ابن عباس اور دوسرے صحابہ سے منقول ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں جنگ تبوک کے بارے میں اس وقت نازل ہوئیں جب پیغمبر اکرم طائف سے مدینہ کی طرف لوٹے اور لوگوں کو رومیوں سے جنگ کرنے پر آمادی کیا ۔
اسلامی روایات میں آیا یے کہ رسول اللہ عام طور پر جنگ کی بنیادی باتیں اور تفصیلات مسلمانوں کے سامنے واضح نہیں کیا کرتے تھے تاکہ اسلام کے فوجی راز دشمنوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں لیکن تبوک کے معاملے کی صورت مختلف تھی لہذا پہلے سے آپ نے انہیں بتایا کہ ہم رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے جارہے ہیں کیوں کہ مشرقی روم کی سلطنت سے جنگ مشرکین مکہ یا یہود خیبر سے جنگ کی طرح کوئی آسان کام نہ تھا لہٰذا ضرورت تھی کہ مسلمان اس عظیم مشکل کے لئے پوری طور پر اپنے آپ کو تیار کریں ۔
علاوہ ازیں مدینہ اور سرحد روم کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا مزید برآں گرمی کا موسم تھا اور غلوں اور پھلوں کی فصل کی کٹائی کے دن بھی تھے ۔
یہ تمام امور یکجا ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے میدان جنگ کی طرف جانا بہت زیادہ مشکل ہوگا تھا، یہاں تک کہ بعض رسول اللہ کی دعوت پر لبیک کہنے میں متردد تھے اور گنگوں کی کیفیت میں تھے ۔
ان حالات میں مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور قاطع انداز میں سختی کے ساتھ مسلمان کو تنبیہ کی، اس کیفیت کے خطرے سے انہیں خبر دار کیا اور انہیں اس عظیم معرکے کے لئے تیار کیا ۔(۱)
جیسا کہ ہم شان نزول میں کہہ چکے ہیںمندرجہ بالاآیات جنگ بتوک کے بارے میں ہیں ۔
تبوک مدینہ اورشام کے درمیان اےک علاقہ ہے جو آجکل سعودی سرحدشمار ہوتا ہے، اس زمانے میں مشرقی روم کے سرحد کے قرےب تھا ،وہ حکومت اس وقت شامات پر قابض تھی ۔ (۲)
یہ واقعہ نو ہجری یعنی فتح مکہ سے تقریبا ایک سال بعد رونما ہوا،مقابلہ چونکہ اس وقت کی ایک عالمی سو پر طاقت سے تھا نہ کہ عرب کے کسی چھوٹے بڑے گروہ سے لہٰذا بعض مسلمان اس جنگ میں شرکت سے خوف زدہ تھے، اس صورت حال میں منافقین کے زہریلے پراپیگنڈا اور وسوسوںکے لیے ماحول بالکل سازگار تھا اور وہ بھی مومنین کے دلوںاور جذبات کو کمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کر رہے تھے ۔
پھل اتارنے اورفصل کاٹنے کا موسم تھا، جن لوگوں کی زندگی تھوڑی سی کھتی باڑی اور کچھ جانور پالنے پر بسر ہوتی تھی یہ ان کی قسمت کے اہم دن شمار ہوتے تھے کیونکہ ان کی سال بھر کی گزر بسر انہی چیزوں سے وابستہ تھے ۔
جیسا کہ ہم آئے ہیں مسافت کی دوری اور موسم کی گرمی بھی روکنے والے عوامل کی مزید مدد کرتی تھی، اس موقع پر آسمانی وحی لوگوں کی مدد کے لے آپہنچی اور قرآنی آیات یکے بعد دیگرے نازل ہوئیں اوران منفی عوامل کے سامنے آکھڑی ہوئیں ۔
زیرے بحث پہلی آیت میں قرآن جس قدر ہو سکتی ہے اتنی سختی اور شددت سے جہاد کی دعوت دیتا ہے،کبھی تشویق سے، کبھی سرزنش کے لہجے میں اور کبھی دھمکی کی زبان میں ان سے بات کرتا ہے اور انہیں آمادی کرنے کے لئے ہر راستہ اختیار کرتاہے ۔
پہلے کہتا ہے: اے ایمان والو! جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں، میدان جہاد کی طرف حرکت کرو تو تم سستی کا مظاہرہ کرتے ہو اور بوجھل پن دکھاتے ہو( یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا مَا لَکُمْ إِذَا قِیلَ لَکُمْ انفِرُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الْاٴَرْضِ)
” اثَّاقَلْتُم“”ثقل“کے مادہ سے بوجھ کے معنی میں ہے،” اثَّاقَلْتُم إِلَی الْاٴَرْضِ“وطن میں رہ جانے کی خواہش اور میدان جہاد کی طرف حرکت نہ کرنے کے لئے کنایہ ہے یا پھر مادی زرق وبرق دنیا سے چمٹے رہنے کے لئے کنایہ ہے، دونوں صورتوں میں بہرحال مسلمانوں کے ایک گروہ کی یہ حالت تھی، سب ایسے نہ تھے، سچے مسلمانوں اور راہ خدا میں جہاد کے عاشقوں کی یہ حالت نہ تھی ۔
اس کے بعد ملامت آمیز لہجے میں قرآن کہتا ہے: کیا آخرت کی وسیع اور دائمی زندگی کی بجائے اس دنیاوی پست اور نا پائیدار زندگی پر راضی ہوگئے ہو
( اٴَرَضِیتُمْ بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَة) حالانکہ دنیاوی زندگی کے فوائد اور مال متاع آخرت کی زندگی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور بہت ہی کم ہے (ِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلِیل) ۔
ایک عقل مند انسان ایسے کھاٹے کے سودے پر کیسے تیار ہوسکتا ہے اور کیوں کر وہ ایک نہایت گراں بہا متاع اور سرمایہ چھوڑ کر ایک ناچیز اور بے وقعت متاع کی طرف جاسکتا ہے ۔
اس کے بعد ملامت کی بجائے ایک حقیقی تہدید کا انداز اختیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے:اگر تم میدان جنگ کی طرف حرکت نہیں کرو گے تو خدا درد ناک عذاب کے ذریعے تمہیں سزا دے گا( إِلاَّ تَنفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا) ۔
اور اگر تم گمان کرتے ہو کہ تمہارے کنارہ کش ہونے اور میدان جہاد سے پشت پھرنے سے اسلام کی پیشرفت رک جائے گی اور آئینہ الٰہی کی چمک ماند پڑ جائے گی تو تم سخت اشتباہ میں ہو کیوں کہ خدا تمہارے بجائے اسے صاحبان ایمان کو لے آئے گا جو عزم صمیم رکھتے ہوں گے اور فرمان خدا کے مطیع ہوں گے( وَیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ)، وہ لوگ کہ جو ہر لحاظ سے تم سے مختلف ہیں، نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ ان کا ایمان، ارادی، دلیری اور فرماں برداری بھی تم سے مختلف ہے لہٰذا ”اس طرح تم خدا اور اس کے پاکیزہ دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے“ (وَلَاتَضُرُّوہُ شَیْئًا) ۔
یہ ایک حقیقت ہے نہ کہ ایک خالی گفتگو یادور دراز کی آرزو کیوں کہ” وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے“اور جب وہ اپنے پاک آئین کی کامیابی کا ارادہ کرے گا تو اس میں کلام نہیں کہ اسے عملی جامہ پہنا دے گا( وَاللهُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر) ۔