اس آیت مسلمانوں کو ایک اور طریقے سے جہاد کی تشویق وترغیب دلاکر انھیں اس سلسلے میں ان کی اہم ذمہ داری کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ تمھیں یہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ صرف ایمان کا دعویٰ کرلینے سے تمام چیزیں درست نہیں اور ٹھیک ہوجاتی ہیں بلکہ صدقِ نیت، گفتار کی درستی اور ایمان کی حقیقت دشمنوں سے جنگ کرکے واضح ہوتی ہے، جنگ بھی ایسی جو ہر قسم کے نفاق سے پاک مخلصانہ طور پر ہو۔
پہلے فرمایا گیا ہے: کیا تم گمان کرتے ہو کہ تمھیں تمھاری حالت پر چھوڑدیا جائے گا اور تم میدانِ آزمائش میں سے نہیں گزروگے جب کہ ابھی تم میں سے مجاہدین اور وہ لوگ جنھوں نے خدا، رسول اور مومنین کوچھوڑکر کسی اور کو محرم راز بنالیا ہے ایک دوسرے سے مشخص اور ممتاز نہیں ہوئے (اٴَمْ حَسِبْتُمْ اٴَنْ تُتْرَکُوا وَلَمَّا یَعْلَمْ اللهُ الَّذِینَ جَاھَدُوا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللهِ وَلَارَسُولِہِ وَلَاالْمُؤْمِنِینَ وَلِیجَةً) ۔(۱)
”وَلِیجَة“ مادہ ”ولوج“ سے داخل ہونے کے معنی میں ہے اور ایسے اشخاص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کسی انسان کا محرم راز ہو اور اس کے کاموں کو چلانے والا ہو، اس کا معنی تقریباً ”بطانة“ جیسا ہے ۔
در حقیقت مندرجہ بالا جملہ مسلمانوں سے دومطالب گوش گزار کرتا ہے اور وہ یہ کہ صرف اظہار ایمان سے کام ٹھیک نہیں ہوتے اور افراد کی شخصیت واضح نہیں ہوتی بلکہ اس سلسلے میں دوطرح سے لوگوں کی آزمائش کی جاتی ہے:
ایک تو راہ خدا میں شرک وبت پرستی کے آثار مٹانے کے لئے جہاد کرنا اور دوسرا منافقوں اور دشمنوں سے ہر طرح کا رابطہ اور ہمکاری ترک کرنا کہ جس میں سے پہلا کام ہے خارجی دشمنوں کا باہر نکالنا ہے اور دوسراہے داخل دشمنوں کو باہر نکالنا ۔
”وَلَمَّا یَعْلَمْ اللهُ “ (حالانکہ ابھی تک خدا نہیں) اس جملے کی نظیر دوسری آیاتِ قرآنی میں بھی نظر آتی ہے ، در اصل اس کا معنی ہے ”ابھی تک ثابت نہیں ہوا“ اور ایسی تعبیر عموماً تاکید کے مواقع میں استعمال ہوتی ہے ورنہ دلائل عقلی اور بہت سی آیات کے مطابق خدا تو ایسی تمام چیزوں سے آگاہ تھا، آگاہ ہے اور آگاہ رہے گا ۔
یہ آیت در حقیقت سورہٴ عنکبوت کی پہلی آیت جیسی ہے جہاں فرمایا گیا ہے:
<اٴَحَسِبَ النَّاسُ اٴَنْ یُتْرَکُوا اٴَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُونَ
کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ انھیں ان کی حالت پر چھوڑدیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہیں ہوگی ۔
نیز سورہٴ آل عمران کی تفسیر میں ہم کہہ چکے ہیں کہ خدا کی آزمائشیں کوئی انجانی چیز جاننے کے لئے نہیں ہیں بلکہ تربیت ، فروغ استعداد اور انسان کی اندرونی صلاحیتوں اور اسرار کو ابھارنے اور آشکار کرنے کے لئے ہیں ۔
آیت کے آخر میں خطرے سے خبردار کرتے ہوئے اور تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: جو کام بھی تم انجام دیتے ہو خدا اُس سے باخبر ہے (وَاللهُ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ) ۔ مبادا کچھ لوگ یہ خیال کربیٹھیں کہ خدا منافقین اور دشمنوں سے ان کے خفیہ روابط سے بے خبر ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ وہ سب چیزوں کو اچھی طرح سے جانتا ہے اور اس کے مطابق اپنے بندوں سے سلوک کرے گا ۔
آیت کے طرزِ بیان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت مسلمانوں کے اسلامی ماحول میں کچھ لوگ نووارد تھے اور نفسیاتی طور پر وہ جہاد کے لئے تیار نہیں تھے، یہ گفتگو ان کے بار ے میں ہے ورنہ سچّے مجاہدین توبارہا جہاد کے میدانوں میں اپنی کیفیت واضح کرچکے تھے ۔
۱۷ مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ اٴَنْ یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللهِ شَاھِدِینَ عَلیٰ اٴَنفُسِھِمْ بِالْکُفْرِ اٴُوْلٰئِکَ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُھُمْ وَفِی النَّارِ ھُمْ خَالِدُونَ
۱۸ إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَاٴَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللهَ فَعَسیٰ اٴُوْلٰئِکَ اٴَنْ یَکُونُوا مِنَ الْمُھْتَدِینَ
ترجمہ
۱۷۔ مشرکین یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ خدا کی مسجدوں کوآباد کریں حالانکہ اپنے کفر کے ذریعے وہ اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں انہی کے اعمال نابود (اور بے قیمت) ہوگئے ہیں اور وہ (جہنم کی) آگ میں ہمیشہ رہیںگے ۔
۱۸۔ الله کی مساجد کو صرف وہ شخص آباد کرتا ہے جو خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے، نماز قائم کرتا ہے، زکوٰة ادا کرتا ہے اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا، ہوسکتا ہے ایسا گروہ نجات پاجائے ۔