خیارات : 1. خیار شرط

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
استفتائات جدید 03
نقد اور ادھار۲۔ خیار عیب

سوال ۵۲۲۔ ایک شخص کی دوسرے آدمی سے لڑائی ہوجاتی ہے جس میں وہ شخص مدمقابل کو قتل کردیتا ہے سن ۱۳۵۸ھ ش میں قتل کی دیت، اٹھارہ ہزار افغانی (روپیہ) معیّن ہوتا ہے، لیکن چونکہ قاتل کے پاس نقد رقم نہیں تھی، وہ اپنی زمین کو اس شرط پر فروخت کردیتا ہے کہ وہ اس معاملہ (بیعانہ) کو فسخ کرسکتا ہے یعنی جب وہ مذکورہ رقم ادا کردے گا تو اپنی زمین واپس لے لیگا، کیا قاتل کو حق ہے کہ رقم دے کر اپنی زمین کو واپس لےلے؟

جواب: اس طرح کا خیار شرط صحیح نہیں ہے، لیکن اگر بیعانہ کرتے وقت وہ شخص مغبون تھا تو خیار غبن کو استعمال کرسکتا ہے ۔

سوال ۵۲۳۔ اگر ادھار کی صورت میں کسی مکان کا معاملہ ہوجائے تو بیعانہ میں یعنی خرید وفرخت کے صیغہ میں شرط کی جائے کہ اگر خریدار معین وقت پر قیمت ادا نہ کرے تو بیچنے والے (مالک) کو معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہوگا، لیکن اس اختیار کو استعمال کرنے کی مدّت کو معین نہیں کیا گیا ہے اور چونکہ خرید وفروخت کے صیغہ میں خیارشرط کی مدّت کو معیّن کرنا ضروری ہوتا ہے لہٰذا اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا اس قسم کا معاملہ صحیح ہے؟

جواب: یہ معاملہ اور اس شرط میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ حق سے فائدہ اٹھانا اور اسے استعمال کرنا، مقامی رواج اور عادت کے مطابق ہے، ہاں البتہ توجہ رہے کہ شرط کا باطل ہونا، عقد معاملہ کے باطل ہونے کا باعث نہیں ہوتا ۔

سوال ۵۲۴۔ معمول ہے کہ بعض معاہدوں میں (معاہدہ کو مضبوط کرنے کی غرض سے) کچھ رقم، معاہدے کو پکّا اور لازمی کرنے کے لئے، طرفین معاملہ سے منظور کی جاتی ہے تاکہ اگر معاہدہ کرنے والا کوئی ایک آدمی معاہدے سے پھر جائے یا معاہدہ کو پورا کرنے میں دیر کرے تو مذکورہ رقم دوسرے فریق کو ادا کرے مثال کے طور پر خرید وفروخت کے معاملہ میں، شرط کی جاتی ہے کہ اگر مالک (بیچنے والا) اپنی چیز کو سرکاری طریقہ سے خریدار کے حوالہ (نام) نہ کرے گا تو دس لاکھ تومان خریدار کو دے گا ، یا عمارت بنانے کے معاہدے میں طے ہوجاتا ہے کہ اگر ٹھیکیدار مقررہ وقت پر عمارت بناکر نہیں دے گاتو ہر مہینہ کی تاخیر کے حساب سے ایک لاکھ تومان ادا کرے گا، یعنی معاہدہ کرنے والے طرفین ہی پہلے سے نقصان کی مقدار کو فرض کرلیتے ہیں، حالانکہ ممکن ہے کہ واقعی نقصان مذکورہ رقم سے کم یا زیادہ ہو، یا حقیقت میں بالکل نقصان ہی نہ ہو، یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ایران کے قانون کی دفعہ ۱۰ اور ۲۳۰ کے مطابق اس طرح کی شرط کرنا ممکن ہے، برائے مہربانی اس سلسلہ میں درج ذیل سوالوں کے جواب عنیات فرمائیں:
الف)۔اس کی شرعی حقیقت کیا ہے؟

جواب: اس کا شرعی جواز دوطریقوں سے ممکن ہے؛ پہلا طریقہ یہ ہے کہ خلاف ورزی، فسخ کرنے کے حق کا باعث ہوتی ہے، لیکن فسخ کرنے کا اختیار مشروط ہے کہ فلاں مبلغ رقم، گھاٹے کے عنوان سے ادا کیا جائے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاملہ، فسخ نہ ہو یا دیر سے انجام پائے اور پہلے سے نقصان کی پیشنگوئی کا عقد معاملہ میں شرط کے عنوان سے ذکر کیا جائے ان دونوں صورتوں میں اس رقم کا وصول کرنا جائز ہے ۔

ب)۔ شرط کے جائز ہونے کی صورت میں، اگر معاہدے کو انجام دینے کا انتخاب، یا معاہدہ کرنے والے کومعاہدے کو لازم کرنے کی غرض سے کچھ رقم دی جائے یعنی طے ہوجائے کہ وہ اپنی تشخیص کے مطابق یا تو معاہدے کو پورا کرے یا پھر اس کے بجائے اتنی رقم کو ادا کرے، کیا یہ کام معاملہ کے مردد ہونے باعث ہوگا، کیا نتیجةً عقد معاملہ باطل نہیںہوگا؟

جواب: یہ کام معاملہ کے مردد ہونے کا باعث نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر معاملہ کوفسخ کرے تو اس حق کے عوض فلاں رقم ادا کرے ۔

ج)۔ اگر ٹھیکیدار عقد معاملہ کے ذیل میں طے کرے کہ اگر معاہدہ کو انجام نہ دے یا اس کے انجام دینے میں تاخیر کرے یہاں تک کہ یہ بات تیسرے شخص سے منسوب ہو، تب بھی اس رقم کو بذات خود ادا کرے (یعنی مطلق طور پر ضامن ہو) اس صورت میں مسئلہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: مذکورہ دونوں فرضوں میں، تاخیر کے سبب اور نقصان میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

د)۔ اگر عقد معاملہ میں شرط کی جائے کہ معاہدہ کرنے والے کے معاہدہ کو چھوڑنے کی صورت میں اس پرلازم ہے کہ معاہدہ کو بھی انجام دے اور بیعانہ کی رقم بھی ادا کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟

جواب: اگر شرط، تاخیر سے مربوط ہو تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

ھ)۔ اگر معاہدے کے وقت کے حالات کی وجہ سے ٹھیکیدار، معاہدے کو انجام دینے سے معذور ہو یعنی اس معاہدے کو انجام دینا اس کے لئے ناممکن تو نہیں ہے لیکن سخت اور طافت فرسا کام ہو، کیا اس صورت میں بھی، انجام نہ دینے یا تاخیر کرنے کی حالت میں بیعانہ کی رقم ادا کرے گا؟ نیز کیا اس صورت میں بیعانہ کی رقم میں حاکم نرمی اختیار کرسکتا ہے؟

جواب: اگر شرط مطلق تھی اور عام لوگوں کو فہم کے مطابق تھی تب تواس صورت کو بھی شامل ہوگی اور اسی کے اوپر عمل کیا جائے گا ۔

سوال ۵۲۵۔ اگر کوئی معاملہ انجام دیا جائے اور خریدار وقتِ مقرّرہ پر قیمت ادا نہ کرے یا اس میں سے کچھ قیمت روک لے اور خریدے ہوئے سامان کو کسی دوسرے کو فروخت کردے کیا پہلا بیچنے شخص معاملہ کو توڑسکتا ہے اور سامان کو دوسرے خریدار سے لے سکتا ہے، یا اس کے بعد والے خریداروں سے لے سکتا ہے؟ (جبکہ سامان چند مرتبہ بیچا جاچکا ہو) اگر پہلے خریدار نے بیچنے والے کو چیک دیا ہو اور وقتِ مقرّرہ پر چیک کیش نہ ہوا ہو، کیا یہ صورت مسئلہ میں فرق کا باعث ہوگی؟

جواب: اگر بیچنے والے نے یہ شرط لگائی ہو کہ فلاں وقت خریدار قیمت ادا کرے گا لیکن خریدار نے اس کی خلاف ورزی کی ہو بیچنے والے کے لئے شرط خیار کا حق ہے اور اگر مال کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل ہوگیا ہو تو خلاف ورزی کرنے والا، خریدار، بیچنے والے کو اس مال کا مثل یا اس کی قیمت ادا کرے گا ۔
نقد اور ادھار۲۔ خیار عیب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma