معیارِ فضیلت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
مسجدیں آباد رکھنا ہر کسی کے بس میں نہیںدو اہم نکات

ان آیات کی اگرچہ مخصوص شان نزول ہے تاہم یہ گذشتہ آیات کی بھی تکمیل کرتی ہیں اور ایسی شان مثالیں قرآن مجید میں بہت سی ہیں ۔
پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: کیا خانہ خدا کے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد الحرام کی تعمیر کرنے کو اس شخص کے کام طرح قرار دیتے ہو جو خدا اور روزِ جزا پر ایمان رکھتا ہے اور روہِ خدا میں جہاد کرتا ہے، یہ دونوں خدا کے ہاں کسی طرح بھی برابر اور یکساں نہیں ہیں اور خدا ظالم وستمگر کو ہدایت نہیں کرتا (اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاھَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لَایَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ) ۔
”سقایة“ مصدر بھی ہے جس کا معنی پانی دینا اور اس وسیلے اور پیمانے کے معنی میں بھی ہے جس سے پانی پلاتے ہیں (جیسا کہ سورہٴ یوسف آیہ۷۰ میں آیا ہے) نیز یہ بڑے برتن یا حوض کے معنی میں بھی آیا ہے کہ جس میں پانی ڈالتے ہیں، مسجد الحرام میں زمزم اور خانہ کعبہ کے درمیان ایک جگہ ہے جو ”سقایة العباس“ کے نام سے مشہور ہے وہ یہاں ایک بڑا برتن رکھ دیتے تھے کہ جس میں سے حاجی پانی لیتے تھے ۔
تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہٴ اسلام سے پہلے ”سقایة الحاج“ کا منصب خانہ کعبہ کی کلید برداری کے منصب کے ہم پلّہ تھا اور اہم ترین منصب شمار ہوتا تھا ۔
ایّام حج میں حاجیوں کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے جبکہ وہ سرزمین بھی ایسی ہے جہاں خشک اور جلادینے والی گرمی ہے جہاں پانی کم ہے اور سال کے زیادہ تر دنوں میں جہا گرم ہوا چلتی رہتی ہے، اس سے ”سقایة الحاج“ کے منصب کی خاص اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور جو شخص اس معاملے کا سرپرست ہوتا وہ فطری طور پر مقام وحیثیت کا حامل ہوتا کیونکہ حاجیوں کی خدمت ایک زندہ خدمت شمار ہوتی تھی ۔
اسی طرح مسجد الحرام کی کلید برداری کا منصب رکھنے والے اور اس کی تعمیر وآبادی کی خدمت انجام دینے والے شخص یا اشخاص کا بے حد احترام کیا جاتا تھا کیونکہ زمانہٴ جاہلیت میں بھی مسجد الحرام کو مقدس ترین اور عظیم ترین مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔
ان تمام چیزو ںکے باوجود قرآن مجید کہتا ہے کہ خدا پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ان تمام کاموں سے برتر اور بالاتر ہے ۔
اگلی آیت میں تاکید اور توضیح کے طور پر فرمایا گیا ہے: جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انھوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مال وجان سے راہِ خدا میں جہاد کرچکے ہیں وہ بارگاہ خداوندی میں برتر اور عظیم تر مقام رکھتے ہیں (الَّذِینَ آمَنُوا وَھَاجَرُوا وَجَاھَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِھِمْ وَاٴَنفُسِھِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْفَائِزُونَ) ۔
اگلی آیت میں خدا ان تین اہم کاموں (ایمان، ہجرت اور جہاد) کے بدلے میں ان کے لئے تین اہم انعام بیان کرتا ہے:
۱۔ انھیں اپنی وسیع رحمت کی بشارت دیتا ہے (یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْہُ) ۔
۲۔ انھیں اپنی رضامندی اور خوشنودی سے بہرہ مند کرتا ہے (وَرِضْوَانٍ) ۔
۳۔ جنت کے ایسے باغات ان کے اختیار میں دے دیتا ہے کہ جن کی نعمتیں دائمی ہیں (وَجَنَّاتٍ لَھُمْ فِیھَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ) ۔
اگلی آیت میں زیادہ تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: وہ ہمیشہ کے لئے ان میں رہیں گے (خَالِدِینَ فِیھَا اٴَبَدًا) ۔ کیونکہ خدا کے پاس عظیم واجر وثواب ہے کہ جو وہ بندوں کے اعمال کے بدلے میں انھیں بخشے گا (إِنَّ اللهَ عِنْدَہُ اٴَجْرٌ عَظِیمٌ) ۔

 

مسجدیں آباد رکھنا ہر کسی کے بس میں نہیںدو اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma