5 . جوا کهیلنا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
استفتائات جدید 03
4 . هتهیلی بجانا6 . مجسمه بنانا

سوال ۴۷۱۔ اسلام کی نظر میں ورزش کی اہمیت نیز تعلیمی اورورزشی فضا اور مقامات کو وسعت دینے کے پیش نظر، دشمن کے شب خون اور ہجوم سے بچنے کی غرض سے،نیز ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ورزش اور جسمانی کثرت، انسان کے جسمانی اور روحانی نشاط وشادابی کا باعث اور معاشرے کی صحت وسلامتی اس کی بقا اور حفاظت کا پیش خیمہ ہوتی ہے آپ کی خدمت میں التماس ہے کہ بیلیادر نامی ورزش کے بارے میں، شریعت کی رو سے اپنا نظریہ بیان فرمائیں؟

جواب: مذکورہ کھیل سے جب جوئے کا عنوان ختم ہوجائے اور عام لوگوں کی نظر میں وہ ایک ورزش یا تفریح کی حیثیت سے معروف ہوجائے تب اس صورت میں، مال کی ہار جیت کے بغیر، اس سے کھیلنے میں اشکال نہیں ہے اور اس صورت کے علاوہ جائز نہیں ہے ۔

سوال ۴۷۲۔ تفریحی امکانات کی کمی کی وجہ سے تاش کی ایک گڈی لے کر ہم لوگوں نے وقت گذارنے کے لئے خود کو مصروف کرلیا، لیکن تاش کے یہ پتّے کارخانہ کے نگران افسر کے ذریعہ ضبط اور ہمارے اوپر جوئے کا الزام لگ جاتا ہے، تفریحی امکانات کی قلّت اور بوجھل طریقہ سے وقت گذارنے کو ملحوظ رکھتے ہوئے، برائے مہربانی اس مسئلہ کے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں، کیاشریعت کی رو سے یہ کام حرام ہے؟ اور حرام ہونے کی صورت میں کیا یہ کام کرنے والوں کو سزا دی جائے گی؟

جواب: اس کا جواب گذشتہ مسئلہ کی طرح ہے ۔

سوال ۴۷۳۔ محترم مجتہدین نے اپنی توضیح المسائل میں، ورزش کے سلسلے میں اس طرح بیان کیا ہے: ”جب کوئی کھیل یا ورزش، جوئے کا آلہ کار بنّے کی حالت سے خارج ہوجائے تب اس میں کوئی اشکال نہیں ہے“ مجھ حقیر کا سوال یہ ہے کہ: جوئے کا آلہ بنے کی حالت سے خارج ہونے کا معیار کیا ہے؟
۱۔ دنیا کے سب لوگ معیار ہیں یا اکثر
۲۔ تمام مسلمان معیار ہیں یا مسلمان کی اکثریت یا مُلک ایران؟
۳۔ آیا مذکورہ جوئے کے آلے سے دنیا میں کسی کو بھی جوا نہیں کھیلنا چاہیے یا کوئی اور چیز معیار ہے؟

جواب: معیار یہ ہے کہ جس علاقہ میں اس سے کھیلا جاتا ہے وہاں کے رہنے والے حضرات اس کو جوئے کا ذریعہ وآلہ نہ سمجھتے ہوں بلکہ اُسے ایک قسم کی ورزش شمار کرتے ہوں ۔

سوال ۴۷۴۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کی سوانح حیات اور احکام شرعی کے سلسلے میں لوگوں کی معلومات میں مزید اضافہ کرنے کی غرض سے انعامی مقابلے رکھے جاتے ہیں:
الف) شریعت کی رو سے ان انعامی مقابلوں کا کیا حکم ہے؟
ب) اگر انعامی مقابلہ کی امداد کی غرض سے مقابلہ میں شریک ہونے والوں کی مرضی سے کچھ رقم وصول کی جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج) شریک ہونے والے حضرات کے درمیان، تعلیمی رقابت پیدا کرنے کی غرض سے، ان ہی سے وصول کی ہوتی رقم سے، انعامات دینے کا کیا حکم ہے؟
د) اگر شریک ہونے حضرات کو بتادیا جائے کہ انعامی مقابلہ سے اگر کوئی آمدنی ہوئی ہے تو اُسے فلاں مقام پر خرچ کیا جائے گا، اس صورت میں کیا اس آمدنی کو مذکورہ کاموں میں خرچ کرنا جائز ہے؟ یا اس میں بھی اشکال ہے؟

 

جواب:

سوال ۴۷۵۔ ایران کی فلاں نام.... کی کمپنی ”رابطہ اور مل کر کام کرنا“ کے عنوان سے، ممبر بنانا شروع کردیتی ، جس میں کمپنی کے ہر ممبر کے لئے ضروری ہے کہ کمپنی اور سات لوگوں کی فہرست جو اس کو بھیجی گئی ہے اس میں سے چار لوگوں کے بینک اکاوٴنٹ میں تیرہ سو تومان ڈالے، (یعنی پانچ سوتومان کمپنی کے لئے اور دوسو تومان چار لوگوں میں سے ہر شخص کے لئے) مذکورہ رقم ادا کرنے کے بعد یہ شخص بھی سات لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجائےگا جبکہ ساتواں شخص اس سے نکل جائے گا اور اس ترتیب سے نئے ممبر بنتے رہیں گے اور قدیمی ممبر یکے بعد دیگرے اس فہرست سے نکلتے رہیں گے، یہاں تک کہ یہ شخص جو پہلے نمبر پر تھا، ساتویں نمبر پر پہونچ کر فہرست سے نکل جائے گا، وہ لوگ دعویدار ہیں کہ اس مرحلہ میں ۵۴۳/۸۲۳ ممبران میں سے ہر شخص مبلغ دو سو تومان کی رقم، اس شخص کے اکاؤنٹ میں ڈالتا ہے، یہ سب رقم مل کر ۰۰۰/۴۰۰/۶۸۱/۱ تومان ہوتے ہیںجو اس شخص کے اکاوٴنٹ میں ڈالے جاتے ہیں اور یہ سب رقم نئے ممبران کی جانب سے اس کے کھاتے میں ڈالی جاتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام شریعت کی رو سے جائز ہے؟ اس کمپنی کا کیا حکم ہے؟ اور اگر کسی نیک کام اور غریبوں کی مدد کے لئے ایسا کیا جائے تب حکم کی کیا کیفیت ہوگی؟

جواب: یہ کام دھوکہ دھڑی اور جوئے سے مشابہ ہے اور حرام ہے ۔

سوال ۴۷۶۔ حکومتی ادارے کی طرف سے، لوگوں کے درمیان معین رقم کے عوض، ”یتیم خانہ کا تحفہ“ کے عنوان سے فارم فروخت کئے جاتے ہیں، ان میں سے بعض فارموں پر سوالات بھی لکھے ہوتے ہیں کہ جو لوگ ان سوالوں کا صحیح جواب دیں گے، انھیں قرعہ اندازی میں شریک کیا جائے گا اور جن حضرات کا قرعہ میں نام نکلے گا انھیں انعام دیئے جائیں گے، اس کام کے ذمہ دار حضرات کے اظہار کے مطابق، اس کی آمدنی نیک کاموں میں خرچ کی جائے گی، جبکہ فارم خریدنے والے حضرات تین قسم کے ہوتے ہیں:
۱۔ بعض حضرات وہ ہیں جو فقط نیک کاموں میں شریک ہونے کی غرض سے مذکورہ قسم کے فارم خریدتے ہیں ۔
۲۔ بعض لوگ فقط قرعہ اندازی میں شریک ہونے کے متمنی ہوتے ہیں ۔
۳۔ جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خواہ قرعہ اندازی میں ان کا نام آئے یا نہ آئے بہرحال اُن کے لئے کوئی فرق نہیں ہوتا ۔
برائے مہربانی اس کام کے ذمہ دار حضرات ، فارم فروخت کرنے والے اور خریداروں کا حکم بیان فرمائیں؟
نیز اس ادارے کی طرف سے ، سیلاب زدہ علاقوں کی امداد کے لئے دوسرے ٹکٹ فروخت ہوتے ہورہے ہیں اس میں قرعہ اندازی میں تمام خریداروں کو شریک کیا جائے گا، اس فرق کے ساتھ کہ ان میں کوئی سوال نہیں کیا گیا ہے، بلکہ جتنے لوگ خریدیں گے ان سب کو قرعہ اندازی میں شریک کیا جائے گا، اس قسم کے ٹکٹ کا کیا حکم ہے؟

جواب: یہ سب کچھ، پہلے بیان شدہ، مقدر آزمانے کی قسم کا کام ہے اور شریعت کی رو سے حرام ہے؛ مگر یہ کہ سب کے سب خریدار پہلی قسم کے ہوں، یعنی فقط مدد کرنے کی نیت سے ٹکٹ یا فارم خریدیں، لیکن ہمیں معلوم ہے کہ سب لوگ اس طرح کے نہیں ہوتے، بلکہ بہت سے قرعہ اندازی میں شریک ہونے کے ارادے سے ٹکٹ یا فارم خریدتے ہیں اور اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ قرعہ اندازی میں انھیں شریک نہیں کیا جائے گا تو راضی نہیں ہوتے اور نیک کاموں میں سے اس آمدنی کو خرچ کرنے سے مسئلہ کی حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی اور اس میں سوالات لکھنے سے بھی یہ مشکل حل نہیں ہوگی، امید ہے کہ غریب ومحتاجوں کی مدد کرنے کے لئے ایسے طریقے اپنائے جائیں جو احکام شرعیہ کے مناسب ہوتے ہیں کہ معاشرے کی مصلحت اور فائدہ اسی میں ہے ۔

سوال ۴۷۷۔ کچھ عرصہ پہلے ایک مشکوک اقتصادی پیشکش اور پروگرام جو بظاہر یورپ سے لیا گیا ہے، حکومت کی اجازت سے ملک (ایران) کے بعض علاقوں میں اجرا کیا جارہا ہے، مذکورہ پیشکش اس قسم کی ہے:
جو شخص اس اقتصادی پرگرام میں شریک ہونا چاہتا ہے ، پہلے مرحلہ میں ایک فارم دریافت کرتا ہے جس کی پشت پر، پروگرام چلانے والوں کے بینک کے اکاوٴنٹ نمبر کے ساتھ ساتھ سات لوگوں کا مکمل نام، پتہ اور اکاوٴنٹ نمبر درج ہوتا ہے، فارم کو وصول کرنے والے شخص کے لئے اس پروگرام میں شریک ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مبلغ پانچسو تومان پروگرام چلانے والوں کے بینک اکاوٴنٹ میں اور مبلغ دو سو تومان، فارم کے پیچھے درج شدہ ہر نام کے اکاوٴنٹ میں جمع کرکے دفتر کے پتہ پر روانہ کرے، کچھ مدت بعد اس دفتر کی طرف سے سات فارم اس کے لئے بھیجے جائیں گے، جن میں اس کا نام پہلے نمبر پر درج ہوگا اب اس کی ذمہ داری ہے کہ مذکورہ سات فارموں کو سات کارآمد اور فعّال اشخاص اور ممبروں میں تقسیم کرے ، مذکورہ فارم وصول کرنے والے اشخاص بھی اسی طرح عمل کریں گے، یہ قصہ اسی طرح جاری رہے گا، وہ لوگ مدّعی ہیں کہ آخر میں ہر شخص کو مبلغ ۰۰/۴۰۰/۶۸۱/۱ تومان حاصل ہوجائیں گے، دفتر کے کھاتے میں جمع ہونے والی رقم میں دس فیصد نیک کاموں میں خرچ کی جائے گی
برائے مہربانی اس مسئلہ کے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں؟

جواب: اقتصاد کی اس قسم کی جھوٹی فعالیّت جائز نہیں ہے ، یہ مغربی دنیا کی بدترین دھوکہ دھڑی ہے، ایسا کذنے والا شریعت کی رو سے مستحق سزا ہے، اس لئے کہ وہ لمبی رقم جو بعض لوگوں کو دی جائے گی، نہ تو پیداوار سے حاصل ہوتی ہے اور نہ تجارت سے وصول ہوئی، بلکہ دھوکہ سے دوسروں کا مال ہڑپ کرکے کچھ حصہ، ادارے کے لئے، کچھ شریک ہونے والوں کے لئے اور ظاہر کو بچانے کے لئے ممکن ہے کچھ رقم کو نیک کاموں سے مخصوص کردیں، یہ عجوبہ اقتصادی پروگرام غیرممالک سے آئے ہیں، امید ہے مربوط محکمہ متوجہ ہوجائے اور اس طرح کے مسائل سے دھوکہ نہ کھائے، قابل احترام اسلامی حکومت پر لازم ہے اس مسئلہ میں مداخلت کرے اور اس غلط اقتصادی فعالیت کی روک تھام کرے، اس لئے کہ جب اس میں شریک حقداروں کی تعداد زیادہ ہوجائے گی اور عملی طور پر پروگرام ایک مقام پر موقوف ہوجائے گا اور شریکوں کی کثیرت تعداد کوکچھ وصول نہیں ہوگا تب ممکن ہے کہ معاشرے میں شور وشرابہ ہو، ہماری عزیرالقدر قوم پر بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے تاکہ اس قسم کے جال میں نہ پھنسیں ۔

سوال ۴۷۸۔ ایک قرض الحسنہ سوسائٹی عوام کو ساتھ سات لاکھ تومان کا قرض دینے کے مقصد سے درج ذیل شرائط کے ساتھ بنائی گئی ہے:
۱۔ قرض کے خواہشمند حضرات ، درخواست دیتے وقت مبلغ تین ہزار تومان سوسائٹی کے کارکنان کے محنتانہ کے طور پر، ادا کریں ۔
۲۔ درخواست دینے والا ہر آدمی ، قرض کے ضرورتمند تین لوگوں کو آشنا کرائے (یعنی تین ممبر بنائے) اور ان تینوں میں سے بھی ہر آدمی مبلغ تین ہزار تومانمحنتانہ کے طور پر اداکرے ۔
۳۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے یہاں تک کہ درخواست دینے والا پہلا شخص، ساتویں نمبر پر پہونچ جائے ، تب اس صورت میں وہ شخص قرض لینے کے لئے اقدامات کرسکتا ہے ۔
۴۔ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قرض الحسنہ سوسائٹی، مذکورہ محنتانہ کے علاوہ قرض لینے والوں سے مزید اور کوئی فائدہ وصول نہیں کرتی۔
شریعت کی رو سے مذکورہ اقتصادی کاموں کا حکم کیا ہے؟

جواب: یہ کام حقیقت میں ایک قسم کے جوئے سے مشابہ ہے اور تھوڑا پیچیدہ ہے، افسوس اس کی اصل جڑ مغری دنیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ رقم، محنتانہ طور پر وصول کی جاتی ہے، اور ساتھ لاکھ قرض دیا جاتا ہے جبکہ وہ بھی واپس کمیٹی کی جیب میں چلا جاتا ہے، محنتانہ ان لوگوں کی زحمتوں کا منصفانہ حق ہوتا ہے جو اس ادارے میں کوئی کام انجام دیتے ہیں، جسے اُن کے کام کی مقدار کے مطابق، اجرت کے طور پر انھیں دیا جانا چاہیے اور ایک ہی مرحلہ میں ساٹھ لاکھ تومان کی کثیر رقم کو محنتانہ کا نام دینا ایک قسم کا دھوکہ وفریب ہے، یقیناً آپ حضرات اس ناجائز کام میں ملوث ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں گے ۔

سوال ۴۷۹۔ ”یتیم خانہ کا تحفہ“ اور اسی طرح کی دیگر پیشکش کے بعد، ٹیلیویژن اور دوسرے ذرائع ابلاغ رسالہ وغیرہ میں، اسی جیسی پیشکش پر بعض قصبوں، شہروں اور ضلعوں میں، عمل ہورہا ہے اور اس میں کام کرنے والے اشخاص عام لوگوں کی رقم جمع کرنے کا مقصد، قرآنی اور نیک کام کے اداروں کو تعمیر کرنا بناتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ایک ضلع میں ”باقیات الصالحات“ کے نام سے نئی پیشکش پر عمل درآمد شروع کیا گیا ہے، جس میں اس کے ٹکٹ خریدنے والوں کے لئے دو کروڑ کے انعامات تقسیم کرنا منظور کیا گیا ہے اس قسم کے کاموں کے سلسلہ میں آپ کا کیانظریہ ہے؟

جواب: یہ سب حرام ہیں اور لاٹری کے ٹکٹ کی طرح ہیں نیز اُن کے اوپر مقدس ناموں کا ملمع لگانے سے یہی نہیں کہ ان کی برائی میں کمی آتی ہے بلکہ ان کی برائی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور لبھانے والے ظاہر کے باوجود اس کے اوپر بہت زیادہ گناہ مترتب ہوتے ہیں یعنی اس کے نتیجہ میں بہت گناہ سرزد ہوتے ہیں ۔

سوال ۴۸۰۔ میں نے بعض دوستوں کے ساتھ ، ”گولڈ کوئیسٹ“ نامی کمپنی میں سرمایہ لگایا ہے، اب ہمیں معلوم ہوا ہے جنابعالی نے اس کمپنی کو حرام جانا ہے اسی وجہ سے ہم چاہتے کہ آپ کی خدمت میں اس کام کے بنیادی مطالب کی وضاحت کردیں جو آپ کو بتائے نہیں گئے ہیں، وہ مطالب یہ ہیں:
تجارتی کام کا چینل ہے حس میں لوگ انٹرنیٹ سائٹ کے ذریعہ خریداری کرتے ہیں اور تمام چیزیں یہاں تک کہ خریدوفروش کی چیزیں بھی اسی طریقہ سے خرید وفروخت کی جاتی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ یہ کمپنیاں، یہاں تک کہ غذائی چیزوں کی کمپنیاں بھی خریداری کے لئے کچھ امتیازات کی قائل ہوتی ہیں، تاکہ لوگ اس سے خریداری کریں اور ان باتوں کی ایک یورپ یا امریکی شخص صراحت سے تصدیق کردیتا ہے، گولڈ کوئیسٹ(Goldguest) کمپنی کا شمار بھی انہی تجارتی کمپنیوں میں ہوتا ہے جو آزاد خرید وفروخت کے علاوہ اپنی بکری بڑھانے کے لئے خریداروں کے لئے یہ امکان فراہم کرتی ہے کہ کمپنی سے قسط وار بھی خریداری کی جاسکے، دیگر حضرات نے جو معلومات آپ کی خدمت میں پہونچائی ہیں ان میں سے یہ بات چھوٹ گئی ہے کہ: جس وقت کمپنی کی انٹرنیٹ سائٹ میں داخل ہوئیے گا تو آپ سے سوال کیا جائے گا، کیا آپ فقط سونے کا سکّہ خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا خریداری کے علاوہ بازار کی تلاش کے کام میں بھی شریک ہونا چاہتے ہیں؟ یہاں تک کہ آدمی اپنا نام لکھ کر ایک مہینہ کے بعد ان کے اکاوٴنٹ میں رقم ڈال سکتا ہے، اکاوٴنٹ میں رقم پہونچانے کا طریقہ، معتبر کارڈ کا ذریعہ استعمال کرنا ہے، جو مکمل طور پر معتبر اور دھوکہ وفریب سے محفوظ راستہ ہے، کسی زمانے میں یہی اے ٹی ایم کارڈ ، کرنسی نوٹ کی جگہ حاصل کرلیں گے، لہٰذا اس بناپر جو شخص بازار کی تلاش میں حصّہ نہیں لینا چاہتا ، ایک مکمل خریداری کرلیتا ہے اور چونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں قیمتوں کی شرح میں اضافہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نقد رقم کو سونے میں بدل لیتے ہیں، لہٰذا یہ طریقہٴ کار مکمل طور پر ایک معقول طریقہ نظر آتا ہے اور ایسا شخص جس نے مکمل طریقہ سے خریداری کی ہے، سونے کا سکّہ وصول کرلیتا ہے اور کسی دوسرے آدمی کی پہچان بھی نہ کرائے تب بھی اس کی خریداری پر کوئی اثر نہیں ہوگا، لہٰذا جو بات آپ کو بتائی گئی تھی کہ جب تک دوسرے لوگوں کی پہچان نہیں کراؤگے (یعنی دوسرے ممبر نہیں بناؤگے) تو آپ کو رقم نہیں ملے گی اور سونا وصول نہیں ہوگا، یہ بات اس وقت سے مخصوص ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص بازار تلاش کرنے کے کام میں شریک ہونے کا بذات خود خواہشمند ہو، اس صورت میں وہ شخص آدھی قیمت کی صورت میں خریداری کرتا ہے اور سونے کی باقی آدھی رقم کو بازار ڈھونڈنے اور کمپنی کے فائدے میں حصّہ دار ہونے کی غرض سے، اب ادا کرتا ہے، اگر کوئی بات اس تجارت کے حرام ہونے کا باعث ہے تو وہ لوگوں کا اس کی پہچان کرنا ہے، لہٰذا اس بناپر بازار کی تلاش بھی کہ عصر حاضر میں بہت لوگ اس کام میں مصروف ہیں، ایک حرام کام اور حکم شرعی سے علیحدہ کام شمار ہوتا ہے اور اگر کمپنی کی یہ بات جب تک دوسرے ممبران نہ بنائیں، اس وقت تک ہمیں کوئی رقم نہیں ملے گی، گولد کوئیسٹ کمپنی کے کام کے حرام ہونے کا باعث ہے تو اس سلسلہ میں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ چھ مہینہ کے بعد اگر کوئی شخص نئے ممبر نہ بناسکے تو جس قدر رقم اس شخص نے جمع کی ہے اسی کی مقدار کے برابر رقم یا سونا اس کے لئے بھیج دیا جاتا ہے کہ یقیناً یہ بات آپ کو ابھی تک بتائی نہیں گئی ہے، اس بناپر اگر کوئی کسی دوسرے کو ممبر بنانا نہ چاہے تب کامل طور پر خریداری کرتا ہے اور سونے کی مکمل قیمت ادا کرتا ہے، یہاں تک کہ ایک خاص سسٹم کے مطابق اپنا نام، پتہ اور اکاوٴنٹ نمبر پوشیدہ رکھ سکتا ہے تاکہ کسی کو اس کا نام تک بھی معلوم نہ ہوسکے، نیز جو چیزیں یہ کمپنی فروخت کرتی ہے ان میں واقع طور پر چند خصوصیت پائی جاتی ہیں، جو باعث ہوتی ہیں کہ ان چیزوں کی قیمت زیادہ یہاں تک کہ اس کے وزن کی قیمت سے زیادہ قیمت ہوجائے ! منجملہ یہ کہ سب سے پہلے ان کے اوپر ایک شکل بنائی گئی ہے، دوسرے یہ کہ اس کی پشت پر مالی تعاون حکومت کا ہے، تیسرے یہ کہ سونے کا گریٹ ۲۴ ہے، چوتھے یہ کہ ان سکّوں کو موجودہ اسٹینڈرڈ کے مطابق ڈھالا گیا ہے، یہ آخری خصوصیت باعث ہوتی ہے کہ جب سکّہ مکمل ہوجاتا ہے تو جو لوگ خوہشمند ہوتے ہیں وہ ہم سے خریدتے ہیں، اور اس کی قیمت کئی گُنا ہوجاتی ہے، میں گمان نہیں کرتا کہ اس قسم کے سکّوں کے رکھنے میں حرام ہونے کا کوئی مسئلہ پایا جاتا ہو، اس لئے کہ یہ ایک قسم کی تجارت ہے اور قیمتیں خود کمپنی کی طرف سے معین ہوتی ہیںاور یہ ایسی بات ہے جو حقیقت میں موجود ہے، یعنی ایسا ہورہا ہے اور اکثر دوستوں نے جو سکّہ یا سونا خریدا ہے کہ جس کی قیمت بڑھ گئی ہے یادوسرا فائدہ انھیں نصیب ہوا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ”چونکہ (اس طرح) انسان تیزی سے بے پناہ دولت حال کرلیتا ہے نیز کسی کوشش اور کام کئے بغیر ایسا ہوتا ہے لہٰذا حرام ہے“ تو اس مسئلہ میں عرض کردوں: ”اس کام میں اس قدر کوشش کی ضرورت ہے اور اس قدر سخت کام ہے کہ کبھی کبھی کھانے یا سونے کا وقت بھی نہیں مل پاتا!“ مذکورہ وضاحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، برائے مہربانی اپنا نظریہ بیان فرمائیں ۔

جواب: اس کام کی اصل مشکل دو چیزیں ہیں کہ جن پر ہماری پوری توجہ ہے اور اس کام کے حرام ہونے کی دلیل یہی دو چیزیں ہیں: پہلی چیز یہ کہ سکّوں کو بازار کی واقعی قیمت کے مطابق فروخت نہیں کیا جاتا بلکہ واقعی قیمت کے دو یا تین گُنا زیادہ قیمت میں فروخت کیا جاتا ہے جبکہ اس فالتو قیمت کا ایک حصّہ کمپنی میں آتا ہے اور کچھ رقم پہلے نمبر کے لوگوں کے حصّہ میں آجاتی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ بعد کے نمبر کے ممبران نقصان میں گرفتار ہوجائیں گے، حقیقت میں قیمت کا اضافی حصہ ایک طرح کا ناجائز مال ہے اور اس آیہٴ کریمہ <لَاتَاٴکُلُوا اٴَمْوَالَکُم بَینَکُم بِالْبَاطِلِ کو شامل ہے، جبکہ سکّہ پر منقش تصویر اور اس کی آئندہ حالت یہ سب جھوٹ کے پردے ہیں جو ان غلط کاموں پر ڈالے جاتے ہیں، دوسرے یہ کہ جو لوگ اس لین دین میں شامل ہوتے ہیں ان کے یہاں نہ تو کوئی صنعت وکارخانہ ہے نہ کھیتی باڑی ہوتی اور نہ صحیح تجارت ہوتی ہے، تو پھر وہ لمبی رقمیں جو کمپنی اور فہرست میں پہلے نمبر کے آدمی کو حاصل ہوتی ہیں، وہ رقم کہاں سے آتی ہے؟ اگر واقعاً اس طرح سے مالدار ہوا جاسکتا ہے تو بہتر ہے کہ سب لوگ اپنے کام کاج چھوڑکر اسی طرح کے جھوٹے پروگراموں کے پیچھے پڑجائیں! اور مختصر یہ کہ یہ کام جوئے اور لاٹری کی طرح کا کام ہے اور اس کے ذریعہ سے حاصل شدہ آمدنی حرام ہے“ ابھی تک بہت سے حضرات نے ہمارے پاس اس کی دسیوں قسم کے بارے میں تحریر کیا ہے اور اس کی وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ہم نے ان سب کو انکار میں جواب دیا ہے، آپ اپنی رقم کو اس کمپنی یا ادارے سے واپس لے سکتے ہیں، آپ جیسے با ایمان حضرات کے لئے اس کام میں ملوّث ہونا مناسب نہیں ہے ۔

سوال ۴۸۱۔ ایک انجمن کے کچھ جوانوں نے ارادہ کیا ہے کہ ہر جوان ایک ہزار تومان قربةً الی الله کی نیت سے ادا کرے اور پیسہ دینے والوں میں قرعہ اندازی کے ذریعہ ایک شخص کو پوری انجمن کی نیابت میں زیارت کرنے کے لئے کربلا بھیجیں، اس کام کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر قربةً الی الله کی نیت سے ہو، قرعہ اندازی میں شریک ہونے کی غرض سے نہیں تب کوئی اشکال نہیں ہے ۔

سوال ۴۸۲۔ ایک ادارے کی ذمہ داری ہے کہ علمی، تعلیمی اور قرآنی لحاظ سے تربیتی پروگرام اور نصاب ترتیب دے، اسی طرح حفظ قرآن، قرائت، تجوید، تفسیر اور اہلبیت علیہم السلام کے علوم کی نشر واشاعت کے لئے ادارے قائم کرے، جمہوریہ اسلامیہ ایران کے قرآنی علوم میں کام کرنے والے صاحبان افتخار لوگوں کی پہچان کرائے، اندرون ملک اور بیرون ملک قرآنی اور علمی ادارے سے رابطہ برقرار کرے، مختصر مدت کے لئے قرآن کی کلاسوں کا انتظام کرے، تخصصی اور تحقیقی کاموں کے لئے لائبریریاںاور ادارے تعمیر کرائے، تحفہ اور ہدیہ قبول کرکے انعامات تقسیم کرے بہرحال ملکی سطح پر قرآنی علوم کے میدان میں اس ادارے کے ممتاز فعالیت ہے، اسی سلسلہ میں مذکورہ ادارہ، درج ذیل شرائط کے ساتھ پروگرام چلانے کا ارادہ رکھتا ہے:
۱۔ قرآنی علوم اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کے پیغامات پر مشتمل مضامین کے سلسلہ میں سوالنامہ تیار کرے ۔
۲۔ قرعہ اندازی کے لئے سوالنامہ میں نمبر درج کرے ۔
۳۔ شام اور زیارتی مقامات کا سفر، نقد رقم یا غیر نقدی انعامات کی تقسیم۔
مذکورہ انعامی مقابلوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ شریک ہونے کے خواہشمند حضرات انعامی مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے کچھ رقم ادا کریں، مذکورہ جمع ہونے والی رقم میں سے پروگرام کے اخراجات کم کرنے بعد قرعہ کے ذریعہ یا جنھوں نے زیادہ سوالوں کے صحیح جوابات لکھے ہیں، ان حضرات میں کچھ رقم کے انعامات، تقسیم کئے جائیں اور باقی رقم کو مذکورہ کاموں میں خرچ کیا جائے، اس قسم کے انعامی مقابلوں کے بارے میں جنابعالی کا کیا نظریہ ہے؟

جواب: اگر وہ رقم ان خدمات کے بدلے میں وصول کی گئی ہو جو ادارہ، قرآن مجید کی تعلیم کے سلسلے میں انجام دیتا ہے تب تو قرعہ کے ذریعہ شرکت کرنے والوں کو انعامات دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ورنہ اس کے علاوہ دوسری کسی صورت میں جائز نہیں ہے ۔

سوال ۴۸۳۔قیدیوں کی حمایت کے لئے بنائی گئی ایک انجمن، خصوصاً قیدیوں کے گھرانوں کے سلسلہ میں، وسیع پیمانہ پر فعّالیت کرتی ہے، اس انجمن کی کارکردگی، تعلیم ، تربیت، اصلاح، رہنمائی، ہدایت، ان کی سرپرستی، نگہداشت، مکان کے لئے مدد، مکان کا کرایہ ، زندگی کا سازوسامان، علاج معالجہ، رہائی کے بعد دیکھ بھال، کام دلانا، کام کے مواقع فراہم کرنا، یا مالی مدد کرنا،تہذیب وتعلیمی کاموں پر تشویق کرنا اور ترغیب دلانا اور اسی طرح کے دیگر کاموں کو شامل ہے لیکن مالی بنیاد کمزور ہونے کی وجہ سے انجمن اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر قادر نہیں ہے، قانون اور آئین کے تحت، عوام سے نقد یا غیر نقد مدد حاصل کرنے کی بنیاد پر رفاہ عام، نیک امور اور اقتصادی کام کرنے کی انجمن کو اجازت ہے، مذکورہ گھرانوں (جو ملکی سطح پر وسیع پیمانہ اور کثیر تعداد میں موجود ہیں) کی معیشت کو بہتر بنانے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے مقصد سے اور اس سلسلہ میں عوامی امداد وصول کرنے کے لئے، دولتمند نیک لوگوں کو، ”مسکراہٹ لانے والوں سے امید“ کے نام سے شیئر فروخت کرنا چاہتی ہے، مذکورہ شیئر کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں سے خریداروں کی اجازت سے، کچھ رقم، قرعہ کے ذریعہ انعامات تقسیم کرنے میں خرچ کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کارِخیر کی طرف ان کے رجحان اور شوق میں اضافہ ہو اور اس کام کے لئے شرعی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا اس سلسلہ میں جنابعالی کا کیا نظریہ ہے؟

جواب:اگر یہ امداد مکمل طور پر نیک کاموں پر خرچ کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس کا کچھ حصّہ انعامات اور قرعہ اندازی پر خرچ کیا جائے اور لوگوں نے اسی نیت سے مدد کی ہو تو اس میں اشکال ہے
4 . هتهیلی بجانا6 . مجسمه بنانا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma