تفسیر

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 07
چند قابل توجہ نکاتمنافقین کی ایک اور نشانی

یہ آیات منافقین کی کچھ اور نشانیوں اور ان کے کام کے انجام کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور انہیں واضح کرتی ہے کہ کس طرح سے ان کے اعمال بے روح اور بے اثر ہیں اور ان سے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، نیز نیک اعما ل میں سے چونکہ راہ خدا میں خرچ کرنا (یعنی زکٰوة کی ادائیگی اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے )اور نماز کا قیام (خالق ومخلوق کے درمیان رشتے کی حیثیت سے )خاص مقام رکھتے ہیںلہٰذا خصوصیت کے ساتھ ان دو حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: اے پیغمبر! انہیں کہہ دو چاہے ارادہ و اختیار سے راہ خدا میں خرچ کرو اور چاہے کراہت و مجبوری اور شخصی واجتماعی رکھ رکھاؤ کی وجہ سے تم منافقین سے کسی حالت میں کچھ قبول نہیں کیا جائے گا(قُلْ اٴَنفِقُوا طَوْعًا اٴَوْ کَرْھًا لَنْ یُتَقَبَّلَ مِنْکُمْ) ۔(۱)
واضح ہے کہ ” فسق“ یہاں کوئی عام اور معمولی گناہ نہیں ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ انسان کسی گناہ کا مرتکب لیکن اس کے باوجود ایک نیک عمل بھی انجام دے دے بلکہ یہاں مراد اس سے کفر یا نفاق ہے یا ان کے نفاق کاریاکاری سے آلودہ ہونا ہے ۔
اس میں بھی مانع نہیں مندرجہ بالا جملے میں”فسق“ اپنے وسیع مفہوم کے لحاظ سے دونوں معانی میں ہو جیسا کہ بعد والی آیت بھی اس حصے کی وضاحت کرے گی ۔
اگلی آیت میں ان کے خرچ کئے ہوئے مال کے قابل قبول نہ ہونے کہ دوبارہ وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان کے انفاق اور مخارج کے قبول ہونے میں اس کے سوا کوئی امر مانع نہیں کہ وہ خدا اور اس کے پیغمبر کے منکر اور کافر ہیں اور ہر وہ کام جس میں خدا پر ایمان اورتوحید پریقین شامل نہ ہو بارگاہ خداوندی میں قابل قبول نہیں ہے( وَمَا مَنَعَھُمْ اٴَنْ تُقْبَلَ مِنْھُمْ نَفَقَاتُھُمْ إِلاَّ اٴَنَّھُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَبِرَسُولِہ) ۔
قرآن نے بارہا اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اعمال صالح کے قبول ہونے شرط ایمان ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی عمل ایمان کی بنا پر سرزد ہو اور ایک مدت کے بعد عمل کرنے والا شخص کفر کی راہ اختیار کرلے تو اس کا عمل حبط، نابود اور بے اثر ہوجائے گا(اس سلسلے میں ہم تفسیر نمونہ جلد ۲ میں تفصیلی بحث کرچکیں ہیں) (دیکھئے صفحہ ۶۶اردو ترجمہ) ۔
ان کے انفاق اور مالی اخراجات قبول نہ ہونے کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کی عبادات کی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ نماز بجانہیں لاتے مگر کسالت وناراحتی کے ساتھ اور بوجھ سمجھتے ہوئے( وَلَایَاٴْتُونَ الصَّلَاةَ إِلاَّ وَھُمْ کُسَالَی)، جیسا کہ وہ خرچ بھی بس کراہت ومجبوری کے عالم میں کرتے ہیں (وَلَایُنفِقُونَ إِلاَّ وَھُمْ کَارِھُونَ) ۔
درحقیقت دووجوہ کی بنیاد پر ان کے خرچ شدہ اموال قابل قبول نہیں ہوئے، ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ حالت کفر اور عدم ایمان میں سرزد ہوئے ہیں اور دوسری وجہ ی ہے کراہت اور مجبوری کے عالم میں خرچ کئے گئے ہیں، اسی طرح ان کی نماز بھی دو وجوہ سے قبول نہیں ہوئی ایک کفر کی وجہ سے اور دوسرا کسالت اور ناپسندیدگی کی حالت میں ادئیگی کے سبب۔
مندرجہ بالا جملوںمیں منافقین کی کیفیت ان کے بے ثمر اعمال کے لحاظ سے بیان کی گئی ہے اس کے باوجود ان میں ان کی ایک اور نشانی بھی بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ حقیقی مومنین کو عبادت میں ان کی خوشی اور نشاط کے سبب اور نیک اعمال سے ان کی رغبت اور خلوص کی بنا پر وہ سرد مہری، بے رغبتی، ناراحتی اور کراہت سے کار خیر انجام دینے کے لئے قدم اٹھاتے ہیں گویا کوئی شخص جبرا ان کا ہاتھ پکڑے انہیں کار خیر کی طرف لیے جارہا ہو۔
واضح ہے کہ پہلے گروہ کے اعمال چونکہ عشق الٰہی کی بنا پر سرزد ہوتے ہیں اور ان میں دلسوزی ہوتی ہے لہٰذا ان اعمال کے آداب و قواعد کا خیا رکھا جاتا ہے لیکن دوسرے گروہ کے اعمال میں چونکہ کراہت، ناپسندیدگی اور بے رغبتی ہوتی ہے لہٰذا وہ ناقص، ٹوٹے پھوٹے اور بے روح ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے اسباب وعلل کا اختلاف ان کی مختلف شکلیں صورتیںاختیار کرنے کا سبب بنتا ہے ۔
آخری آیت میں روئے سخن پےغمبر کی طرف کرتے ہوئے فرمیا گیا ہے:”ان کے مال و اولاد کی کثرت تجھے تعجب میں نہ ڈال دے“ اور تم یہ نہ سوچنے لگ جاؤ کہ اس کے باوجودکہ وہ منافق ہیں انہیں یہ سب نعمات الٰہی کیونکر میسر ہیں( فَلَاتُعْجِبْکَ اٴَمْوَالُھُمْ وَلَااٴَوْلَادُھُمْ ) کیونکہ یہ چیزےںظاہرا تو ان کے لے نعمات ہیں لیکن حقےقت میں خدا چاہتاہے کہ اس طرح انہیںدنیاوی زندگی میں معذب کرے اور ان چیزوں سے بے انتہادل بستگی کی وجہ سے وہ کفر اور بے ایمانی کی حالت میں مرجائیں(إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَتَزْھَقَ اٴَنفُسُھُمْ وَھُمْ کَافِرُونَ) ۔
در حقیقت وہ ان اموال واولاد (اقتصادی اور افرادی قوت) کے ذریعے دو راستوں سے معذّب ہوں گے، پہلا تو یہ کہ عام طور پر ایسے افرد کی اولاد غیر صالح ہوتی ہے اورمال بے برکت ہوتا ہے جوکہ دنیاوی زندگی میں ان کے لئے رنج والم کا باعث بنتے ہیں، کیا یہ بات باعث رنج الم نہیں کہ شب وروز ایسی اولاد کے لئے کوشش کی جائے جو ننگ و عار اور پریشانی کا باعث ہے اور ایسے مال کی حفاظت میں جان جوکھوں میں ڈالی جائے جو گناہ کے راستے سے کمایا ہے، دوسری طرف یہ لوگ چونکہ ان اموال اور اولاد سے لگاؤ رکھتے ہیں اور آخرت کی پر نعمت اور وسیع دنیا اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا اس سب مال متال سے آنکھیں بند کرلینا ان کے لئے مشکل ہے یہاں تک کہ انہیں چیزوں پر ایمان رکھ کر کفر کے ساتھ دنیا سے چلے جاتے ہیں اور سخت ترین حالت میں جان دیتے ہیں ۔
مال و اولاد اگرپاک اور صالح ہوں تو نعمت ہے اور رفاہ وآسائش کا سبب ہے اور اگر ناپاک اور غیر صالح ہو تو رنج وتکلیف اور عذاب الیم ہیں ۔

چند اہم نکات

۱۔ کیا منافقین خوشی سے خرچ کرتے ہیں:
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ پہلی آیت کے شروع یہ کیسے کہہ دیا گیا ہے کہ چاہے اختیار سے خرچ کرو چاہے مجبوری سے، تم سے قبول نہیں ہوگا جب کہ دوسری آیت کے آخر میں تصریح کی گئی ہے کہ وہ صرف کراہت اور مجبوری کے عالم ہی میں خرچ کرتے ہیں، کیا یہ دونوں آیتیں ایک دوسرے کے منافی ہیں؟
ایک مطلب کی طرف متوجہ ہوا جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ پہلی آیت کی ابتدا درحقیقت ایک ”قضیہ شرطیہ “ کی صورت میں ہے یعنی اگریا اکراہ کی صورت میں خرچ کرو، جس صورت میں بھی ہو قابل قبول نہیں ہوگا اور ہم جانتے ہیں کہ قضیہ شرطیہ وجود شرط کی دلیل نہیں ہے یعنی فرض کریں کہ وہ میل ورغبت اور اختیار وارادہ سے بھی خرچ کریں تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں چونکہ وہ ایمان نہیں رکھتے ۔
لیکن دوسری آیت میں ”قضیہ خارجیہ“ کو بیان کیا جارہا ہے اور وہ یہ کہ یہ لوگ ہمیشہ اکراہ اور ناپسندیدگی ہی سے خرچ کرتے ہیں(غور کیجئے گا) ۔
۲۔ صرف نماز روزہ کافی نہیں:
دوسرا درس جو مندرجہ بالا آیات سے حاصل کیا جاسکتا ہے یہ ہے کہ صرف لوگوں کی نماز، روزہ اور زکٰواة پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ منافقین نماز بھی پڑھتے ہیں اور ظاہرا راہ خدا میں خرچ بھی کرتے ہیں بلکہ منافقوں کی نمازوںاور سخاوتوں کو سچے مومنین کے پاک اور مصلحانہ اعمال الگ پہچاننا چاہیے اور اتفاق کی بات ہے کہ غور کرنے اور تحقیق وجستجو سے ظاہرعمل سے بھی عموما پہچان ہوجاتی ہے ۔
حدیث میں ہے :
لا تنظروا الی رکوع الرجل وسجودہ فان ذالک شیء اعتادہ ولوترکہ استوحش ولیکن انظروا الی صدق حدیثہ واداء امانتہ۔
کسی کے لمبے لمبے رکوع اور سجدوں کو نہ دیکھو کیوں کہ ہوسکتا ہے یہ عادتی عبادت ہو جسے چھوڑنے سے اسے پریشانی ہوتی ہے بلکہ اس کی راست گوئی اور امانت کی ادائیگی پر نظر رکھو کیوں کہ سچائی ، راستی اور امانت کا سرچشمہ ایمان ہے جبکہ عادتی رکوع وسجود کفر ونفاق کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔

 

۵۶ وَیَحْلِفُونَ بِاللهِ إِنَّھُمْ لَمِنْکُمْ وَمَا ھُمْ مِنْکُمْ وَلَکِنَّھُمْ قَوْمٌ یَفْرَقُونَ۔
۵۷ لَوْ یَجِدُونَ مَلْجَاٴً اٴَوْ مَغَارَاتٍ اٴَوْ مُدَّخَلًا لَوَلَّوْا إِلَیْہِ وَھُمْ یَجْمَحُونَ۔
ترجمہ
۵۶۔وہ خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں اور وہ لوگ ہے جو ڈرتے ہیں(اور وحشت زدہ ہیں لہٰذا وہ جھوٹ بولتے ہیں) ۔
۵۷۔اگر انہیں کوئی پانہ گاہ یا غاریں یا کوئی زیر زمین راستہ مل جائے تو وہ اس کی طرف چل پڑلیں حالانکہ وہ تیزی میں بھاگ کھڑے ہوں گے ۔

 


۱۔ ”انفقوا“ اگرچہ صیغہ امر کی شکل میں ہے لیکن مفہوم شرط رکھتا ہے یعنی اگرتم خرچ کرو چاہے اختیار سے یا مجبوری سے تم سے قابل قبول نہیں ہوگا ۔
اس کے بعد اس کی دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: کیوں کہ تم فاسق گروہ ہو ( إِنَّکُمْ کُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِینَ)، تمہاری نیتیں غلط، تمہارے اعمال ناپاک اور تمہارے دل تاریک ہیں اور خدا صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو پاک وپاکیزہ ہو اور جسے ایک پاکیزہ شخص تقویٰ وپرہیزگاری کے ساتھ انجام دے ۔
 
چند قابل توجہ نکاتمنافقین کی ایک اور نشانی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma