متغیّر نہ ہونے والی ایک سنت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
مشرک، منافق اور شیطانی وسوسےایک سوال اور اس کا جواب

ان آیات میں دنیا کی اقوام و ملل کے بارے میں خدا تعالیٰ کی ایک دائمی سنت کی طرف اشارہ ہوا ہے تاکہ کہیں یہ خیال نہ ہو کہ جو کچھ میدان بدر مشرکین کے بُرےانجام کے بارے میں بیان ہوا ہے ایک استثنائی اور اختصاصی حکم تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے اعمال گذشتہ زمانے میں جس سے سرزد ہوئے یا آئندہ جس سے سرزد ہوں گے ایسے ہی نتائج کے حامل ہوئے اور ایسے ہیں نتائج کے حامل ہوںں گے۔
پہلے قرآن کہتا ہے: مشرکین کے حالات کی کیفیت فرعون کے خاندان اور ان سے پہلے کے لوگوں جیسی ہے (کَدَاٴْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ)۔ وہی کہ جنھوںنے آیاتِ خدا کا انکار کیا اور خدا نے انھیں ان کے گناہ کی وجہ سے پکڑا (کَفَرُوا بِآیَاتِ اللهِ فَاٴَخَذَھُمْ اللهُ بِذُنُوبِھِمْ)۔ کیونکہ خدا قوی اور صاحبِ قدرت ہے اور اس کا عذاب بھی شدید اور سخت ہے (إِنَّ اللهَ قَوِیٌّ شَدِیدُ الْعِقَابِ)۔
اس بناء پر صرف قریش اور مکہ کے مشرکین اور بت پرست ہی نہ تھے جوآیات الٰہی کا انکار ، حق کے مقابلے میں ہٹ دھرمی اور انسانیت کے سچّے رہبروں سے الجھنے کی وجہ سے اپنے گناہوں کے عذاب میں گرفتار ہوئے بلکہ یہ ایک دائمی قانون ہے جو فرعونیوں جیسی طاقتور قوموں اور بہت کمزور قوموں پر بھی محیط ہے۔
اس کے بعد اس مسئلے کی بنیاد کا ذکر کرکے اسے زیادہ واضح کیا گیا ہے، ارشادہوتا ہے: یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ خدا کسی قوم وملت پر جو نعمت اور عنایت کرتا ہے اسے کبھی دگرگوں نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ جمعیت اور قوم خوددگرگوں اور متغیر ہوجائے (ذٰلِکَ بِاٴَنَّ اللهَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِعْمَةً اٴَنْعَمَھَا عَلیٰ قَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِھِمْ)۔
بالفاظ دیگر خدا کا بے کنار فیض وکرم عمومی اور سب کے لئے ہوتا ہے لیکن وہ لوگوں کی قیادت اور اہلیت کا مناسبت سے ان تک پہنچتا ہے، ابتداء میں خدا اپنی مادی اور روحانی نعمتیں اقوامِ عالم کے شاملِ حال کردیتا ہے اب اگر وہ خدائی نعمتوں کو اپنے تکامل اور ارتقاء کا ذریعہ بنائیں اور راہِ حق میں ان سے مدد حاصل کریں اور ان سے صحیح استفادہ کی صورت میں ان کے لئے شکر ادا کریں تو وہ اپنی نعمتوں کوپائدار کرتا ہے بلکہ اس میں اضافہ کرتا ہے لیکن یہ عنایات اور نعمات اگر طغیان وسرکشی، ظلم وبیداد گری، ترجیح وتبعیض، ناشکری وغرور اور آلودگی وگناہ کا سبب بنیں تو اس صورت میں وہ یہ نعمتیں واپس لے لیتا ہے یا انھیں بلا ومصیبت میں بدل دیتا ہے۔ لہٰذا جو بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں در اصل ہماری وجہ سے ہوتی ہیں نعمات الٰہی تو زوال پذیر نہیں ہیں۔
اس ہدف کے بعد قرآن دوبارہ فرعونیوں اور ان سے پہلے کی طاقتور اقوام کے ایک گروہ کی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: نعمتوں کے سلب ہونے اور سخت قسم کے عذابوں کے چنگل میں گرفتار ہونے سے متعلق بت پرستوں کی کیفیت فرعونیوں اور ان سے پہلے کی قوموں جیسی ہے (کَدَاٴْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ)۔ ”انھوں نے بھی پروردگار کی ایات کی تکذیب کی“ اور انھیں پاوٴں تلے روندا جبکہ یہ آیات ان کی ہدایت، تقویت اور سعادت کے لئے نازل ہوئی تھیں (کَذَّبُوا بِآیَاتِ رَبِّھِمْ)۔ ”ہم نے بھی ان کے گناہوں کی وجہ سے انھیں ہلاک کردیا کردیا“ (فَاٴَھْلَکْنَاھُمْ بِذُنُوبِھِمْ)۔ ”اور فرعونیوں کو ہم نے دریا کی موجوں میں غرق کردیا“ (وَاٴَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ)۔ ”اور یہ قومیں اور ان کے افراد ظالم وستمگر تھے، اپنے لئے بھی ظالم تھے اور دوسروں کے لئے بھی (وَکُلٌّ کَانُوا ظَالِمِینَ)۔

 

مشرک، منافق اور شیطانی وسوسےایک سوال اور اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma