ایک اہم سوال کا جواب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
ایک عظیم نعمت کا کفرانایک مشہور اور جعلی روایت

ایک اہم سوال کا جواب

مندرجہ بالا آیات میں جن میاں بیوی کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے وہ کون ہیں؟ اس سلسلے میں مفسّرین میں بہت اختلاف ہے ۔
کیا نفس واحدہ اور اس کی بیوی سے مراد آدم اور حوّا ہیں، جبکہ آدم نبی تھے اور حوّا ایک اچھی باایمان خاتون تھی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ راہِ توحید سے منحرف ہوکر راہِ شرک پر چل پڑے ہوں ۔
اور اگر آدم کے علاوہ کوئی اور مراد ہے اور تمام انسانوں کے لئے ہے تو فقط ”واحدة“ سے یہ بات کیسے مناسبت رکھتی ہے؟
اس سے قطع نظر یہاں کس عمل یا فکر ونظر کو شرک قرار دیا گیا ہے ۔؟
ان باتوں کا جواب پیش خدمت ہے:
ان آیات کی تفسیر میں ہمارے سامنے دو راستے ہیں، اس سلسلے میں مفسرین کی جو مختلف باتیں سامنے آئی ہیں شاید ان سب کی بنیاد انہی سے سمجھ میں آجائے ۔
۱۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ ”واحد“ سے مراد آیت میں ”واحد شخصی“ ہے، جیسا کہ بعض دوسری آیات میں بھی ہے ۔ مثلاً سورہٴ نساء کی پہلی آیت میں بھی ایسا ہی ہے(1)
”نفس واحدہ“ قرآنِ مجید میں پانچ مقامات پر آیا ہے، ایک زیر بحث آیت میں، دوسرا سورہٴ نساء کی پہلی آیت میں، تیسرا انعام آیہ۹۸ میں چوتھا لقمان آیہ۲۸ میں اور پانچواں زمر آیہ۶ میں ۔ ان میں سے بعض مقامات کا ہماری موجودہ بحث سے متعلق نہیں ہے البتہ بعض مقامات زیرِ بحث آیت کے مشابہ ہیں لہٰذا ”واحد شخصی“ کا مطلب یہ ہوگا کہ یہاں پر مختصر طور پر حضرت آدم(علیه السلام) اور ان کی بیوی کی طرف اشارہ ہے ۔
مسلّم ہے کہ اس صورت میں شرک سے مراد غیر خدا کی پرستش اور پروردگار کے علاوہ کسی کی الوہیت کا اعتقاد نہیں بلکہ ممکن ہے کہ اس سے مراد بیٹے کی طرف ایک طرح میلان ہو کہ کبھی بعض میلانات بھی خدا سے غافل کردیتے ہیں ۔
۲۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ”واحد“ سے مراد یہاں ”واحد نوعی“ ہے یعنی خدا نے تم سب کو ایک ہی نوع سے پیدا کیا ہے اور تمھاری بیویوں کو بھی تمھاری جنس میں سے قرار دیا ہے ۔
اس صورت میں دونوں آیات اور بعد والی آیات نوعِ انسانی کی طرف اشارہ ہیں یعنی انسان بچے کی پیدائش کے انتظار کے دنوں میں تو بہت دستِ دعا بلند کرتے ہیں اور خدا سے نیک اور قابل اولاد کی خواہش کرتے اور ان لوگوں کی طرح جو مشکل اور خطرے کے وقت تو پورے خلوص سے بارگاہِ خداوندی کی طرف جاتے ہیں اور اس سے عہد کرتے ہیں کہ وہ حاجات پوری ہونے اور مشکلات حل ہونے کے بعد شکرگزار رہیں گے لیکن جب بچہ پیدا ہوجاتا ہے یا ان کی مشکل حل ہوجاتی ہے تو تمام عہدوپیمان فراموش کردیتے ہیںکبھی کہتے ہیں کہ ہمار بیٹا اگر صحیح وسالم اور خبصورت ہے تو ماں باپ پر گیا ہے اور قانونِ وراثت کا تقاضا تھا، کبھی کہتے ہیں کہ ہماری غذا، طریقہ اور دیگر امور اور حالات سازگار اور اچھے تھے لہٰذا یہ انہی کا نتیجہ ہے اور کبھی ان بتوں کا رخ کرتے ہیں کہ جن کی پرستش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بچّے پر انہی کی نظرِ کرم تھی ۔ اسی طرح باتیں کرتے ہیں اور خلقتِ الٰہی کے تمام نقوش نظر انداز کردیتے ہیں، یہ لوگ اس نعمت کی علت وسبب عوامل طبیعی کو قرار دیتے ہیں یا پھر اسے اپنے بیہودہ معبودوں کا کرشمہ شمار کرتے ہیں ۔ (2)
مندرجہ بالا آیات میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جو دوسر ی تفسیر سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں مثلاً:
۱۔ آیات کی تعبیریں ایسے میاں بیوی کی حالت بیان کرتی ہیں جو پہلے سے کسی معاشرے میں رہتے تھے اور اچھی بری اولاد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے ۔ لہٰذا انھوں نے اپنے خدا سے اچھی اولاد کا تقاضا کیا اور اگر آیات آدم وحوّا سے متعلق ہوتیں تو ان کے ہاں تو ابھی بچہ ہی نہیں ہوا تھا اور ابھی صالح وغیر صالح اور اچھے برے کا وجود ہی نہ تھا کہ وہ خدا سے اپنے لئے اچھے بیٹے کی درخواست کرتے ۔
۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ دوسری آیت اور اس کے بعد والی آیات میں سب جمع کی ضمیریں ہیں، یہ چیز بتاتی ہے کہ تثنیہ کی ضمیر سے مراد دو گروہ تھے نہ کہ دو شخص۔
۳۔ تیسری بات یہ ہے کہ بعد کی آیات نشاندہی کرتی ہیں کہ ان آیات میں شرک سے مراد بت پرستی ہے نہ کہ اولاد کی محبت وغیرہ اور یہ بات حضرت آدم(علیه السلام) اور ان کی زوجہ کے لئے روا نہیں ہے ۔
ان قرائن کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اُوپر والی آیت نوعِ انسانی اور شوہروں اور بیویوں کے بارے میں گفتگو کررہی ہے ۔ جیسا کہ ہم ا س تفسیر کی تیسری جلد صفحہ۱۸۲ (اردو ترجمہ) میں اشارہ کر آئے ہیں ، انسان کی بیوی کا انسان سے پیدا ہونے کا یہ معنی نہیں کہ اس کے لئے مرد کے بدن کا کوئی حصّہ الگ ہوکر بیوی بن گیا ہے(جیسا کہ بعض جعلی اور اسرائیلی روایت میں ہے کہ حوّا، آدم(علیه السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں) بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی بیوی اس کی نوع سے ہے جیسا کہ سورہٴ روم کی آیہ۲۱ میں ہے:
<وَمِنْ آیَاتِہِ اٴَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ اٴَنفُسِکُمْ اٴَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْھَا

قدرتِ خدا کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم نے تمھاری بیویاں نوع سے پیدا کی ہیں تاکہ ان سے سکون حاصل کرو۔

 


1۔ تفسیر نمونہ، ج۳، ص۱۸۱ (اردو ترجمہ) کی طرف رجوع کریں ۔
2۔ بعض مفسرین نے ابتدائے آیت کو حضرت آدم(علیه السلام) کے لئے اور ذیل آیت کو اولادِ آدم کے لئے قرار دیا ہے جو آیت کے ظاہری مفہوم سے کسی طرح سے بھی مطابقت نہیں رکھتا اور اصطلاح کے مطابق حذف اور تقدیر یا ضمیر کا مرجع کے غیر کی طرف پلٹانے کا محتاج ہے.
 
ایک عظیم نعمت کا کفرانایک مشہور اور جعلی روایت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma