دو قابلِ توجہ نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
چند قابلِ توجہ نکاتدو توجہ طلب نکات

۱۔ دوسرے دشمن کونسے تھے؟ مفسرین نے دوسرے گروہ سے متعلق کئی احتمالات ذکر کئے ہیں، بعض نے اسے مدینہ کے یہودیوں کے ایک گروہ کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ جو دشمنی کو چھپائے رکھتے تھے، بعض دوسرے مفسّرین نے مسلمانوں کے آئندہ دشمنوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے جیسا کہ رومی اور ساسانی سلطنتیں تھیں کہ جن سے جنگ کے متعلق ان دنوں مسلمانوں کو احتمال نہ تھا لیکن جو کچھ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ اس سے مراد منافق ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں ناشناختہ طور پر موجود تھے اور سپاہِ اسلام کی مکمل تیاری کی صورت میں وہ بھی پریشان ہوجاتے تھے اور اپنے ہاتھ پاوٴں سمیٹنے لگتے تھے، اس امر کی شاہد سورہٴ توبہ کی آیت ۱۰۱ ہے جس میں ہے:
<وَمِنْ اٴَھْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لَاتَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ
بعض اہلِ مدینہ نفاق اور دوزخی پالیسی میں جسور اور سرکش ہیں کہ جنھیں تم نہیں جانتے لیکن ہم انھیں جانتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے اسلام کے تمام چھپے ہوئے دشمن مراد ہوں چاہے وہ منافقین ہوں یا غیر منافقین۔
۲۔ دورِ حاضر کے لئے ایک حکم: آیت آج کے مسلمانوں کے لئے بھی اپنے اندر ایک حکم لئے ہوئے ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف اپنے ظاہری دشمنوں کو بھی نظر میں رکھو اور جس قدر طاقت وقوت لازمی ہے زیادہ سے زیادہ فراہم کرلو۔
اگر مسلمان فی الحقیقت اس نکتہ کو نظر میں رکھتے تو کبھی طاقتور دشمنوں کے غافلانہ حملوں کا شکار نہ ہوتے۔
آیت کے آخر میں ایک اور اہم موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ قوت وطاقت، سازوسامان، اسلحہ اور مختلف قسم کے ضروری دفاعی وسائل کے لئے سرمائے کی ضرورت ہے، لہٰذا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تمام افراد کے تعاون وہمکاری سے یہ مالی سرمایہ اکھٹا کریں، فرمایا گیا ہے: جان لو کہ جو کچھ تم راہ خدا میں خرچ کرتے ہو تمھیں پلٹادیا جائے گا (وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ)۔اور وہ سارے کا سارا تمھیں پہنچے گا اور تم پر کسی قسم کا ظلم نہیں گا (وَاٴَنْتُمْ لَاتُظْلَمُونَ)۔
یہ جزا تمھیں اس جہان کی زندگی میں بھی اسلام کی کامیابی اور شوکت وعظمت کی صورت میں ملے گی کیونکہ ایک کمزور قوم کا مالی سرمایہ بھی خطرے میں پڑجائے گا اور وہ اپنے امن وامان، راحت وآرام اور استقلال واستحکام کو بھی ہاتھ سے دے بیٹھے گی، اس بناپر وہ سرمایہ جو اس راہ میں صرف ہوگا وہ ایک راستے سے بالاتر سطح خرچ کرنے والوں کی طرف پلٹ آئے گا، نیز دوسرے جہاں میں رحمتِ پروردگار کے جوار میں عظیم ترین ثواب وجزا تمھارے انتظار میں ہوگی لہٰذا اس صورت میں نہ صرف یہ کہ تم پر ظلم وستم نہیں ہوگا بلکہ تمھیں بہت زیادہ فائدہ اور نفع بھی حاصل ہوگا۔
یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ مندرجہ بالا جملے میں لفظ ”شیء“ استعمال ہوا ہے جو ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے یعنی ہر قسم کی چیز چاہے وہ جان ہو یا مال، قوتِ فکر ہو یا قدرِ منطق یا کوئی بھی دوسرا سرمایہ مسلمانوں کی دفاعی اور فوجی بنیاد کی تقویت کے لئے دشمن کے مقابلے میں خرچ کیا جائے تو وہ خدا سے پوشیدہ نہیں رہے گا اور خدا اسے محفوظ رکھے گا اور بوقتِ ضرورت تمھیں دے گا۔
”واٴنتم لاتظلمون“ کے جملہ کی تفسیر میں بعض مفسّرین نے یہ احتمال بھی بیان کیا ہے کہ اس کا عطف ”ترھبون“ پر ہے یعنی اگر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی توانائی فراہم کولو تو وہ تم پر حملہ کرنے سے گھبرائیں گے اور تم پر ظلم کرنے کی قدرت ان میں نہیں ہوگی لہٰذا تم پر ظلم وستم نہیں ہوگا۔
جہادِ اسلامی کا مقصداور اس کے ارکان دوسرا نکتہ جو وزیر بحث آیت سے معلوم ہوتا ہے اور بہت سے سوالات اورمعترضین اور بے خبر لوگوں کے اعتراضات کاجواب ہوسکتا ہے وہ اسلامی جہاد کی صورت، ہدف اور پرگرام ہے، آیت واضح طور پر کہتی ہے کہ مقصد یہ نہیں ہے کہ انسانوںکو قتل کردو اور نہ ہدف یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالو بلکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اصل ہدف یہ ہے دشمن ڈریں اور وہ تم پر زیادتی نہ کریں، زبردستی کوئی بات نہ منوائیں، نیز تمھاری ساری کوشش کا نتیجہ خدا اور حق وعدالت کے دشمنوں کے شر کو کم کرنا ہو۔
کیا مخالفین جہاد اسلامی کے بارے میں قرآن کی اس صراحت کو نہیں سنتے کہ جو اِس آیت میں موجود ہے۔ یہ لوگ پے درپے اسلامی قانون پر حملہ کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کا دین ہے ، کبھی کہتے ہیںکہ اسلام اپنے عقیدے اور نظریے کو ٹھونسنے کے لئے ہتھیاروں کو ذریعہ بناتا ہے اور کبھی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی تاریخ کو کشور کشائی کرنے والوں سے تشبیہ دیتے ہیں، ہمارے نظریے کے مطابق پر ایسے سب اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ وہ قرآن کی طرف پلٹیں اور اس پروگرام کے اصلی ہدف پر غور وفکر کریں تاکہ ان پر تمام چیزیں واضح ہوجائیں۔
صلح کے آمادگی گذشتہ آیت میں اگرچہ اسلامی جہاد کے مقصد کو کافی حد تک نمایاں کرتی ہے تاکہ بعد والی آیت کہ جو دشمن سے صلح کے بارے میں بحث کرتی ہے اس حقیق تکو واضح کررہی ہے ، فرمایا گیا ہے: اگر وہ صلح کی طرف میلان ظاہر کریں تو تم بھی ان کا ہاتھ جھٹک نہ دو اور آما دگی ظاہر کرو

(وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا)۔
مندرجہ جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اگر وہ صلح کی طرف پَر پھیلائیں تو تم بھی اس کی طرف پَر پھیلاوٴ کیونکہ ”جَنَحُوا“ ”جنوح“کے مادہ سے مائل ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے اور پرندوں کے پروں کو بھی ”جناح“ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا ہر پر وبال ایک طرف مائل ہو تا ہے۔اس احتمال کے پیش نظرآیت کی تفسیر کے لئے اصل لغت سے بھی استفادہ ہوسکتا ہے اور اس لفظ کے ثانوی مفہوم سے بھی۔
چونکہ عام طور پر پیمانِ صلح پر دستخط کرتے وقت لوگ تردد میں گرفتار ہوجاتے ہیں لہٰذا پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ صلح کی تجویز قبول کرنے میں شک وتردد کو اپنے راہ نہ دو اگر اس کی شرائط منطقی، عاقلانہ اور عدلانہ ہوں تو انھیں قبول کرلو ”اور خدا پر توئکل کرو کیونکہ خدا تمھاری گفتگو بھی سنتا ہے اور تمھاری نیتوں سے بھی آگاہ ہے (وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ إِنَّہُ ھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ)۔
لیکن اس کے باوجود رسول الله اور مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے صلح کی تجاویز میں مکر وفریب بروئے کار لایا گیا ہو اور صلح کو دشمن اچانک حملے کے لئے مقدمہ کے طور پر استعمال کریں یاان کا مقصد جنگ میں تاخیر کرنے سے ، زیادہ قوت فراہم کرنا ہو تاہم اس امر سے پریشان نہ ہو کیونکہ خدا تمھارے کام کی کفایت کرے گا اور وہ ہر حالت میں تمھارا پشتی بان ہے (وَإِنْ یُرِیدُوا اٴَنْ یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللهُ)۔ تمھاری سابقہ زندگی بھی اس حقیقت پر گواہ ہے کیونکہ ”وہی ہے جس نے اپنی مدد سے اور پاک دل مومنین کی مدد سے تمھاری تقویت کی تھی (ھُوَ الَّذِی اٴَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ)۔ انھوں نے بارہا تمھارے لئے عظیم خطرے پیدا کئے اور ایسی خطرناک سازشیں کی کہ عام طریقے سے انھیں ناکام بنانا ممکن نہیں تھا لیکن اس نے ان تمام مواقع پر تمھاری حفاظت کی، علاوہ ازیں یہ مخلص مومنین کہ جو تمھارے گردو پیش تھے کسی قسم کی فداکاری سے دریغ نہیں کرتے، پہلے یہ بکھرے ہوئے اور ایک دوسرے کے دشمن تھے خدا نے ان پر نورِ ہدیات کا چھڑکاوٴ کیا ”اور ان کے دلوں کے اندر الفت پیدا کی (وَاٴَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ)۔
سالہا سال سے مدینہ میں اوس اور خزرج قبائل میں خونریزی جاری تھی اور ان کے بغض وعداوت سے بھر ہوئے تھے، حالت یہ تھی کہ کسی شخص کو یہ یقین نہ تھا کہ وہ کسی روز ایک دوسرے کی طرف دوستی اور محبت کا ہاتھ بڑھائیں گے اور ایک ہی صف میں شامل ہوں گے لیکن قادر متعال خدا نے اسلام کے پرتو اور نزولِ قرآن کے سائے میں یہ کام انجام دیا، اوس وخزرج کو جو انصار میں سے تھے انہی کے درمیان ایسی کشمکش نہ تھی بلکہ رسول الله کے مہاجر اصحاب جو مکہ سے آئے تھے وہ بھی اسلام سے پہلے ایک دوسرے سے الفت اور دوستی نہیں رکھتے تھے اور اکثر ان کے سینے ایک دوسرے کے لئے کینے سے بھرے رہتے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے ان سب کینوں کو دھوڈالا اور اس طرح ختم کردیا کہ بدر کے تین سو تیرہ مجاہدین کہ جن میں تقریباً اسی مہاجرین اور باقی انصار تھے اگرچہ ایک چھوٹا سا گروہ تھے لیکن وہ ایک جسم کی مانند ہوگئے اور ایک طاقتور اور متحد لشکر بن گئے کہ جس نے اپنے نہایت قوی دشمن کو شکست سے دوچار کردیا۔
اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس الفت اور دلوں کے رشتے قائم کرنا معمول کے مادی طریقوں سے ممکن نہ تھا ”اگر وہ تمام کچھ جو روئے زمین میں ہے تم خرچ کردیتے تو ان کے دلوں میں الفت ومبّت پیدا نہ کرسکتے (لَوْ اٴَنفَقْتَ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا مَا اٴَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ)۔
لیکن یہ خدا ہی تھا جس نے ان کے درمیان ایمان کی وجہ سے اور ایمان کے ذریعے الفت پیدا کردی (وَلَکِنَّ اللهَ اٴَلَّفَ بَیْنَھُمْ)۔
وہ لوگ جو ہٹ دھرم اور کینہ پرور افراد خصوصاً جاہل قوموں اور زمانہ جاہلیت کے سے لوگوں کی روحانی اور جذباتی کیفیت سے آشنا ہیں، جانتے ہیں کہ ایسے کینوں اور عداوتوں کو نہ تو مال ودولت سے دھویا جاسکتا ہے اور نہ جاہ ومقام سے، انھیں خاموش کرنے اور دبانے کی ایک راہ ہے اور وہ ہے انتقام، وہی انتقام جو لہرادار آواز کی صورت میں دُہرایا جائے گا اور ہر مرتبہ اس کا قبیح چہرہ زیادہ ہولناک ہوگا اور اس کا دامن زیادہ وسیع ہوتا چلا جائے گا، واحد چیز جو ان راسخ اور جڑ پکڑ لینے والے کینوں کو ختم کرسکتی ہے وہ افکار، خیالات اور نفوس میں پیدا ہونے والا ایک انقلاب ہے، ایسا انقلاب جو شخصیتوں کو تبدیل کردے، طرزِ افکار بدل دے اور جس سے لوگ اپنی سطح سے بہت بالا ہوجائیں اس طرح سے گذشتہ اعمال ان کی نظر میں پست، حقیر اور احمقانہ ہوجائیں اور اس کے بعد وہ اپنے وجود گی گہرائیوں کے نہاں خانے سے کینہ، قساوت، انتقام جوئی، قبائلی تعصبّات وغیرہ کی سیاہ غلاظت کو نکال باہر پھینکیں اور یہ ایسا کام ہے جو روپئے پیسے اور دولت وثروت سے نہیں ہوسکتا بلکہ صرف حقیقی ایمان وتوحید کے ذریعے ہی سے ایسا ممکن ہے۔
اور آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: خدا عزیز وحیکم ہے (إِنَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ)۔ اس کی عزت کا تقاضا ہے کہ کوئی اس کے سامنے ٹھہرنے کی تاب نہیں رکھتا اور اس کی حکمت سبب بنتی ہے کہ اس کے تمام کام حساب وکتاب کے تابع ہوں، اسی لئے حساب شدہ پروگرام نے پراگندہ دلوں کو متحد کردیا اور انھیں پیغمبر سے منسلک کردیا تاکہ آپ ان کے ذریعے اسلام کا نورِ ہدایت پوری دنیا میں پھیلادیں۔

 

چند قابلِ توجہ نکاتدو توجہ طلب نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma