پہلا عہد وپیمان اور عالمِ ذر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
قوم یہود کے بارے میں آخری باتعالم ذر اور اسلامی روایات

پہلا عہد وپیمان اور عالمِ ذر

مذکورہ بالا آیات اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیںکہ توحید کا اقرار ایک فطری تقاضا ہے اور ہر انسانی روح کی گہرائیوں میں خدا کے وجود کی گواہی موجود ہے ۔ اسی بناپر جو بحث وتمحیص اس سورہ کی گزشتہ آیات میں توحید استدلالی کے بارے میں کی گئی ہے یہ اُن کی تمکیل کرتی ہے ۔
اگرچہ اس پہلی آیت کی تفسیر کرتے وقت مختلف مفسّرین کے درمیان زوروشور سے بحثیں ہوئی ہیں اور اس آیت کے متعلق مختلف طرح کی احادیث بھی ملتی ہیں، تاہم ہماری کوشش یہ ہوگی کہ اوّل اس آیت کی اجمالی تفسیر کریں پھر مفسرین کی اہم ترین مباحث کا تذکرہ کریں اور آخر میں ان تمام مباحث کی روشنی میں محتاط انداز سے اپنا استدلالی نقطہٴ نظر پیش کریں ۔
اس آیت میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے مخاطب ہے، پہلے فرمایا گیا ہے: اس وقت کو یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے اولادِ آدم کی صلب سے اُن کی ذرّیت کو لیا اور پھر انھیں ظاہر کیا اور انھیں خود اُن کا گواہ بناکر اُن سے پوچھا کہ کیا میں تمھارا پروردگارنہیں ہوں تو اُنھوں نے پوچھا کہ کیا میں تمھار پروردگار نہیں ہوں تو اُنھوں نے کہا ہم شہادت دیتے ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے (وَإِذْ اٴَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُھُورِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاٴَشْھَدَھُمْ عَلیٰ اٴَنفُسِھِمْ اٴَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلیٰ شَھِدْنَا) ۔
لفظ ”ذریة“ لغت میں علماء کے مطابق ”چھوتی اور کم سن اولاد“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات”تمام اولاد“ کو کہتے ہیں ۔ بعض اوقات مفرد اور بعض اوقات جمع کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن درحقیقت یہ لفظ جمع کا مفہوم رکھتا ہے ۔
اس لفظ کے مادہ کے بارے میں مختلف آراء ملتی ہیں بعض اسے ”ذرء“ (بروزن ”زرع“) پیدائش وآفرینش کے معنی میں لیتے ہیں، اس بناپر ”ذریة“ کا اصل مطلب ”مخلوق“ اور ”پیدا شدہ“ہے ۔
اور بعض اسے ”ذر“ (بروزن ”شر“) کے مادہ سے سمجھتے ہیں جس کا معنی ہے بہت چھوٹے موجودات جیسے گردوغبار کے ذرّات اور بہت ہی چھوٹی چیونٹیاں، انسانی اولاد بھی ابتداء میں بہت ہی چھوٹے سے ذرّے (نطفہ) سے زندگی کا آغاز کرتی ہے اس لئے اسے ”ذریت“ کہتے ہیں، تیسرا ”ذور“ (بروزن ”مرو“) کے مادہ سے پراگندہ اور منتشر ہونے کے معنی لیا گیا ہے اور انسان کی اولاد کو ”ذریة“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پایہٴ تکمیل کو پہنچنے میں زمین میں چاروں طرف پھیل جاتی ہے ۔
اس کے بعد مسئلہ توحید کے سلسلے میںسوال وجواب اور اولادِ آدم سے عہدوپیمان لینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: یہ کام خدا نے اس لئے انجام دیا تاکہ قیامت کے دن وہیہ نہ کہیں کہ ہم تو اس حقیقت توحید وخدا شناسی سے ناآشنا تھے (اٴَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِینَ) ۔
خدا نے اُن لوگوں سے جو وعدہ لیا تھا اس میں سے ایک اور بھی مقصد پوشیدہ تھا، جس کا دوسری آیت میں اشارہ ملتا ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یہ عہد وپیمان ہم نے اس لئے لیا تھا تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ ”ہمارے آباء واجداد چونکہ ہم سے پہلے بُت پرست تھے اور ہم بھی کیونکہ اُنہی کی اولاد تھے اس لئے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ہم ان کی پیروی کرتے تو کیا خدا ہمیں ان لوگوں کے باعث سزا دیتا ہے جنھوں نے بیہودہ کام کیا (اٴَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا اٴَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّةً مِنْ بَعْدِھِمْ اٴَفَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ) ۔
ہاں ہم اپنی آیات اس لئے کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ توحید کا نُور اور روشنی ابتداء ہی سے ان روح میں موجود تھی، شاید وہ ان حقائق کی طرف توجہ کرتے ہوئے حق کی طرف پلٹ آئیں (وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلَعَلَّھُمْ یَرْجِعُونَ)
عالم ذر کے بارے میں فیصلے کن بحث
جیسا کہ ہم پڑھا ہے کہ زیر نظر آیات میں الله تعالیٰ کے ساتھ اولاد آدم کے عہد وپیمان کا تذکرہ موجود ہے، وہ عہد وپیمان جو آدم کی اولاد سے سربستہ طریقے سے لیا گیا لیکن اس عہد وپیمان کی تفصیلات آیت کے متن میں نہیں ہیں ۔
ان آیات سے متعلق اسلامی کتب مصادر میں جو مختلف طرح کی روایات موجود ہیں مفسرین نے اُن کو بنیاد بناکر کئی نظریے قائم کئے ہیں جن میں زیادہ اہم دو نظریات جو درج ذیل ہیں:
۱۔ جس وقت حضرت آدم(علیه السلام) پیدا ہوئے تو آخری بشر تک ان کی اولاد ذرّات کی شکل میں ان کی پشت سے باہر نکلی (اور بعض روایات کے مطابق یہ ذرّات آدم کی مٹّی سے نکلے) وہ بات سُننے اور جواب دینے کی حد تک کافی عقل وشعور کے حامل تھے تو اُس وقت خدا اُن سے مخاطب ہوا:
<اٴلستُ بربّکم
”کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں“
<بلیٰ شھدنا
”جی ہاں ہم اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں “
پھریہ سب ذرّ ات آدم کی پشت (یا آدم کی مٹی) کی طرف واپس لوٹ گئے، اس بناء پر اس عالم کو عالم ذر اور اس پیمان کو پیمان الست کہتے ہیں، اس لئے کہ مذکورہ پیمان ایک پیمان تشریعی انسانوں اور اُن کے پروردگار کے درمیان ایک خودآگاہی کی قرارداد تھی ۔
۲۔ اس عالم اور اس پیمان سے مراد وی ”عالم استعداد“ اور ”پیمان فطرت“ اور عہدِتکوین ہے، اس طرح سے کہ باپوں کی پشت اور ماؤں کے رحم سے ”نطفہ“ کی صورت میں اولاد آدم کے خروج کے وقت جبکہ اُن کی حیثیت ذرّات سے زیادہ نہ تھی تو خدا نے توحید کی گواہی کے لئے انھیں استعداد اور اہلیت عنایت کی، پھر ان کی سرشت اور فطرت میں یہ خدائی راز ایک اندرونی ذاتی حس کے طورپر انھیں ودیعت کیا اور اسے ایک جانی پہچانی حقیقت کے طور پر شعور میں رکھا ۔
یہی وجہ ہے کہ تمام انسان رُوح توحید سے شناسائی کے حامل ہیں اور خدا نے جو اُن سے سوال کیا تھا وہ تکوین وآفرینش کی زبان میں تھا اور اُنھوں نے جو جواب دیا تھا وہ بھی اسی زبان میں تھا ۔
ایسا انداز روز مرّہ کی گفتگو میں بھی بکثرت ملتا ہے، مثلاً ہم کہتے: ”رخسار کا رنگ اندرونی راز کی نشاندہی کرتا ہے“ یا ہم کہتے ہیں کہ ”کسی کی آنکھوں کا بند ہونا یہ بتاتا ہے کہ وہ رات سویا نہیں“ ایک عرب ادیب کہتا تھا:
”سل الارض من شق انھارک وغرس اشجارک واینع ثمارک فإن لم تجبک حوراً اٴجابتک اعتباراً“
اُس زمین سے پوچھو کس نے تیرے ردیاؤں کے راستے بنائے، کس نے تیرے درختوں کو بویا اور تیرے پھلوں کو پکایا، اگر زمین نے عام زبان سے جواب نہ دیا تو زبانِ حال سے جواب دے گی ۔
قرآن مجید میں بھی زبانِ حال میں گفتگو کرنے کا اسلوب بعض آیات میں آیا ہے مثلاً:
<فَقَالَ لَھَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْھًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِین
خدا نے زمین وآسمان سے فرمایا: اپنی رضا ورغبت سے یا مجبوراً آؤ اور فرمانبرداری کرو، تو اُنھوں نے کہا: ہم تیری اطاعت کرتے ہوئے اپنی رضایت ورغبت سے آتے ہیں(حم سجدہ/۱۱)
ان آیات کی تفسیر کے بارے میں یہ دو مشہور نظریات کا خلاصہ تھا، لیکن پہلی تفسیر پر مندرجہ ذیل اعتراضات بھی کئے جاتے ہیں:
۱۔ آیات کے متن میں اولادِ آدم کی پشت سے ذرّات کے خارج ہونے کے بارے میں گفتگو ہے نہ کہ خود آدم سے (من بنی آدم/ من ظھورہم ذریّتھم) جبکہ پہلی تفسیر خود آدم کی مٹّی سے نکلنے کی بات کرتی ہے ۔
۲۔ اگر یہ عہد وپیمان کافی خود آگاہی اور عقل وشعور سے لیا گیا تھا تو پھر کس طرح سب کے سب اسے بھول گئے ہیں، کسی شخص کے دل میں بھی اس کی یاد نہیں ہے، جبکہ اس کا فاصلہ ہمارے زمانے کی نسبت اس جہان اور دوسرے جہان اور قیامت سے زیادہ نہیں ہے، حالانکہ قرآن مجید کی کئی آیات میں ہم پڑھتے ہیں کہ بنی نوع انسان (قطع نظر اس سے کہ وہ جنتی ہوں یا جہنمی) قیامت میں دُنیا کے حالات کو نہیں بھولیں گے اور وہ انھیں بہت اچھی طرح یاد ہوںگے تو عالم ذر کے بارے میں یہ فرماموشی کسی طرح بھی قابل توجیہ نہیں ہے ۔
۳۔ اس عہدو پیمان کا کیا مقصد تھا ۔ کیا یہ مقصود تھا کہ عہدوپیمان کرنے والا اس قسم کے عہدوپیمان کو یاد کرکے راہ حق میں قدم اٹھائیں اور خدا شناسی کے سوا کسی اور راستے پر نہ چلیں تو کہنا چاہیے کہ یہ مقصد تو کسی طرح بھی اس عہدوپیمان سے حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ سب اسے بھول چکے ہیں اور اصلاح کے مطابق کے بہتر ”لا“ پر ہوئے ہوئے اور اس ہدف اور مقصد کے بغیر یہ پیمان لغو اور فضول نظر آتا ہے ۔
۴۔ اس قسم کے جہان کے وجود کا اعتقاد حقیقت میں ایک قسم کے تناسخ کے قبول کرنے کے متبادل ہے کیونکہ اس تفسیر کے مطابق یخ قبول کرنا پڑے گا کہ روحِ انسانی موجودہ پیدائش سے پہلے اس جہان میں قدم رکھ چکی ہے اور کم یا طویل دور طے کرنے کے بعد اس جہاں سے واپس چلی گئی ہے، تو اس طرح تناسخ کے بہت سے اعتراضات اس کی طرف متوجہ ہوںگے ۔
لیکن اگر ہم دوسری تفسیر کو قبول کرلیں تو ان میں سے کوئی اعتراض متوجہ نہیں ہوگا، کیونکہ اس صورت میں سوال وجواب اور مذکورہ عہدوپیمان ایک فطری پیمان ہوگا جس کے آثار اب بھی ہر شخص کو اپنی روح کے اندر نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ متاخرین ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے مطابق ”حس مذہبی“ ہونا ہود آگاہ انسان کے بنیادی نفسیاتی احساسات میں سے ایک ہے اور یہی وجہ ہے جو انسان کو طول تاریخ میں خدا شناسی کی طرف رہنمائی کرتی رہی ہے اور اس فطرت کے ہوتے ہوئے کبھی بھی انسان یہ عذر کرسکتا کہ ہمارے آباء واجداد تو بت پرست تھے <فِطْرَةَ اللهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا (روم/۳۰)
دوسری تفسیر پر صرف ایک اہم اعتراض کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں سوال وجواب اپنے اندر منشا کا پہلو لے لیںگے لیکن جس چیز کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ تعبیریں عربی زبان اور دیگر زبانوں میں موجود ہیں تو پھر اس پر کوئی بھی اعتراض نہیں ہوسکتا اور یہ تفسیر تمام تفاسیر کی نسبت زیادہ قریب نظر آتی ہے ۔

قوم یہود کے بارے میں آخری باتعالم ذر اور اسلامی روایات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma