ان کی طرف سے منتخب ہوا تھا، ہم کیسے ان کے دامن سے ان ستر ہزار مسلمانوں کا خون دھوسکتے ہیں جو جنگ جمل میں مارے گئے، جو شخص کسی ایک گناہ کا خون بہادے وہ بھی دربارِ الٰہی میں کوئی عذر پیش نہیں کرسکے گا چاہے کوئی بھی ہو چہ جائیکہ اتنی کثیر تعداد کا خون۔
کیا اصولی طور پر جنگ جمل کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اور دوسری طرف طلحہ وزبیر اور دوسرے صحابہ جو ان کے ساتھ تھے طرفین کو بیک وقت حق پر قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی منطق اور عقل اس واضح تضاد کو قبول کرسکتی ہے؟ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ تقدّس صحابہ کے نام پر آنکھیں بند گرلیں اور انھیں ہر قانون سے بالاتر سمجھ لیں، رسول الله کے بعد تمام تر تاریخِ اسلام فراموش کردیں اور اسلامی ضابطہ ”انّ اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم“ (الله کے نزدیک زیادہ محترم وہ ہے جو زیادہ متقی ہے) کو پامال کردیں؟ یہ کیسا غیر منطقی فیصلہ ہے؟
اصولی طور پر اس امر میںکیا مانع اور رکاوٹ ہے کہ ایک شخص یا چند اشخاص ایک دن بہشتیوں کی صف میں کھڑے ہوں اور حق کے طرفدار ہوں اور دوسرے دن دوزخیوں اور حق دشمنوں کی صف میں شامل ہوجائیں؟
کیا سب لوگ معصوم ہیں؟ کیا ہم نے ایسی تبدیلیاں اور اختلافاتِ نظر لوگوں کے حالات میں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے؟ کیا ”واقعہ ردّہ“ رسول الله کے زمانے میں رونما نہیں ہوا جبکہ اصحاب پیغمبر میں سے کچھ لوگ مرتد ہوگئے تھے؟ کیا یہ واقعہ شیعہ سنی کتب میں منقول نہیں ہے؟ کیا یہ مرتد ہونے والے صحابہ کی صف میں شامل نہیں تھے؟
زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے اس تضاد اور عجیب کشمکش سے بچنے کے لئے بعض نے ”اجتہاد“ کو دستاویز بنارکھا ہے، وہ کہتے ہیں طلحہ، زبیر، معاویہ، ان کے ساتھی اور ان جیسے افراد مجتہد تھے، ان سے اشتباہ اور غلطی تو ہوئی ہے لیکن ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا بلکہ ان اعمال کے بدلے میں وہ خدا سے اجر وثواب پائیں گے۔
واقعاً کیسی رسوا کنند منطق ہے، کیا جانشینِ پیغمبر کے خلاف قیام کرنا، عہدوپیمان توڑنا اور ہزاروں بے گناہوں کا خون بہانا وہ بھی جاہ طلبی اور مال ومقام کے حصول کے لئے ایسا پیچیدہ اور نامعلوم معاملہ ہے کہ جس کی قباحت اور برائی سے کوئی شخص با خبر نہیں ؟ کیا اتنے بے گناہوں کا خون بہانے پر بھی خدا کے ہاں سے اجر وثواب ملے گا؟
اگر اس طرح سے ہم چاہیں کہ کچھ صحابہ کو جو ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے ہیںبری الذمہ قرار دیں تو یقیناً دنیا می کوئی گنہگار باقی نہیں رہے گا اور اس منطق کے ذریعے ہم تمام قاتل اور ظالم افراد کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔
صابہ کے ایسے بے سوچے سمجھے فاع سے حقیقت اسلام پر حرف آتا ہے لہٰذا اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیںکہ سب کے لئے خصوصاً اصحابِ پیغمبر کے لئے ہم عزت واحترام کے قائل تو ہوں مگر اس دن تک جب تک وہ حق وعدالت اور اسلامی مشن سے منحرف نہ ہوں۔
۳۔ میراث، اسلامی نظام قانون میں: جیسا کہ سورہٴ نساء کی تفسیر میںہم اشارہ کرچکے ہیں زمانہٴ جاہلیت میں عربوں کے ہان میراث کے تین طریقے تھے، ایک نسب کا طریقہ (ان کے ہاں نسب صرف اولادِ مذکورہ کے لئے تھا، چھوٹے بچّے اور عورتیں میراث سے محروم رہتے تھے) دوسرا ان کے ہاں متبنیٰ

(بے پالک) کا طریقے تھے تیسرا طریق عہدو پیمان کا تھا جسے ”ولاء“ کہا جاتا تھا۔(۱)
ابتدائے اسلام میں جبکہ ابھی میراث کا قانون نازل نہیںہوا تھا اسی طریقے پر عمل ہوتا تھا یک جلد ہی اس کی جگہ ”اخوتِ اسلامی‘’‘ نے لے لی اور صرف مہاجرین وانصار جنھوں نے ایک دوسرے سے پیمانِ اخوت باندھ رکھا تھا ایک دوسرے کی میراث لیتے تھے، ایک عرصے کے بعد جب اسلام میںزیادہ وسعت پیدا ہوگی تومیراث نسبی اور سببی رشتہ داروں کی طرف منتقل ہوگی اور میراث کے بارے میں اخوتِ اسلامی کا حکم منسوخ ہوگیا اور میراث کا !ری اور اصلی قانون نازل ہوا کہ جس کی طرف مندرجہ بالا آیات اور سورہٴ احزاب کی آیہ۶ میں ارشاد ہوا ہے، سورہٴ احزاب کی آیت ۶ میں ہے:
<وَاٴُوْلُو الْاٴَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اٴَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللهِ
یہ سب چیزیں تاریخی لحاظ سے مسلم ہیں لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں لفظ ”وَاٴُوْلُوا الْاٴَرْحَام“ جو محل بحث آیات میں آیا ہے مسئلہ میراث ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع معنی کے لئے کہ میراث جس کا ایک جزء ہے۔(۲)
مختلف احتمالات ذکرکئے ہیں لیکن جو چیز مفہومِ آیت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے یہ ہے کہ ”فتنہ“ سے مراد اختلاف وانتشار اور مسلمانوں کے عقائد کی بنیادوں کو دشمنوں کے وسوسوں کے زیرِ اثر متزلزل ہونا ہے اور ”فساد“ کے مفہوم میں ہر طرح کی بے سروسامانی اور معاشرے کے مختلف نظاموں کی خرابی شامل ہے خصوصاً بے گناہوں کے خون بہہ جانے اور بدامنی وغیرہ کے مفہوم میں شامل ہے۔
در حقیقت قرآن مجید مسلمانوں کو تنبیہ کررہا ہے کہ اگر وہ آپس میں ارتباط وتعاون اور برادری کے رشتے کو محکم اور مضبوط نہیں بنائیں گے اور دشمنوں سے تعلق اور ہمکاری ترک نہیں کریں گے تو دن بدن ان کی صفوں میں اختلاف وانتشار زیادہ ہوگا، دشمنوں کا نفوذ اسلامی معاشرے میں زیادہ ہوگا اور ان کے تباہ کن وسوسوںسے ایمان کی بنیادیں کمزور اور متزلزل ہوجائیں گی اور اس طرح سے انھیں ایک عظیم فتنہ آلے گا۔
اسی طرح محکم ومضبوط معاشرتی ارتباط اور رشتے نہ ہونے کے باعث اور ان کی صفوںمیں دشمنوں کی رخنہ انندازی کے سبب طرح طرح کے مفاسد، بدامنی، خون ریزی، مال واولاد کی تباہی اور معاشرے کی بے سروسامانی کا سامانا کرنا پڑے گا اور فسادِ کبیر تمام جگہوں پر چھاجائے گا۔
پروردگارا!
ہمارے اسلامی معاشرے کو بیداری عطا فرما۔
مسلمانوں کو دشمنوں کے ساتھ ربط، تعلق اور ہمکاری کے خطرات سے آگاہ فرما۔
اور خود آگاہی اور وحدتِ کلمہ کے سائے میں ہمار ے معاشرے کو ”فتنہ وفساد“ سے پاک کردے۔

 


۱۔ ولاء کے طریقے سے میراث کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد سوم صفحہ۲۶۶ پر تفصیل سے بحث کی جاچکی ہے۔
۲۔ میراث کے بارے میں بھی تفسیر نمونہ جلد سوم صغحہ۲۰۹ سے ۲۲۳ تک تفصیلی بحث کی جاچکی ہے۔
چند اہم نکاتسورہٴ برائت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma