بیہودہ باتیں کرنے والے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
شان نزول شان نزول

بیہودہ باتیں کرنے والے

گذشتہ آیت میں بیہودہ مشرکین کی عملی منطق کا ایک نمونہ بیان کیا گیا ہے۔ اب زیر نظر آیات میں ان کی فکری منطق کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ نہ وہ سلامت فکری رکھتے ہیں نہ درست روی بلکہ ان کے تمام پروگرام بے بنیاد اور احمقانہ ہیں۔
پہلی آیت میں قرآن کہتا ہے: جب ہماری آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ہم نے سن لیا ہے (لیکن کوئی اہم بات نہیں ہے) ہم چاہیں تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں (وَإِذَا تُتْلَی عَلَیْھِمْ آیَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَا)۔
ان میںکوئی خاص بات نہیں بس گذشتہ لوگوںکے افسانے ہیں(إِنْ ھٰذَا إِلاَّ اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ)۔
یہ باتیںوہ اس حالت میں کررہے ہیں کہ جب قرآن کے مقابلے کی بارہا فکر کرچکے ہیں اور اس سے عاجز رہ گئے ہیں۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان میں قرآن کے مقابلے کی طاقت اور سکت نہیں ہے لیکن تعصب اور کینہ پروری کی وجہ سے یا ان لوگوں کو غفلت میں رکھنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ آیات کوئی اہم نہیں ہیں، ایسی آیات توہم بھی لاسکتے ہیں لیکن لاکبھی نہیں سکتے، یہ ان کی غلط منطق تھی۔ تاریخ کے جابر لوگوں کی طرح خالی اور بں بنیاد دعووں کے ذریعے ان کی کوشش تھی کہ ان کے اقتدار کے محل چند تک قائم رہیں ہیں۔
اگلی آیت میں ان کی ایک اور عجیب مطنق بیان کی گئی ہے، فرمایا گیا ہے: وہ وقت (یاد کرو) جب (وہ دستِ دعا بلند کرتے تھے اور) کہتے تھے خداوندا! اگر یہ (دین اور قران) حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو آسمان سے ہمارے سروں پر پتھر برسا (وَإِذْ قَالُوا اللهُمَّ إِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاٴَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ)۔ یا ہمیں کسی دردناک عذاب میں مبتلا کردے(اٴَوْ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ)۔
یہ بات وہ اس لئے کہتے تھے کہ شدید تعصب اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ان کا خیال تھا کہ دین اسلام سو فیصد بے بنیاد ہے ورنہ جس شخص کواس کی حقانیت کا احتمال بھی ہو وہ خود پر اس طرح کی پھٹکار نہیں بھیجتا۔ یہ احتمال بھی ہے کہ شاید مشرکین کے سرکردہ افراد لوگوں کوغفلت میں رکھنے کے لئے کبھی کبھی ایسی باتیں کرتے تھے تاکہ سادہ لوح افراد سمجھیں کہ محمد کا دین بالکل باطل ہے حالانکہ دل سے وہ ایسا نہیں کہتے تھے۔
گویا مشرکین چاہتے تھے کہ یہ کہیں کہ تم گذشتہ انبیاء کے بارے میں کہتے ہو کہ خدا ان کے دشمنوں کو بعض اوقات پتھروں کی بارش برساکر سزا دیتا تھا (جیسے حضرت لوط(علیه السلام) کی قوم کے ساتھ ہوا) تم اگر سچ کہتے ہو تو ایسا کردکھاوٴ۔
مجمع البیان میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
رسول الله، غدیر خم میں جب حضرت علی علیہ السلام کو خلافت کے لئے معیّن اور منصوب کرچکے اور فرمایا:
”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“
جس کسی کا میںمولا ہوں پس اس کا علی بھی مولا ہیں۔
آپ کا یہ فرمان ہر طرف پھیل گیا۔ ( منافقین میں سے ایک شخص)نعمان بن حارث فہری (تھا، وہ ) پیغمبر اسلام کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا: ہم سے آپ نے کہا کہ ہم توحید کو قبول کریں اور بتوں کی نفی کی شہادت دیں اور آپ کی رسالت کی گواہی دیں اور آپ نے ہمیں جہاں، حج، روزہ اور زکات کا حکم دیا، ہم نے ان سب کوقبول کرلیا لیکن آپ نے اس پر بس نہ کی اور اس لڑکے (حضرت علی بن ابی طالب) کو خلیفہ بناکر آپ نے کہا ہے کہ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“ یہ بات آپ کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے حکم ہے؟
پیغمبر خدا نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہ خدا کی طرف سے حکم ہے۔
یہ سُن کر نعمان یہ کہتے ہوئے پلٹا:
”اللّٰھمّ ان کان ہذا ھو الحق من عندک فاطر علینا حجارة من السماء“
خداوندا! اگر یہ بات تیری طرف سے ہے تو آسمان ہم پر پتھروں کی بارس برسا۔
تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ اس پر ایک پھ۔تھر گرا کہ جس سے وہ مرگیا۔(۱)
یہ حدیث اس بات کے منافی نہیں کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے پہلے نازل ہوئی ہو کیونکہ اس آیت کی شان نزول نعمان کا واقعہ نہیں تھا بلکہ نعمان نے اپنے اوپر پھٹکار کے لئے وہ آیت استعمال کی جو پہلے نازل ہوچکی تھی، جیسے ہم قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”ربّنا آتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرة حسنة“
(انشاء الله العظیم مندرجہ بالا حدیث کی مزید تشریح اور کتب اہل سنّت سے اس سلسلے میں بہت سے مدارک کا ذکر سورہٴ معارج کی ابتداء میں ”سَئَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ“ کے ذیل میں آئے گا۔
گذشتہ آیات کے سلسلے میں مخالفین نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم پر دو اعتراضات کئے، ان میںسے ایک کا بطلان تو واضح تھا لہٰذا قرآن نےاس کا جواب نہیں دیا اور وہ یہ تھا کہ انھوںنے کہا: اگر ہم چاہیں تو قرآن کی مثل لاسکتے ہیں، کہ یہ دعویٰ کھوکھلا اور جھوتا تھا اور اگر ان میں سکت ہوتی تو لائے ہوتے لہٰذا اس بات کے جواب کی ضرورت نہ تھی۔
ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر یہ آیات حق ہیں اور خدا کی طرف ہیں تو پھر وہ ہمیں سزا دے اور ہم پر کوئی عذاب نہیں کرے گا جب تک تو ان میں موجود ہے (وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاٴَنْتَ فِیھِمْ)۔در حقیقت تیرا پر برکت وجود۔کہ تو رحمتہ للعالمین ہے ۔ اس سے مانع ہے کہ ان گنہ گاروں پر عذاب نازل ہو اور یہ گذشتہ اقوام کی طرح نابود ہو جائیں کہ جو مختلف ذرائع سے اجتماعی یا انفرادی طور پر نابود ہوجاتے تھے۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے:اسی طرح اگر وہ استغفار کیں (اور اس سے عفو و بخشش کا تقاضا کریں )تو خدا انھیں سزا نہیں دے گا (وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُون)۔
اس جملے کی تفسیر میں مفسریں نے کئی ایک احتمالات پیش کیے ہیں ۔بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بعض مشرکین قبل کی آیت میں مذکور جملہ کہنے کے بعد اپنے کہے پر پشیمان ہوئے اور عرض کیا ؛
”غفرانک ربنا“
خدایا !ہمیں اگفتگو پر بخش دے۔
اسی سبب سے---حتی کہ پیغمبر خدا کے مکہ سے خروج کے بعد بھی وہ بلا و فنا میں گرفتار نہیں ہوئے۔
بعض کا خیال ہے کہ یہ جملہ مکہ میں باقی رہ جانے والے مومنین کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہجرت پیغمبر پیغمبر کے بعد مکہ پر عذابنازل نہ ہوا۔
یہ احتمال بھی ہے یہ جملہ ایک شرطیہ جملے کامفہوم رکھتاہو یعنی اگر وہ اپنے کردار پرپشیماں ہوںاور خداوندی کا رخ کریں اور استغفار کریں تو ان سے عذاباور سزا برطرف ہوجائے گا۔
ان تمام امور کے باوجود آیت کی تفسیر میں یہ تمام احتمالات مجموعی طور پر بعید نہیں ہیں یعنی ممکن ہے آیت ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ کررہی ہو۔
بہرحال آیت کا مفہوم زمانہٴ پیغمبرکے ساتھ مخصوص ہے بلکہ تمام لوگوں کے لئے یہ ایک کلی قانون ہو۔
اسی لئے شیعہ کتب میں حضرت علی علیہ السلام سے اور سنّ کتب میں ان کے شاگرد ابن عباس سے ایک مشہور حدیث میں ہے:
کان فی الارض امانان من عذاب الله وقد وقع احدھما فدونکم الآخر فتمسکووا بہ وقرء ہذہ الآیة-
روئے زمین میں عذابِ الٰہی سے مامون رہنے کے دوذریعے تھے کہ جن میں سے ایک (وجودِ پیغمبر) اٹھا لیا گیا ہے، اب دوسرے (استغفار) سے تمسک رکھو، پھر آپ نے یہ آیت کی تلاوت کی۔(2)
مندرجہ بالا آیت اور اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ سخت بلاوٴں اور مصیبت سے امان حاصل کرنے کے لئے لوگوںکے پاس وجودِ پیغمبر ایک موٴثر ذریعہ ہے اور اس کے بعد استغفار، توبہ اور درگاہِ حق کی طرف رُخ کرنا دوسرا عامل ہے۔
اب دوسرا عامل بھی اٹھ جائے تو دردناک عذاب اور سزائیں طبیعی حوادث کی صورت می ہوتی ہیں، یا گھروں کو تباہ وویران کردینے والی جنگوں کی شکل میں یا کسی اور صورت میں، جیسا کہ ہم اب تک ان کی مختلف قسمیں دیکھ چکے ہیں یا سُن چکے ہیں۔
دعائے کمیل جو حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے ، میں ہے:
اللّٰھمّ اغفر لی الذنوب الّتی تنزل البلاء-
خدایا! ہمارے وہ گناہ بخش دے جو نزولِ بلا کا سبب بنتے ہیں۔
یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ اگر استغفار نہ ہو تو بہت گناہ ایسے ہیں جونزولِ بلا کا سرچشمہ بن جائیں۔
اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ استغفار سے مراد یہ نہیں کہ یہ کہا جائے:
خدایا! ہمیں بخش دے
اللّٰھمّ اغفر لی-
ایسے جملوںکا تکرار استغفار کی روح ہے کہ انسان کی طرف سے لوٹ آئے اور اپنے گذشتہ گناہوں کی تلافی کے لئے آمادگی کا اظہار کرے۔
اگلی آیت میں قرآن کہتاہے: یہ عذابِ الٰہی کا استحقاق رکھتے ہیں تو پھر، ”خدا انھیں کیوںعذاب نہ کرے حالانکہ وہ مومنین کےلئے مسجد الحرام میں جانے سے رکاوٹ بنتے ہیں (وَمَا لَھُمْ اٴَلاَّ یُعَذِّبَھُمْ اللهُ وَھُمْ یَصُدُّونَ عَنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ)۔
اس زمانے کی طرف اشارہ ہے کہ جب مسلمان مکہ میں تھے اور مشرکین انھیں حق نہیں دیتے کہ وہ آزادانہ خانہٴ خداکے پاس نماز جماعت قائم کرسکیں اور مسلمانوں کی طرح طرح کی مزاحمتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا یا پھر یہ ان رکاوٹوں کی طرف اشارہ ہے جو ان کی طرف سے مومنین کو حج وعمرہ کے مراسم کی ادائیگی میں حائل تھیں۔
تعجب کی بات ہے کہ برائیوں میں آلودہ مشرکین اپنے آپ کو اس عظیم مرکزِ عبادت کا سرپرست سمجھتے تھے لیکن قرآن مزید کہتا ہے: یہ کبھی بھی اس مقدس مرکز کے سرپرست نہیں تھے (وَمَا کَانُوا اٴَوْلِیَائَہُ)۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو خانہٴ خدا کامتولی اور صاحبِ اختیار فرض کرتے تھے ”صرف وہی لوگ اس کی سرپرستی کا حق رکھتے ہیں جو موحّد اور پرہیزگارہیں“ (إِنْ اٴَوْلِیَاؤُہُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ)۔ لیکن ان میںسے اکثر واقعیت اور حقیقت سے بے خبر ہیں

(وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُونَ)۔
اگرچہ یہ مسجدالحرام کے بارے میں بیان کیا گیاہے لیکن در حقیقت تمام مراکز دینی، دینی مساجد اور مذہب اداروں پر محیط ہے، ان کے متولی اور سرپرست پاکیزہ ترین، پرہیزگار اور نہایت فعّال افراد ہونے چاہئیں تاکہ وہ انھیں تعلیم وتربیت اور بیداری وآگاہی کے پاک اور زندہ مراکز بنائیںنہ کہ ایسے مٹھی بھر جانبدار، خودفروش اور الود ہ افراد ہوں جوانھیں تجارتی اڈّہ اور افکار کی خرابی اور حق سے بے گانگی کے مرکز میں تبدیل کردیں۔
ہمارا نظریہ ہے کہ اگر مسلمان مساجد اور مذہبی مراکز کے بارے میں اسی اسلامی حکم پر عمل کرتے تو آج مسلم معاشروں کی کوئی اور ہی شکل ہوتی۔
زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ مدعی تھے کہ ان کی بھی نماز وعبادت ہے۔ وہ خانہٴ خدا کے گرد سیٹیاں اور تالیاں بجانے کا احمقانہ کام کرتے تھے اور اسے نماز کا نام دیتے تھے لہٰذا قرآن مزیدکہتا ہے: ان کی نماز خانہٴ خدا کعبہ کے گرد سیٹیاں اور تالیاں کے سوا اور کچھ نہ تھی

(وَمَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ إِلاَّ مُکَاءً وَتَصْدِیَةً)۔
تاریخ میں ہے کہ زمانہٴ جاہلیت میں کچھ ایسے عربی بدو تھے جو طواف کے وقت مادر زاد ننگے ہوجاتے تھے اور سیٹیاں بجاتے، تالیاں پیٹنے اور اسے عبادت کا نام دیتے تھے۔
نیز منقول ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم حجر اسودکے پاس شمال کی طرف منھ کرکے کھڑے ہوتے (تاکہ آپ کا رُخ کعبہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف ہوجائے) اور نماز ادا فرماتے تو بنی سہم کے دو شخص آنحضرت کے دائی بائیں کھڑے ہوجاتے، ایک چیختا چنگھاڑتا اور دوسرا تالیاں پیٹتا تاکہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی نماز خراب ہوجائے۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اب جبکہ تمھارے تمام کام یہاں تک کہ تمھاری نماز وعبادت ایسی احمقانہ، بُری اور شرمناک ہے تو تم سزا کے مستحق ہو ”پس اپنے اس کفر کی وجہ سے عذاب الٰہی کو چکھو“ (فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ)۔
جس وقت انسان عربوں کی زمانہٴ جاہلیت کی تاریخ کی ورق گردانی کرتا ہے اور اس کے ان حصّوں کا مطالعہ کرتا ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے تو بڑے تعجب سے دیکھتا ہے کہ ہمارے زمانے میں جو اصطلاحاً فضا اور ایٹم کا بھی زمانہ ہے، کئی ایسے لوگ ہیں جو زمانہٴ جاہلیت کے اعمال دُہراتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو عبادت کرنے والوں کی صف میں خیال کرتے ہیں، قرانی آیات اور بعض اوقات وہ اشعار جو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت علی علیہ السلام کی مدح میں ہیں کو موسیقی کی دُھنوں میں ملاکر رقص کی طرح اپنا سر، گردن اور ہاتھ ہلاتے ہیں، پھر اسے ان مقدسات کی خدمت میں خراج عقیدت قرار دیتے، یہ اعمال کبھی وجدوسماع کے نام پر، کبھی ذکر وحال کے نام پر اور کبھی دوسرے ناموں پر خانقاہوں اور دیگر مقامات پر انجام پاتے ہیں، حالانکہ اسلام ان باتوں سے بیزار ہے اور یہ اعمال زمانہء جاہلیت کے اعمال ہی کا نمونہ ہیں۔
یہاں پر ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ زیر بحث آیت میں ان سے سزا اور عذاب کی (دوشرائط کے ساتھ) نفی کی گئی ہے جب کہ چوتھی آیت میں ان کے لئے عذاب کا ذکر ہے تو کیا یہدونوں آیات آپس میں تضاد نہیں رکھتی ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ تیسری آیت میں دنیاوی سزاوٴں کی طرف اشارہ ہے اور چوتھی آیت میں ممکن ہے دوسرے جہان کی سزا کی طرف اشارہ ہو اور یا اس طرف اشارہ ہو کہ یہ گروہ اس دنیا میں سزا کا استحقاق رکھتا ہے اور اس کاسبب ان کے لئے فراہم ہے اور اگر پیغمبر ان کے درمیان سے اٹھ جائیں اور یہ توبہ بھی نہ کریں تو وہ عذاب انھیں دامنگیر ہوگا۔

 

۳۶- إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یُنْفِقُونَ اٴَمْوَالَھُمْ لِیَصُدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللهِ فَسَیُنفِقُونَھَا ثُمَّ تَکُونُ عَلَیْھِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُونَ وَالَّذِینَ کَفَرُوا إِلیٰ جَھَنَّمَ یُحْشَرُونَ
۳۷- لِیَمِیزَ اللهُ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَیَجْعَلَ الْخَبِیثَ بَعْضَہُ عَلیٰ بَعْضٍ فَیَرْکُمَہُ جَمِیعًا فَیَجْعَلَہُ فِی جَھَنَّمَ اٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْخَاسِرُونَ
ترجمہ
۳۷۔ جو کافر ہوگئے ہیں وہ اپنے اموال لوگوں کو راہِ خدا سے روکنے کے لئے خرچ کرتے ہیں، وہ ان اموال کو (جنھیں حاصل کرنے کے لئے زحمت اٹھاتے ہیں اس راہ میں) خرچ کرتے ہیں لیکن یہ ان کے لئے حسرت واندوہ کا سبب ہوگا اور پھر وہ شکست کھاجائیں گے اور (دوسرے جہان میں یہ) کافر سب کے سب جہنم کی طرف جائیں گے۔
۳۷۔ (یہ سب کچھ) اس لئے ہے کہ خدا (چاہتا ہے کہ) ناپاک کو پاک سے جدا کردے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر متراکم کردے اور دوزخ میں ایک ہی جگہ قرار دے اور یہ ہیں زیاںکار۔

 


۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۱۵۱-
2۔ نج البلاغہ، کلمات قصار-
شان نزول شان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma