چند قابلِ توجہ نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
جنگی طاقت میں اضافہ اور اس کا مقصددو قابلِ توجہ نکات

۱۔ ”قوة“ کا مفہوم: ایک مختصر سے جملے کے ذریعے زیرِ نظر آیت میں اسلامی جہاد، مسلمانوں کی بقاء اور ان کی عظمت وافتخار کی حفاظت کے لئے ایک بنیادی اصول بنایا گیا ہے، آیت کی تعبیر اس قدر وسیع ہے کہ ہر زمان ومکان پر پوری طرح سے منطبق ہوتی ہے۔
”قوة“ کس قدر چھوتا اور پرمعنی لفظ ہے، یہ نہ صرف ہر زمانے کے جنگی وسائل اور جدید اسلحہ پر محیط ہے بلکہ ان تمام توانائیوں اور طاقتوں کا مفہوم بھی لئے ہوئے جو کسی شکل میں دشمن پر کامیابی کے لئے موٴثر ہیں چاہے وہ مادی قوتیں ہوں یا معنوی۔
جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ دشمن پر کامیابی اور اپنی بقا کی حفاظت جنگی ہتھیاروں کی تعداد سے وابستہ ہے وہ انتہائی غلطی پر ہیں کیونکہ ہم نے اپنے زمانے کے انہی میدانوں میں ایس قوموں کو دیکھا ہے جو تھوڑی سی تعداد اور کم اسلحہ سے زیادہ طاقتور اور زیادہ اسلحہ کی مالک قوموں کے مقابلے میں کامیاب ہوئی ہیں، مثلاً الجزائر کی مسلمان قوم فرانس کی طاقتور حکومت کے مقابلے میں ، لہٰذا ہر زمانے کے نہایت بہترین ہتھیاروں سے ایک قطعی اسلامی فریضے کے طور پر فائدہ اٹھانے کے علاوہ مجاہدین کی ہمت مردانہ اور قوتِ ایمان کو بھی بروئے کار لایا جانا چاہیے جو کہ اہم ترین قوت وطاقت ہے۔
اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی قوتیں بھی ”قوة“ کے مفہوم میںداخل ہیں اور دشمن پر کامیابی کے حصول کے لئے بہت موٴثر ہیں۔ ان میں بھی غفلت نہیں برتنا چاہیے۔
یہ امر جاذبِ نظر ہے کہ اسلامی روایات میں لفظ ”قوة“ کی کئی تفاسیر کی گئی ہیں کہ جو اس لفظ کے مفہوم کی وسعت کی ترجمان ہیں۔ مثلاً بعض روایات میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ !الہ وسلّم نے فرمایا:
قوت سے مراد تیر ہے۔(۱)
دوسری روایت میں جو تفسیر علی بن ابراہیم آئی ہے اس میں ہے کہ:
”قوة“ سے مراد ہر قسم کااسلحہ ہے۔
ایک اور روایت جو تفسیر عیاشی میں آئی ہے میں ہے:
”قوة“ سے مراد تلوار اور ڈھال ہے۔
ایک اور روایت جو ”من لایحضرہ “ میں آئی ہے میں ہے:
”منہ الخضاب السواد“
آیت میں ”قوة“ سے ایک مصداق سفید بالوں کو سیاہ خضاب کرنا بھی ہے۔
یعنی اسلام نے سن رسیدہ مجاہد کے بالوں کے خضاب تک کو نظر انداز نہیں کیا تاکہ دشمن اس سے مرعوب ہو، یہ بات نشاندہی کرتی ہے کہ زیرِ نظر آیت میں ”قوة“ کا مفہوم کس قدر وسیع ہے۔
اس بناپر وہ لوگ جنھوں نے صرف کچھ روایات دیکھی ہیں اور انھوں نے لفظ ”قوة“ کو صرف ایک مصداق میں محدود سمجھا ہے وہ عجیب اشتباہ میں گرفتار ہوئے ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ مسلمان ایسے صریح اور واضح فرمان کے باوجود گویا ہر چیز ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں، انھیں دشمنوں کے مقابلے میں نہ تو معنوی اور روحانی قوتیں فراہم کرنے سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی اقتصادی ، سیاسی، ثقافتی اور فوجی قوتیں مہیا کرنے سے دلچشپی، تعجب کی بات یہ ہے کہ اس عظیم غفلت اور ایسے صریح حکم کو پس پشت ڈالنے کے باوجود ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اپنی پسماندگی کا گناہ اسلام کی گردن پر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اسلام میں پیش رفت اور کامیابی کا دین ہے تو پھر مسلمان کیوںپس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ ہیں۔
ہمارا نظریہ ہے کہ اس عظیم اسلامی حکم ”وَاٴَعِدُّوا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ“ کی ہر جگہ ایک عمومی اور عوامی شعار کی حیثیت سے تبلیغ ہو اور چھوٹے بڑے، عالم وجاہل، موٴلف ومقرر، فوجی اور افسر، کسان اور تاجر یعنی تمام مسلمان اپنی زندگی میں اس پر عمل کریں تو ان کی پسماندگی کی تلافی کے لئے کافی ہے۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو خبر دی کہ یمن میں نیا مشینی ہتھیار تیار ہوا ہے، آپ نے فوراً کسی کو یمن کی طرف بھیجا تاکہ وہ اسے لشکرِ اسلام کے لئے مہیّا کرے۔
جنگ اُحد کے واقعات میں ہے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے جب بت پرستوں کا یہ نعرہ سنا کہ:
”اٴعل ھبل، اٴعل ھبل“
یعنی ہبل کی جے، ہبل کی جے۔
تو اس کے مقابلے کے میں مسلمانوں کو اس کی سرکوی کرنے والا اور زیادہ موٴثر نعرہ سکھایا اور ان سے یہ نعرہ بلند کرنے کو کہا:
’‘اللّٰہ اٴعلیٰ واٴجل“
خدا ہر چیز سے برتر اور بالاتر ہے۔
اور جب بت پرستوں نے یہ نعرہ لگایا کہ:
”ان لنا العزّیٰ ولا عزی لکم“
ہمارے لئے عزّیٰ بت ہے تمھارے لئے عزّیٰ نہیں ہے۔
تو اس کے مقابلے میں آپ نے مسلمانوں کو اس نعرے کی تعلیم دی:
”اللّٰہ مولانا ولا مولاکم“
خدا ہمارا ولی وسہارا ہے اور تمھارا کوئی سہارا نہیں۔
یہ چیز نشاندہی کرتی ہے کہ رسول الله اور مسلمانوں دشمن کے مقابلے میں ایک زور دار نعرے کی تاثیر تک سے غافل نہ تھے اور اپنے لئے بہترین نعرے کا انتخاب کرتے تھے۔
اسلام کا ایک اہم فقہی حکم تیراندازی اور گھڑ دوڑ کے مقابلے (2) کے بارے میں ہے، یہاں تک کہ اس سلسلے میں مالی فتح وشکست تجویز کی گئی ہے اور اس مقابلے کی دعوت دی گئی ہے، دشمن کے مقابلے میں تیار رہنے سے متعلق اسلام کی گہری نظریہ کا یہ ایک نمونہ ہے۔
۲۔ ”اسلام“ کے دائمی ہونے کی ایک دلیل: ایک اور اہم نکتہ مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے جو کہ دین اسلام کے عالمی ، دائمی اور جاودانی ہونے پر ایک دلیل ہے، اس دین کے مفاہیم، معانی اور مضامین اس طرح پھیلے ہوئے اور وسیع ہیں کہ اتنا طویل زمانہ گزرنے کے باوجود ان میں کہنگی اور فرسودگی کا نشان نظر نہیں آتا۔ ”وَاٴَعِدُّوا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ“ کا جملہ ہزار سال پہلے بھی ایک زندہ مفہوم رکھتا تھا اور آج بھی اسی طرح ہے اور دس سال ہزار سال آئندہ بھی اسی طرح زندہ باقی رہے گا کیونکہ جو ہتھیار اور طاقت آئندہ پیدا ہوگی وہ ”قوة“ کے جامع لفظ میں پوشیدہ ہے، ”ما استطعتم“ عام ہے اور ”قوة“ جوکہ نکرہ کی شکل میں آیا ہےاس کی عمومیت کو تقویت دیتا ہے اور ہر قسم کی قوت وطاقت پر محیط ہے۔
۳۔ ”قوة“ کے بعد گھوڑوں کے ذکر کا مقصد: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لفظ ”قوة“ کے ذکر کے بعد کہ جو اس قسم کا وسیع مفہوم رکھتا ہے تجربہ کار جنگی گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس سوال کا جواب ایک جملے سے واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ مندرجہ بالا آیت نے جہاں تما م زمانوں کے لئے ایک وسیع حکم یان کیا ہے وہاں ایک خاص حکم رسول الله کے زمانہ اور نزولِ قرآن کے وقت کا بھی بیان کردیا ہے در حقیقت ایک کُلی اور عمومی مفہوم کوایک واضح عملی مثال سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ گھوڑا آج کے میدانِ جنگ میں ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ہوتے ہوئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا لیکن اُس زمانے میں بہادر وشجاع جنگو سپاہیوں کے لئے یہ ایک چست اور تیز رفتار ذریعہ شمار ہوتا تھا۔
جنگی طاقت میں اضافے کا اصلی مقصد
اس حکم کے بعد قرآن اس موضوع کے منطقی اور انسانی ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مقصد یہ نہیں ہے کہ اصل دنیا کو یا اپنی قوم کو طرح طرح کے تباہ کن اور ویران گر ہتھیاروں سے تباہ وبرباد کردو اور آبادیوں اور زمینوں کو ویران کردو، مقصد یہ نہیں کہ دوسروں کی زمینوں اور مال واسباب کو لوٹو اور یہ بھی مقصد نہیں کہ دنیا میں غلامی اور استعمار کے اصول رائج کردو بلکہ مقصد یہ ہے کہ ”ان وسائل کے ذریعے خدا کے اور اپنے دشمن کو ڈراوٴ“ (تُرْھِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ)۔ کیونکہ زیادہ تر دشمن ایسے ہیں کہ جن کے کان منطقی حرف اور انسانی اصول نہیں سنتے وہ قوت وطاقت کی زبان کے سوا دوسری کوئی زبان نہیں سمجھتے۔
اگر مسلمان کمزور ہوں تو تمام تر بوجھ انہی پر ڈالے جائیں گے لیکن اور وہ کافی مقدار میں قوت وطاقت حاصل کرلیں تو پھر حق وعدالت اور استقلال وآزادی کے دشمن پریشان ہوجائیں گے اور اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں گے۔
اس وقت جب کہ میں اس آیت کی تفسیر لکھ رہا ہوں فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک کے اہم حصّے اسرائیل فوجوں کے زیرِ تسلط آچکے ہیں۔
حالیہ دنوں میں جنوبی لبنان میں جو بزدلانہ حملہ ہوا ہے اس سے ہزارہا خاندان دربدر ہوگئے ہیں، سینکڑوں قتل ہوئے، آبادیاں وحشتناک ویرانوں میں تبدیل ہوگئی ہیں اس سے اس غم انگیز داستان میں نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔
دنیا کے عام لوگوں کے افکار نے اس پور عمل کی مذت کی ہے یہاں تک کہ اسرائیل کے دوست نے بھی دوسروں ہی کی آواز میں آواز ملائی ہے، اقوام متحدہ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے اسرائیل کو یہ سب زمینیں خالی کرنے کا حکم دیا ہے لیکن چند ملین پر مشتمل اس قوم کے کان ان میں سے کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ اُن کے پاس طاقت وقوت ہے، اسلحہ ہے، بڑے پیمانے پر جنگی تیاری ہے اور طاقتور حامی ہیں، اس جارحیت کے لئے انھوں نے سالہا سال سے تیاری کی ہوئی ہے، وہ واحد منطق جس کے ذریعے انھیں جواب دیا جاسکتا ہے، یہی ہے۔
”وَاٴَعِدُّوا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ -----تُرْھِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ “
یوں لگتا ہے جیسے یہ آیت ہمارے زمانے میں اور ہماری آج کی کیفیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ اس طرح طقتور بنو کہ دشمن وحشت اور حیرت میں پڑجائے اور غصب شدہ زمینوں کو واپس کردے اور اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ جائے۔
یہ جاذبِ توجہ ہے کہ لفظ ”عَدُوَّ اللهِ “ کو ”عَدُوَّ کُم“سے ملاکر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاد اسلامی دفاع میں شخصی اغراض کو کوئی دخل نیہں بلکہ مقصد اسلام کے مکتبِ انسانی کی حفاظت ہے، وہ کہ جن کی تم سے دشمنی خدا سے دشمنی کی شکل میں ہے یعنی جوو حق وعدالت، ایمان وتوحید انسانی پروگراموں سے دشمنی رکھتے ہوں وہ تمھارے حملوں اور تمھاری دفاعی تیاریوں کا ہدف ہوں۔
درحقیقت یہ تعبیر ”فی سبیل الله “یا ”جھاد فی سبیل الله“ کی تعبیر سے مشابہ ہے جو نشاندہی کرتی ہے کہ اسلامی جہاد اور دفاع نہ تو گذشتہ سلاطین کی کشور کشائی کی مانند ہے اور نہ آج کی سامراجی اور استعماری طاقتوں کی توسیع طلبی کی طرح بلکہ سب کچھ خدا کے لئے، خدا کی راہ میں اور حق وعدالت کے احیاء کے راستے میں ہے۔
پھر مزید فرمایا گیا ہے: ان دشمنوں کے علاوہ جنھیں تم پہچانتے ہو تمھارے اور دشمن بھی ہیں جنھیں تم نہیں پہچانتے اور وہ تمھاری زیادہ جنگی تیاری سے ڈرجائیں گے اور اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں گے (وَآخَرِینَ مِنْ دُونِھِمْ لَاتَعْلَمُونَھُمْ)۔

 


۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۱۶۴،۱۶۵-
2۔ ہمارے ہاں جو ریس وغیرہ مروّج ہے اس کا اسلامی سبق ورمایہ سے دُور کا بھی تعلق نہیں کیونکہ وہاں تو اصل مقابلہ دشمن کے مقابلے میں جنگی مشق کے طور پر ہوتا ہے وہاں پہلے سے دونوں طرف سے یا ایک طرف سے انعام مقرر کیا جاتا ہے کہ جو جیت جائے گا صرف اتنا انعام ملے گا جبکہ مغرب کی شیطانی تہذیب سے آئی ہوئی اس ریس میں تولوگ آپس میں جواء رکھتے ہیں۔ (مترجم)

 

جنگی طاقت میں اضافہ اور اس کا مقصددو قابلِ توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma