سننے والے بہرے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
تفسیردو اہم نکات

یہ آیات گذشتہ مباحث کے تسلسل میں آئی ہیں، اور یہ مسلمانوں کو جنگ، صلح اوردیگر تمام امور میں پیغمبرِ خدا کی مکمل اطاعت کی دعوت کے سلسلے میں ہیں۔ آیات کہ لب ولہجہ نشاندہی کرتا ہے کہ اس سلسلے میں بعض مومنین نے اپنے فرض میں کوتاہی کی تھی۔ لہٰذا پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: اے ایمان والو! الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَرَسُولَہُ)۔
دوبارہ تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: اور اس کے حکم کی اطاعت سے کبھی روگردانی نہ کرو جب تک تم اس کی باتیں اور اوامر ونواہی سنتے ہو

(وَلَاتَوَلَّوْا عَنْہُ وَاٴَنْتُمْ تَسْمَعُونَ)۔
اس میں شک نہیں کہ حکم خدا کی اطاعت سب پر لازم ہے چاہے کوئی مومن ہو یا کافر لیکن چونکہ پیغمبر کے مخاطب اور ان کے تربیتی پروگراموں میں شرکت کرنے والے مومنین تھے لہٰذا یہاں رُوئے سخن ان کی طرف ہے۔
اسی سلسلے کی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ان لوگوں کی مانند نہ ہوجاوٴ جو کہتے تھے کہ ہم نے سنا لیکن در حقیقت وہ نہیں سنتے تھے (وَلَاتَکُونُوا کَالَّذِینَ قَالُوا سَمِعْنَا وَھُمْ لَایَسْمَعُونَ)۔
یہ بہت عمدہ اور جاذب نظر تعبیر ہے جو قرآن نے ایسے لوگوں کے بارے میں استعمال کی ہے جو جانتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے، سنتے ہیں مگر اثر نہیں لیتے اور ظاہراً مومنین کی سف میں شامل ہیں لیکن مطیعِ فرمان نہیں ہیں، فرمایا گیا ہے کہ وہ سننے والے کان رکھتے ہیں، الفاظ اور باتیں سنتے ہیں اور ان کے معانی بھی سمجھتے ہیں لیکن چونکہ ان کے مطابق عمل نہیں کرتے تو گویا بالکل بہرے ہیں چونکہ یہ سب کچھ تو عمل کے لئے تمہید ہے اور جب عمل نہیں تو تمہید بے فائدہ ہے۔
اس سلسلے میں کہ یہ کون لوگ تھے جن کی یہ صفت قرآن بیان کررہا ہے اور مسلمانوں کو ہوش میں رہنا چاہیے کہ وہ ان جیسے نہ بن جائیں بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد وہ منافق ہیں جو مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے ہوئے تھے، بعض کہتے ہیں کہ یہودیوں کے ایک گروہ کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے اسے مشرکینِ عرب کی طرف اشارہ سمجھا ہے لیکن کوئی مانع نہیں کہ آیت کے مفہوم میں ان تینوں گروہوں کے وہ افراد شامل ہوں جو عمل کے بغیر باتیںکرنے والے ہوں۔
گفتار عمل کے بغیر اور سننا تاثیر کے بغیر انسانی معاشروں کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور بہت سی بدبختیوں کا سرچشمہ ہے لہٰذا دوبارہ اگلی آیت میں بھی یہ سلسلہٴ کلام جاری ہے اور ایک دوسرے خوبصورت انداز میں فرمایا گیا ہے: زمین پر چلنے والوں میں سے خدا کے نزدیک بد بترین وہ ہیں جو نہ سننے والے کان رکھتے ہیں نہ بولنے والی زبان اور نہ ہی عقل وادراک، وہ بہرے، گونگے اور بے عقل ہیں (إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِینَ لَایَعْقِلُونَ)۔(۱)
قرآن چونکہ ایک کتابِ عمل ہے کوئی رسمی کتاب نہیں لہٰذا وہ ہر جگہ نتائج کا سہارا لیتی ہے اور اصولی طور پر ہر بے خاصیت موجود کو معدوم سمجھتی ہے،ہر بے حرکت وبے اثر زندہ کومردہ قرار دیتی ہے اور انسان کا ہر عضو جو اس کی ہدایت وسعادت کے راستے میں کارآمد نہ ہو اسے نہ ہونے کے برابر شمار کرتی ہے۔ اس آیت میں بھی ان اشخاص کو ظاہراً صحیح وسالم کان رکھتے ہیں لیکن ان کان آیات خدا، کلامِ حق اور سعادت بخش پروگراموں کو سننے پر آمادہ نہیں، انھیں بہرہ قرار دیتی ہے اور اسی طرح جو لوگ صحیح وسالم زبان رکھتے ہیں لیکن مہر سکوت ان کی زبان پر لگی ہوئی ہے نہ حق کا دفاع کرتے ہیں، نہ ظلم وفساد کا مقابلہ کرتے ہیں، نہ جاہل کو ارشاد کرتے ہیں، نہ امر بالمعروف کرتے ہیں، نہ نہی عن المنکر کرتے ہیں اور نہ ہی راہِ حق کی طرف دعوت دیتے ہیں بلکہ اس عظیم خدائی نعت کو صاحبان زور روز کی چاپلوسی یا تحریفِ حق اور تقویتِ باطل میں استعمال کرتے ہیں، ایسے افراد کو گونگا شمار کرتی ہے اور وہ ہوش وعقل کی نعمت سے بہرہ مند تو ہوتے ہی لیکن صحیح غور وفکر نہیں کرتے انھیں دیوانوں میں شمار کرتی ہے۔
اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: خدا تمھیں حق کی دعوت دینے میں کوئی مضائقہ نہیں جانتا، اگر وہ مائل ہوتے اور خدا اس لحاظ سے ان میں خیر وبھلائی دیکھتا تو جیسے بھی ہوتا ان تک حق بات پہنچاتا (وَلَوْ عَلِمَ اللهُ فِیھِمْ خَیْرًا لَاٴَسْمَعَھُمْ)۔
کچھ روایات میں آیا ہے کہ ہٹ دھرم بت پرستوں کی ایک جماعت پیغمبرخدا کے پاس آئی، یہ لوگ کہنے لگے: ہمارے جد بزرگ قصی بن کلاب کو زندہ کردو اور وہ تمھاری نبوت کی گواہی دے تو ہم سب تسلیم کرلیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ یہی بات حقیقت کے طور پر کہتے تو خدا یہ کام معجز نمائی کے طور پر انجام دے دیتا لیکن یہ جھوٹ بولتے ہیں اور ان کا ہدف قبولِ حق سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور اگر اس حالت میں خدا ان کی درخواست قبول کرلے اور حق بات اس سے زیادہ ان کے کانوں تک پہنچائے یا ان کے جد قصی بن کلاب کو زندہ کردے اور یہ اس کی گواہی سُن لیں پھر بھی یہ روگردانی کریں گے اعراض کئے رہیں گے (وَلَوْ اٴَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوا وَھُمْ مُعْرِضُونَ)۔
یہ جملے ایسے لوگوں کے بارے میں ہیں جنھوں نے بارہا حق کی باتیں سنی ہیں اور قرآن کی روح پرور آیات اُن کے کانوں تک پہنچی ہیں اور انھوں نے ا ن کے مضامین ومفاہیم کو سمجھا ہے مگر پھر بھی تعصب اور ہٹ دھر می سے کام لیتے ہوئے ان کا انکار کرتے ہیں، ایسے افراد اپنے اعمال کی وجہ سے ہدایت کا صلاحیت گنوا بیٹھے ہیں اور اب خدا اور اس کے پیغمبر کو ان سے کوئی سرورکار نہیں۔
یہ آیت ایسے جبری مذہب کے پیروکاروں کے لئے دندان شکن جواب ہے، یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ تمام سعادتوں کا سرچشمہ خود انسان ہے اور خدا کوبھی لوگوں کی اہلیت کے لحاظ سے ہی ان سے سلوک کرتا ہے۔

 


۱۔ ”صم“ ”اٴصم“ کی جمع ہے، اس کے معنی ہیں ”بہرے“ ”بکم“ ”اٴبکم“ کی جمع ہے، اس کے معنی ”گونگے“-
تفسیردو اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma