چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
برابر کی قوت کے انتظار میں نہ رہوجنگی قیدی

۱۔ کیا پہلی آیت منسوخ ہوچکی ہے؟ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ پہلی آیت مسلمانوں کو حکم دے رہی ہے کہ اگر دشمن کا لشکر دس گناہ بھی زیادہ ہو تو ان کے مقابلے منھ نہ پھیریں جب کہ دوسری آیت میں یہ نسبت گھٹا کر دوگنا کردی گئی ہے، اس ظاہری اختلاف کے سبب بنا کہ مفسّرین نے پہل آیت کے حکم کو دوسری آیت کے حکم سے منسوخ سمجھا یا پہلی کو مستحب حکم اور دوسری کو واجب حکم قرار دیا یعنی اگر دشمنوں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے دوگنی ہو تو مسلمان پر فرض ہے کہ میدانِ جنگ سے پیچھے نہ ہٹیں اور اگر دشمن اس سے زیادہ ہوں یہاں تک کہ دس گنا ہوں تو پھر جہاد سے ہاتھ اٹھا سکتے ہیں اور بچ سکتے ہیں لیکن بہتر ہے کہ پھر بھی جہاد سے دستبردار نہ ہوں۔
لیکن بعض مفسّرین کا نظریہ ہے کہ ظاہری اختلاف جو آیات کے درمیان نظر آرہا ہے نسخ کی دلیل ہے نہ استحباب کی بلکہ ان دو احکام میں سے ہر ایک کا مقام الگ الگ ہے، جب مسلمان ضعیف وکمزور ہوں اور ان میں نئے، ناتجربہ کار اور غیر آزمودہ افراد ہوں کہ جن کی ابھی صحیح تربیت اور اصلاح نہیں ہوئی تو پھر مقیاس کا معیار دوگنا ہے لیکن اگر تربیت یافتہ، تجربہ کار اور قوی ایمان والے افراد مجاہدین بدر کے سے موجود ہوں تو پھر یہ نسبت دس گناہ تک جا پہنچی ہے۔
اس بناء پر یہ دونوں حکم جو دوالگ آیات میں مذکورہ ہیں دو مختلف گروہوں سے متعلق ہیں اور ان کا مختلف حالات سے تعلق ہے، اس لئے یہاں نسخ والی کوئی بات نہیںاور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں نسخ کی تعبیر موجود ہے تو ہمیں توجہ رکھنا چاہیے کہ لفظ ”نسخ“ روایات کی زبان میں ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جس میں ”تخصیص“ بھی شامل ہے۔
۲۔ قوتوں کے موازنہ کی داستان: مندرجہ بالا آیات بہرحال اس مسلّم حکم کی حامل ہیں کہ مسلمان کبھی دشمن سے ظاہری قوتوں کی برابری کے انتظار میں نہ رہیں بلکہ کبھی اپنے سے دوگنا اور کبھی دس گناہ دشمن کے مقابلے میں بھی اٹھ کھڑے ہوں اور تعداد کی کمی کے بہانے دشمن کے مقابلے سے فرار اختیار کریں۔
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ بہت سی اسلامی جنگوں میں قوتوں کا توازن دشمن کے مفاد میں نظر آتا ہے مسلمان عموماً کم تعداد میں ہوتے تھے، جنگیں جو رسول الله کے زمانے میں ہوئیں مثلاً بدر، اور احزاب وغیرہ کی جنگیں بلکہ جنگِ موتہ میں تو مسلمان کی تعداد تین ہزار تھی اور دشمن کے لشکر کی جو کم از کم تعداد لکھی گئی وہ ڈیڑھ لاکھ تھی، یہ صورت صرف رسول الله کے دور ہی نہ تھی بلکہ وہ جنگیں جوآپ کے بعد پیش آئیں یہ فرق حیرت انگیز صورت میں موجود تھا، مثلاً ساسانی فوج سے جنگ کے موقع پر اسلام کی آزادی بخش لشکر کی تعداد پچاس ہزار تھی جبکہ خسروپرویز کے لشکر کی تعداد پانچ لاکھ تھی ، جنگ یرموک جوکہ لشکرِ اسلام کی رومی فوج کے خلاف بہت بڑی جنگ تھی کے بارے میں موٴرخین نے نقل کیا ہے کہ ہرقل کا لشکر تقریباً دولاکھ افراد پر مشتمل تھا لسکن مسلمان فوج کی تعداد چویس ہزار سے زیادہ نہ تھی اور زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ لکھا ہے کہ دشمن کے جو لوگ اس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ ستر ہزار افراد سے زیادہ تھے۔
اس میں شک نہیں ک ظاہری موازنہ اور قوتوں کی برتری کامیابی کے عوامل میں سے ایک لیکن پھر کونسی چیز سبب بنتی تھی کہ اتنا عظیم فرق جو صاف نظر آتا تھا اس کے باوجود مسلمان کامیاب رہتے، اس اہم سوال کا جواب قرآن نے ان آیات میں تین تعبیروں میں دیا ہے، ایک جگہ فرمایا گیا ہے ”عشرون صابرون“ یعنی بیس صاحبِ استقامت اور صبر کرنے والے اور ”مائة صابرة“ایک سو با استقامت یعنی استقامت اور پامردی جو شجر ایمان کا ثمر ہے اس بات کا سبب بنتی ہے کہ ایک آدمی دس افراد کے مقابلے میں کھڑا ہوجائے، ڈٹا رہے اور کامیابی حاصل کرے۔
دوسری جگہ قرآن کہتا ہے: ”باٴنّھم لایفقھون“ یعنی اپنے ہدف سے ا ن کیعدم آگہی اور تمھارا اپنے مقدس مقصد سے باخبر ہونا تعداد کی کمی کو تلافی کردیتا ہے۔
ایک اور جگہ پر ہے: ”اذن اللّٰہ“ یعنی خدائی امداد ، غیبی اور معنوی نصرتیں اور الله کا لطف ورحمت ان صاحبِ ایمان اور بااستقامت لوگوں کے شامل حال ہیں۔
آج بھی مسلمان طاقتور دشمنوں کے مقابلے میں کھڑے ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سے جنگی میدانوں میں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن پھر بھی کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور آج کے مسلمانوں کی حالت پہلے زمانے کے مسلمانوں سے یکسر برعکس ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یا اس بناپر ہے کہ مسلمانوں میں آج کافی آگاہی اور علم نہیں ہے، فساد اور مادی زرق برق کے عوامل کے مقابلے میں وہ صبر و استقامت کی روح گنوا بیٹھے ہیں، گناہ آلودہ ہونے کی وجہ سے خدائی حمایت بھی ان سے سلب ہوچکی ہے، نتیجتاً وہ اس انجام کو پہنچ گئے ہیں۔
لیکن پھر بھی لوٹ آنے کا راستہ کھلا ہے اور ہمیں توقع اور انتظار ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ مندرجہ بالا آیات کا مفہوم ایک دفعہ پھر مسلمانوں میں زندہ ہو اور وہ اپنی موجودہ ذلّت بارکیفیت سے نکل آئیں۔
۳۔ دو آیتوں میں مثال کا فرق: یہ بات توجہ طلب ہے کہ پہلی آیت کہ جس میں گفتگو ایک اور دس کی نسبت کے بارے میں ہے مثال کے لئے ”عشرون“ یعنی بیس اور ”ماٴتین“ یعنی دو سو کے الفظ استعمال ہوئے ہیں لیکن دوسری آیت میں جہاں دوگناہ کی نسبت بیان ہوئی ہے مثال کے لئے ایک سو افراد دوسو کے مقابلے میں اور ایک ہزار کا دستہ دو ہزار کے مقابلے میں کہا گیا ہے۔
مثال کا یہ فرق گویا اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ قوی ارادے والے اہلِ ایمان بیس افراد کا بھی ایک لشکر بناکر سکتے ہیں لیکن کمزور افراد اتنی کم تعداد کا لشکر مہیّا نہیں کرسکتے بلکہ انھیں اس سے کئی گنا زیادہ افراد سے لشکر بنانے کی ضرورت پڑے گی۔


۶۷- مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اٴَنْ یَکُونَ لَہُ اٴَسْریٰ حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْاٴَرْضِ تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللهُ یُرِیدُ الْآخِرَةَ وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ
۶۸- لَوْلَاکِتَابٌ مِنْ اللهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا اٴَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ
۶۹- فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَیِّبًا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ
۷۰- یَااٴَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِمَنْ فِی اٴَیْدِیکُمْ مِنَ الْاٴَسْریٰ إِنْ یَعْلَمْ اللهُ فِی قُلُوبِکُمْ خَیْرًا یُؤْتِکُمْ خَیْرًا مِمَّا اٴُخِذَ مِنْکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ
۷۱- وَإِنْ یُرِیدُوا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ فَاٴَمْکَنَ مِنْھُمْ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ
ترجمہ
۶۷۔ کوئی پیغمبر یہ حق نہیں رکھتا ہے وہ (دشمنوں کے افراد ) قیدی بنائے تاکہ ان پر کامیابی حاصل کرے (اور زمین پر مستحکم قدم جمالے) تم لوگ تو ناپائیدار دنیا کی متاع چاہتے ہو (اور چاہتے ہو کہ زیادہ سے زیادہ قیدی بنالو اور مال لے کر انھیں آزاد کرو) لیکن خدا (تمھارے لئے) آخرت چاہتا ہے اور خدا قادر وحکیم ہے۔
۶۸۔ اگر پہلے سے خدا کا حکم نہ ہوتا (کہ تبلیغ کے بغیر کسی اُمت کو سزا نہ دے) تو (اسیر بنانے کا) کام تم نے کیا اُس پر تمھیں بہت بڑی سزا دیتا۔
۶۹۔ اب جو کچھ مالِ غنیمت تم لے چکے ہو اس میں سے حلال وپاکیزہ کھالو اور خدا سے ڈرو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
۷۰۔ اے نبی! تمھارے پاس جو قیدی ہیں ان سے کہدو کہ اگر خدا تمھارے دلوں میں کوئی اچھائی دیکھے گا (اورز تمھاری نیتیں نیک اور پاکیزہ ہوں) تو جو کچھ تم سے لیا ہے اس سے بہتر تمھیں دے گا اور تمھیں بخش دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
۷۱۔ اور اگر وہ تم سے خیانت کرنا چاہیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں) انھوں نے اس سے پہلے (بھی) خیانت خدا سے خیانت کی ہے اور خدا نے (تمھیں) ان پر کامیابی دی اور خدا دانا وحکیم ہے۔

 

برابر کی قوت کے انتظار میں نہ رہوجنگی قیدی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma